بہت مشکل ہوتا ہے کوئی مصنف یا پبلشر پہلے سے کسی معروف کتاب کے نام میں صرف ”بھی “ کے اضافے سے سابق مشرقی پاکستان سے اپنی ”ہجرت “ کی یادوں کو یوں چھاپ دے ۔ پہلے ٹائیٹل کے بارے میں ایک بات – یہ بنگلہ دیش کے نامور مصور زین العابدین (شلپا چاریہ) کے البم میں سے لیا گیا ۔
ظاہر ہے کہ محمد اسلام تبسم نہ صدیق سالک ہے ،نہ مسعود مفتی ، نہ وہ عساکر میں سے ہے نہ افسر شاہی میں سے، وہ تب دیناج پور میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا ، دادا اس، کے چٹھی رساں یا ڈاکئے تھے ، شاید انہی کی وجہ سے اسلام تبسم کے والد کو سب پوسٹ ماسٹر کی نوکری مل گئی ۔ یہ خانوادہ بہاری تھا ، بہار سے سابق مشرقی پاکستان آیا تھا ۔ (ایم کیو ایم کی قیادت نے ”بچے کھچے محصورین “ کی کراچی میں منتقلی کا مطالبہ کیا ہے ) اس بے حد دلچسپ کتاب میں نہ صرف سیاسی رنگ بدلتے دیناج پور کے نچلے متوسط طبقے کے شب و روز،کا احوال ہے بلکہ مختلف ”دلالوں“ کے ذریعے بھارت کے راستے پاکستان جانے کی کوشش کا ذکر بھی ہے جو ایک بیاض بردار اردو شاعر کی وجہ سے ناکام ہوتی ہے ۔ معصوم بچے نے اپنے ہم جولیوں ،ہمسایوں اور رشتہ داروں کا حال بھی لکھا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بنگلہ زبان سیکھ کر حفظ جان کے بچگانہ حیلے بھی بیان کئے ہیں بلکہ اس” بہار “ کے عزیزوں رشتہ داروں کا احوال بھی لکھا ہے جن کی نسبت سے یہ سب بہاری کہلائے۔اس کتاب کی بڑی بات یہ ہے کہ دکھوں اور محرومیوں کے ذکر کے باوجود تلخی یا کلبیت نہیں اور نہ ہی دکھ درد کو ”بیچنے “ کی کوشش ہے ۔ اس میں سے کئی اقتباسات دئیے جا سکتے ہیں مگر میں تین دینا چاہتا ہوں۔
”نگلہ دیش کے قیام کے چند ہفتے بعد ڈھاکہ میں اس،مقام پر جہاں پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈالے تھے ، شیخ مجیب اور اندرا گاندھی نے بڑے جلسے سے خطاب کیا ۔۔۔اندرا گاندھی نے بنگلہ میں تقریر شروع کی مگر چند جملوں کے بعد اردو بولنے لگیں یہ کہہ کر کہ انہیں بنگالی نہیں آتی“
یا
” رتی ، کالی مرچ کے برابر موٹی ہوتی ہے سرخ رنگ کا ، البتہ کچھ حصے کالا ہوتا ہے بس یہ مشہور ہو گیا، کہ یہ پہلے مکمل سرخ ہوتی تھی ، جب سے سونے کے ساتھ تلنے لگی اس کا منہ کالا ہو گیا ” یا
“ سامان باندھنے کے بعد والد صاحب پان والے کے پاس،گئے ، ایک روپیہ پچیس پیسے فی کلو کے حساب سے دو من کے قریب پان خریدے اور لوہے کے ٹرنک میں پیک کر لیا “
اسی طرح کراچی پہنچ کر پانی کے لئے لڑائی دیکھی یا کراچی میں مشرقی پاکستان سے منتقل ہونے والے ملازمین میں سے ایک ہم جنس ( "ہم قوم ")کی اپنے اور اپنے بیٹے کے نام پر دو کوارٹروں پر قابض ہو کر بھی تنگ دلی ۔
یہی نہیں 50 برس پہلے کا ملتان جہاں اسلام تبسم نے اردو سیکھی ، تعلیم پائی ، آبائی محکمے ( ڈاک خانے ) میں ملازمت کی ،شادی کی ، اہلیہ کی رحلت کا صدمہ دیکھا،ریٹائرمنٹ لی ، بیٹی کی شادی کی اور پھر شاید بائی پاس کرایا مگر اپنے نام کے لاحقے تبسم کو نہ ہٹایا ۔
اس کے پبلشر رضی الدین رضی ہیں جنہوں نے 16 دسمبر 2023 کو یہ کتاب چھاپی اور اپنے بیٹے عبدالحنان کو اس، کا تقسیم کار بنایا ۔ کتاب منگوانے کے لیے رابطہ 03186780423 بذریعہ خط و کتابت : 73 اے جلیل آباد کالونی ملتان۔
(مجھے ندامت ہے کہ رضی نے یہ کتاب مجھے اسلام آباد میں ایسے بھیجی کہ میں اس کی قیمت+ ٹی سی ایس ادا نہیں کر سکا ۔مجھے یقین ہے کہ میرے شاگرد اور دوست اس کی تلافی کریں گے )
فیس بک کمینٹ