یہ سمجھا جاتا ہےکہ پاکستان نے سیاسی عمل کے ذریعے اور جمہوریت کے بطن سے جنم لیا تھا۔ مگر تاریخ کا جبر دیکھئے کہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں غیر جمہوری اور آمرانہ طرز حکومت نے جڑیں پکڑنا شروع کر دیں۔ جمہوری آئین، سیاسی عمل، جمہوریت، جمہوری حقوق اور عوامی ووٹوں سے منتخب حکومت کا قیام شجر ممنوعہ قرار پایا۔ سول افسر شاہی ، جنرل ایوب خان اور جنرل یحیٰ خان نے 1970 تک ملک پر آمریت مسلط کیے رکھی۔ قیام پاکستان کے تئیس سال بعد 1970 میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے۔ اس وقت کے مشرقی پاکستان یعنی آج کے بنگلہ دیش کے عوام نے قومی خودمختاری اور جمہوری حقوق کی علمبردار سیاسی پارٹی عوامی لیگ کو تقریبا 99 فیصد مینڈیٹ دے کر اسلام آباد کے درودیوار ہلا ڈالے۔ قومی، جمہوری اورمعاشی حقوق سے محروم بنگالی عوام نے مغربی پاکستانی سول و فوجی افسر شاہی کے آمرانہ غیر جمہوری تسلط سے نجات حاصل کرتے ہوئے ایک خودمختار ریاست بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کر دیا۔
مغربی پاکستان کو پاکستان کا نام مل گیا۔ قیام پاکستان کے 26 سال بعد سر زمین بے آئین کو عوامی منتخب نمائیندوں نے پہلا متفقہ 1973 کا جمہوری وفاقی آئین دیا۔ مگر ریاست کا چلن نہ بدلا۔ ایک وفاقی جمہوری آئین کے نفاذ کے باوجود ریاستی ادارے غیر جمہوری طرز اور سوچ کو ترک کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ بلآخر 1977 کو بھٹو کی آئینی حکومت جنرل ضیا کے مارشل لا سے ختم ہوئی ۔ آئین کے خالق اور پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 1979 میں تختہ دار پر لٹکا کر غیر جمہوری قوتوں نے آئینی و جمہوری حکومت اور سیاست کو پسپا کر دیا۔
کیا 1970 کے انتخابات اور ان کے بعد آج تک منعقد ہونے والے انتخابات آزادانہ، شفاف او ر ریاستی اداروں کی مداخلت کے بغیر منعقد ہوتے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 1970 کے انتخابات آزادانہ اور ریاستی اداروں کی مداخلت سے پاک تھے۔ جنہیں ریاستی سطح پر کسی پارٹی کی حمائت یا مخالفت میں مینج کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ مگر تاریخی شواہد اور باخبر افراد کچھ اور بیان کرتے ہیں۔ ان انتخابات میں بھی عوامی لیگ، پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کے مقابلے میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں بشمول جماعت اسلامی کو جنرل یحیٰ خان سرکارکی سرپرستی کے واضع شواہد ملتے ہیں۔ مگر جنرل یحیٰ خان کی انتظامیہ نےکھلی اور ننگی دھاندلی کرنے سے پرہیز کیا۔ جس کے نتیجے میں بائیں بازو کے رجحان رکھنے والی سیاسی جماعتوں عوامی لیگ، پیپلز پارٹی اورنیشنل عوامی پارٹی نے پاکستان کے پہلے انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کی۔
اب تک 1970 کے انتخابات کے بعد ملک میں دس عام انتخابات منعقد ہو چکے ہیں۔ ایک الیکشن 1977 میں بھٹو دور حکومت میں منعقد ہوئے۔ اس وقت کی متحدہ اپوزیشن نے الیکشن نتائج تسلیم نہ کرتے ہوئے دھاندلی کا الزام لگا کر متشدد تحریک چلائی تھی۔ جس کا بہانہ بنا کر جنرل ضیا نے جولائی 1077 میں بھٹو کی آئینی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا کا نفاذ کیا تھا۔ ضیا مارشل لا کے دوران 1985 میں غیر جماعتی الیکشن منعقد کرائے گئے۔ کسی سیاسی جماعت کو بطور سیاسی جماعت ان انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔ ان انتخابات کو کسی صورت فری، فیئر اور آزادانہ الیکشن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جنرل ضیا کے بعد 1988 کے الیکشن بھی ریاستی مداخلت کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ بے نظیر بھٹو شہید کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کو محدود کرنے کے لئے اسٹبلشمنٹ کی زیر سرپرستی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کی قیادت میں دائیں بازوں کی سیاسی جماعتوں کا اسلامی جمہوری اتحاد کھڑا کیا گیا۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل گل حمید نے بے نظیر بھٹو شہید کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد کو منظم کرنے اور غیر قانونی ذرائع سے وسیع مالی سپورٹ فراہم کرنے کا برملا اعتراف کیا تھا۔ ایک سابق آئی ایس آئی چیف جنرل اسد درانی بھی کھلے عام عسکری اسٹبلشمنٹ کی جانب سے اسلامی جمہوری اتحاد کی پشت پناہی کرنے کی گواہی دے چکے ہیں۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد اسٹبلشمنٹ کے لئے الیکشن مینجمٹ کا ایک موثر ہتھیار تھا۔
نوے کی دہائی میں 1990، 1993 اور 1997 میں منعقد ہونے والے تمام انتخابات کے نتائج متنازعہ بنے رہے۔ ان سب انتخابات کو غیرجانبدارانہ ، شفاف، آزادانہ اور دھاندلی سے پاک تسلیم نہیں کیا گیا۔ اسٹبلشمنٹ کے کارندے یعنی صدر اسحاق کے ذریعے جنرل ضیا کے مسخ شدہ آئین سے حاصل صدارتی اختیارات کے تحت اسمبلیاں توڑنے اور انتخابات کو مینج کرنے کا دھندہ خوب چلا۔ نوے کی دہائی میں اسٹبلشمنٹ نے نہ عوامی مینڈیٹ تسلیم کیا اور نہ ہی منتخب پارلیمنٹ کو آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دیا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتوں اور پارلیمنٹ کو دو تین سالوں سے زیادہ عرصہ نہیں چلنے دیا گیا۔ یہ عیاں تھا کہ جنرل ضیا کے بعد غیر جمہوری قوتوں نے پارلیمنٹ کو اقتدار کی منتقلی کھلے دل سے قبول نہیں کی تھی۔ بالآخر اکتوبر 1999 کو جنرل مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کاخاتمہ کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہ ملک کی مختصر تاریخ میں فوجی جنرلوں کا اقتدار پر چوتھا ناجائز قبضہ تھا۔
جنرل مشرف نے ملک کی دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے راہنماؤں بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کو جلا وطن کر دیا، جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ ریاستی جبر کے ذریعے پی پی پی اور ن لیگ کی تو پھوڑ کی گئی۔ مائنس ٹو یعنی بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو ملک سے بے دخل کر کے فوجی انتظامیہ کے زیر سایہ 2002 میں عام انتخابات منعقد کرا کے جنرل مشرف نے اپنی پسند کے نتائج حاصل کر لئے تھے۔ 1985 اور 2002 کے انتخابات کو فوجی جرنیلوں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے اور قانونی جواز فراہم کرنے کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔
بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے مابین میثاق جمہوریت کے بعد 2008 اور2013 میں منعقد ہونے والے انتخابات کو کسی حد تک غیرجانبدارانہ کہا جا سکتا ہے۔ ظاہراً وجہ یہ کہی جا سکتی ہے کہ ان الیکشن میں پی پی پی اور ن لیگ نے اقتدار تک پہنچنے کے لئے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ساز باز کرنے سے تقریباً پرہیز کیا۔ ایسی صورت حال اسٹبلشمنٹ کے لئے ناقابل قبول تھی۔ اسٹبلشمنٹ کے کرتا دھرتا سمجھتے تھے کہ سیاسی انجیئنرنگ اور الیکشن مینجمنٹ کے بغیر ریاستی و حکومتی نظام پر اس کی گرفت کمزور پڑ جائے گی۔ اس پس منظر میں اسٹبلشمنٹ 2013 کے الیکشن سے قبل تحریک انصاف کی شکل میں ایک نئی سیاسی قوت کھڑی کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ عمران خان نے اسٹبلشمنٹ کے منصوبہ پر عمل کرتے ہوئے سیاسی قوتوں خصوصاً پی پی پی اور ن لیگ کے خلاف محاذ آرائی اور انہیں عوام کی نظروں میں بے نقاب کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔ بالآخر اسٹبلشمنٹ، عدلیہ اور پی ٹی آئی کے گٹھ جوڑ کے نتیجہ میں نواز شریف کو 2017 میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہو کر جیل کی ہوا کھانی پڑی۔
میاں نواز شریف کو قیدی بناکر اور نواز لیگ کی توڑ پھوڑ کرکے مقتدرہ نے اپنے نئے کٹھ پتلی عمران خان کو مسند پر بٹھانے کا راستہ ہموار کرنا شروع کر دیا تھا۔ نواز شریف کو مائنس کر کے 2018 کے الیکشن میں ایک بار پھر جادو کی چھڑی نے رات کی تاریکی میں معجزہ دکھایا۔ نتائج مرتب کرنے والا سسٹم بیٹھ گیا۔ کیا خوب چمتکار ہوا کہ جیتنے والے ہار گئے اور ہارنے والے جیت گئے۔ مقتدرہ کے من چاہے عمران خان کو بالآخر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان کرا دیا گیا۔ 2018 کے انتخابات سے قبل الیکشن انجینئرنگ، الیکشن کے دن منظم دھاندلی اور بعداز الیکشن مینجمنٹ کی بازگشت کی گونج ابھی تک فضاوں میں سنائی دیتی ہے۔آج ایک بار پھر ملک میں نئے عام انتخابات کا بگل بج چکا گونج ہے۔ 8 فروری 2024 کو عام انتخابات کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں۔ یہاں یہ دہرانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان میں انتخابات کی تاریخ جھرلو اور دھاندلی زدہ انتخابی نتائج سے عبارت رہی ہے۔ ریاستی اداروں کی سیاسی اور انتخابی عمل میں ننگی مداخلت کی داستانیں عوام کو نہیں بھولتیں۔ ایک بار پھر مائنس ون فارمولے پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔ اس بار مائنس ہونے کا قرعہ پھر سابق وزیر اعظم عمران خان کے نام نکالا گیا ہے۔ سیاسی انجیئنرنگ اور پری الیکشن مینجمنٹ بڑے زور شور سے جاری ہے۔ عمران خان جیل یاترا پر بھیج دیے گئے ہیں اور انتخابات کے لئے نااہل قرار پائے۔ ریاستی کریک ڈاون سے ان کی جماعت پی ٹی آئی کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ الیکشن مینجمنٹ کا کمال ہے کہ الیکشن سمبل سے محروم کئے جانے کے بعد پی ٹی آئی انتخابی عمل سے باہر کر دی گئی ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ اسٹبلشمنٹ کی پشت پناہی سے میاں نواز شریف اور آصف زرداری کو سیاسی میدان سے نکالتے نکالتے عمران خان سیاسی میدان سے خارج ہونے کے راستے کے مسافر بن چکے ہیں۔
آج عوام سوچنے پر مجبور ہیں کہ مقتدرہ اپنی پسند کے انتخابی نتائج اور اپنے کٹھ پتلی سیاستدانوں کو ہی حکومت کی باگ ڈور کیوں پکڑانا چاہتی ہے۔ عوام کے فیصلوں کو کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ عوام میں مقبول لیڈروں اور پاپولر سیاسی پارٹیوں کو کیونکر اسٹبلشمنٹ اپنا مخالف سمجھتی ہے۔ ایک مقبول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل، دوسری مقبول وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کا بیچ چوراہے بہیمانہ قتل، ایک اور مقبول وزیر اعظم نواز شریف کی جلاوطنی اور جیل یاترا، اب پھر ایک اور مقبول وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی اور عوامی قوت کی کمر توڑنے کے لئے ریاستی جبر کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اسٹبلشمنٹ عوام، عوامی فیصلوں، مقبول سیاسی جماعتوں اور لیڈروں سے خوفزدہ کیوں ہے۔ عوامی فیصلوں کو تسلیم نہ کرنا، انہیں ریاستی جبر، سیاسی انجیئنرنگ، الیکشن مینجمنٹ اور دھاندلی سے بدلنے کو کیا کہا جا سکتا ہے۔ اسے ریا ست اور سیاست کے دیوالیہ پن اور کھوکھلے پن سے تعبیر کرنے کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے۔ عوامی خواہشات، امنگوں اور فیصلوں کو کچلنے والی قوتوں کی اگرعوام تکریم و احترام کرنا چھوڑ دیں تو اس کا الزام کس پر دھرا جائے۔عوامی فیصلوں کو غیر مشروط قبولیت اور احترام کا حق ملنے اور ریاستی اداروں کے آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہنے تک عوام اور ریاستی اداروں کے مابین باہمی اعتماد اور احترام کے رشتہ کا برقرار رکھنا مشکل نظر آتا ہے۔