کراچی: 5 روز قبل لاپتہ ہونے والی نوجوان لڑکی دعا زہرہ کیس سے متعلق پولیس نے تفتیشی رپورٹ تیار کر لی ہے۔پولیس کی تفتیشی رپورٹ اور بچی کے اہلخانہ کے بیانات میں تضادات سامنے آگئے ہیں۔
پولیس رپورٹ کے مطابق لاپتہ بچی کے والد نے بتایا کہ دعا ساتویں جماعت کی طالبہ ہے جبکہ اسکول انتظامیہ کے مطابق بچی تیسری جماعت تک اسکول آتی تھی، تیسری جماعت تک بچی کے اسکول آنے کی تصدیق کلاس فیلوز نے بھی کی۔
بی بی سی کے مطابق کراچی میں 16 اپریل کو جناح باغ میں سیاسی گہما گہمی تھی، تحریک انصاف کے جلسے میں جذباتی تقاریر اور نعرے بازی عروج پر تھی۔ جلسہ رات کو دو ڈھائی بجے ختم ہوا تو جلسہ گاہ سے چند قدم کے فاصلے پر نمائش چورنگی میں ایک نئی کہانی نے جنم لیا۔
یہ کہانی 14 سالہ دعا کاظمی کی گمشدگی کی جس کو آج پورے شہر کے پولیس تلاش کر رہی ہے۔
کراچی کے علاقے نمائش چورنگی پر ماہِ رمضان میں فلاحی تنظیم جعفریہ ڈزاسٹر سیل کی جانب سے روزہ داروں کے لیے سحری اور افطاری کا بندوبست کیا جاتا ہے۔
ادارے کے سربراہ ظفر عباس نے بی بی سی کو بتایا کہ اس شب وہ لوگوں کو سحری کرانے کے بعد بیٹھے تھے کہ دعا کاظمی کے والد سید مہدی علی کاظمی، ان کی والدہ اور خالہ آئیں اور بتایا کہ ان کی بیٹی لاپتہ ہے لیکن پولیس ان کی نہیں سن رہی اور کہہ رہی ہے کہ وہ جلسے میں مصروف ہے۔اس کے بعد ظفر عباس نے لڑکی کے والد کے ساتھ ایک ویڈیو بنائی جس میں آئی جی سندھ، ڈی جی رینجرز اور دیگر حکام سے اپیل کی گئی اور کہا گیا کہ آپ بھی بیٹی والے ہوں گے ان کا درد محسوس کریں جس کے بعد یہ ویڈیو وائرل ہو گئی اور حکام نے نوٹس لے لیا۔
سید مہدی علی گولڈن ٹاؤن کورنگی کے رہائشی ہیں، وہ آئی ٹی کے شعبے سے منسلک ہیں اور گھر سے ہی کام کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’ان کی 14 سالہ بیٹی دعا دوپہر کو تقریباً 12 بجے کے قریب کچرا پھینکنے نیچے گلی میں گئی تھیں جہاں سے لاپتہ ہو گئیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے وہاں پڑوسیوں سے معلوم کیا لیکن اسے کسی نے نہیں دیکھا تھا، جو وہاں دو کیمرے لگے ہوئے ہیں اس میں بھی کوئی نظر نہیں آ رہا تھا، پولیس اور ہمیں ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔
مہدی کاظمی کی تین بیٹیاں ہیں جن میں دعا سب سے بڑی تھیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کورونا کے بعد انھوں نے دعا کو سکول نہیں بھیجا اور سوچا کہ ویکسین کروانے کے بعد بھیجیں گے لیکن یہ ممکن نہیں ہوا۔
یہ واقعہ کراچی کے الفلاح تھانے کی حدود میں پیش آیا اور مہدی کاظمی کے مطابق اس سے قبل تو پولیس ان کی بات سننے کو تیار نہیں تھی تاہم اب رینجرز، انٹیلیجنس سمیت تمام ادارے متحرک ہیں اور یہ سب اس وقت ممکن ہوا جب ظفر عباس کی ویڈیو وائرل ہوئی۔
انھوں نے کہا کہ ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن اور دیگر حکام مہدی کاظمی کے گھر پر گئے اور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ پولیس پر اعتماد کا فقدان ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ پولیس کا عدم تعاون ہے بلکہ ’یہ ایک فطری عمل ہے کہ ایسے کیسز میں فیملی اور والدین تو یہی چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ جلد از جلد واپس آئے لیکن پولیس اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
’اس وقت تین ٹیمیں کام کر رہی ہیں اس کے علاوہ ایس ایس پی ’اینٹی وائلنٹ کرائم سیل‘ اس کی نگرانی کر رہے ہیں۔
مہدی کاظمی نے بتایا کہ انھیں واٹس ایپ پر دو پیغام آئے تھے جن میں تاوان طلب کیا گیا، انھوں نے مطالبہ کیا کہ ان کی دعا سے بات کروائی جائے تاکہ انھیں یقین ہو کہ بچی ان کے پاس ہی ہے لیکن اس کے بعد سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔
جے ڈی سی کے ظفر عباس نے بتایا کہ والدین کو گمراہ کن اطلاعات اور بلیک میلنگ کے ذریعے تنگ کیا جا رہا ہے، ان کے پاس بھی حیدرآباد سے کال آئی تھی اس شخص نے بتایا کہ انھیں پتہ ہے کہ لڑکی کہاں ہے؟انھوں نے اس کو والد کا نمبر دیا کہ انھیں بتاؤ، پولیس نے اس کی نشاندہی پر سانگھڑ میں چھاپہ مارا اور وہاں سے ایک 14، 15 سالہ لڑکی کو بازیاب کیا گیا وہ لڑکی بھی کراچی کی ہی تھی لیکن وہ دعا کاظمی نہیں تھی۔
مہدی کاظمی کے مطابق انھیں کچھ پڑوسیوں پر شبہ ہے جس کے بارے میں انھوں نے پولیس کو آگاہ کیا ہے۔ انھیں یقین ہے کہ ان کی بچی جلد بازیاب ہو جائے گی، باوجود اس کے وہ کئی خدشات میں مبتلا ہیں۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ دعا زہرہ کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )