دنیا کے فیصلے تو واشنگٹن اور ماسکو میں ہوتے ہیں مگر پاکستان کے فیصلے ڈاؤ میڈیکل کالج میں ہوتے ہیں۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا نیشنل سٹوڈنٹس فیدریشن اور اُس کی روحِ رواں ڈاکٹر رشید حسن خان کو خِراجِ تحسین تھا۔ یہ اشتراکِ عمل شاید کچھ زیادہ دیر تک چلتا اگر بھٹو صاحب نے انیس سو انہتر میں ڈاکٹر رشید حسن خان کو یہ تجویز نہ کیا ہوتا کہ این ایس ایف اور پیپلز پارٹی میں وہی رشتہ ہونا چاہیئے جو جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے مابین ہے۔ یہ تجویز ڈاکٹر رشید حسن خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے مابین ایک خطِ کشیدہ ثابِت ہوئی کیونکہ ایک حقیقی انقلابی تنظیم کا موازنہ ایک بنیاد پرست فاشسٹ جماعت سے کرنا یوں بھی بھٹو صاحب کو روا نہ تھا، دوسرے این ایس ایف تو پیپلز پارٹی کے قیام سے کہیں پہلے نہ صرف عوام میں کام کر رہی تھی بلکہ ایوب خان کے تابوت میں آخری کیل بھی این ایس ایف ہی ثابت ہوئی اور تیسرے یہ کہ این ایس ایف اپنے قیام سے لے کر آج تک کِسی سیاسی جماعت کی بغل بچہ تنظیم نہیں رہی۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ جب بھی کوئی امریکن صدر پاکستان آتا تو اُس کے استقبال کی تیّاریوں کے سلسلے میں سب سے پہلے این ایس ایف کے کارکنان کو ہی پسِ دیوارِ ز نداں ڈال دیا جاتا کیونکہ بھٹو صاحب کی سوچ یہ تھی کہ کوئی بھی پارٹی امریکہ کی مرضی کے بغیر حکومت نہیں بنا سکتی۔ اور یہ بات تو اِس کے بھی بعد کی ہے کہ ڈاکٹر رشید حسن خان کی قیادت میں این ایس ایف مشرقی پاکستان اور بلوچستان میں فوج بھیجنے کے قطعی مخالِف تھی۔
تاہم یہ سب باتیں بعد کی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور این ایس ایف کے مختصر رومان کی داستان کا پہلا پڑاؤ بھٹو صاحب کے استعفیٰ دینے کے بعد ڈاؤمیڈیکل کالج میں مذکورہ جلسے سے شروع ہوتا ہے۔ جب ایوب خان کو اُس کے کارندوں نے بتایا کہ اُسی کی بنائی ہوئی نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن، جِس پر کالعدم ڈیموکریٹک سٹودنٹس کے انقلابی غلبہ حاصِل کر چکے ہیں، اُسی کے طالبِ علم کارکنان نے بھٹو صاحب کا پہلا عوامی جلسہ ڈاؤ میڈیکل کالج میں رکھ لیا ہے تو ایوب خان کو صدارت کے لالے پڑ گئے۔ جلسے سے ایک روز پہلے صوبائی وزیرِ صحت ز اہدہ خلیق الزماں نے ڈاؤ میڈیکل کالج کے پرنسپل کو حکم دیا کہ کِسی بھی طور اِس جلسے کو رکوایا جائے۔ بقولِ شخصے، ایوب کا کہنا تھا کہ ۔۔۔۔
Don’t count the “chickens” in one basket. They can be dangerous
اور یہ combination یا اشتراک واقعی خطرناک تھا۔
لہٰذہ ڈاؤ میڈیکل کالج کے پرنسپل کرنل ایم اے شاہ فی الفور کالج کے ہاسٹل پہنچے جہاں ڈاکٹر رشید حسن خان کے زیرِ صدارت جلسے کے انتظامات کے حوالے سے ایک اِجلاس پہلے سے جاری تھا۔ کرنل صاحب نے حسبِ توفیق طلبہ کو حکومتی شر سے بچنے کی تلقین کی مگر جلد ہی ان کو طلبہ کے عزم و استقلال کا انداز ہ ہو گیا۔ اِس پر انہوں نے طلبہ کو یہ جلسہ کِسی اور جگہ کروا لینے کی درخواست کی، جِس پر طلبہ نے ازراہِ احترام ’غور‘ کرنے کا وعدہ بھی کر لیا۔ مگر طلبہ کے عزائم کو کرنل شاہ سمجھ سکتے تھے۔ تبھی وہ ٹہلتے ہوئے کمرہء اجلاس کے باہِر این ایس ایف کے حتمی جواب کا انتظار کرتے رہے۔ جب طلبہ نے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا کہ بھٹو صاحب کا جلسہ ڈاؤ میڈیکل کالج میں ہی ہو گا تو وہ طلبہ کو کالج سے نکال دینے کی دھمکیاں دیتے ہوئے رخصت ہو گئے۔
اگلے دِن این ایس ایف کے کارکنان کالج پہنچے تو مرکزی گیٹ بند تھا اور اس کے سامنے ایک پکی دیوار کھڑی کر دی گئی تھی۔ مگر یہ دیوار این ایس ایف کا راستہ کہاں روک سکتی تھی۔ کالج کھلنے سے پہلے ہی این ایس ایف کے کارکنان تمبو، قناتیں اور کرسیاں وغیرہ کالج کے احاطے میں لگا چکے تھے۔ اگلے مرحلے پر انتظامیہ نے ایک فہرست جاری کی، جِس میں ان طلبہ و طالبات کے نام تھے جنہیں یہ جلسہ کرنے کے جُرم میں کالج سے نِکالا جا رہا تھا۔ این ایس ایف نے اِس فہرِست میں کئی اور نام لِکھ کر اپنے اپنے دستخطوں کے ساتھ وہ فہرِست کالج انتظامیہ کو لوٹا دی۔ طلبہ کے اِس عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ جلسہ ہوا اور بے حد کامیاب ہوا۔
بھٹو صاحب این ایس ایف کی طاقت اور انتظامی صلاحیتوں کے اِس قدر گرویدہ ہوئے کہ اتب انہوں نے یہ فقرہ کہا کہ ۔۔۔۔
’دنیا کے فیصلے تو واشنگٹن اور ماسکو میں ہوتے ہیں مگر پاکستان کے فیصلے ڈاؤ میڈیکل کالج میں ہوتے ہیں‘
یہ اشتراکِ عمل کُچھ دیر چلا۔ بھٹو صاحب نے این ایس ایف سے وعدہ کیا تھا کہ ملیں مزدوروں کی، کھلیان دہقان کے۔ مگرواشنگٹن کے ساتھ اچھے تعلقات استوار یا شائد انہیں قائم رکھنے کے لیئے یہ مناسِب نہ تھا۔ لہٰذہ انیس سو بہتر میں سایئٹ انڈسٹریل ایریا، کورنگی اور لانڈھی کے مزدور اپنے اُن حقوق کی بازیابی کے لیئے سڑکوں پر نِکل آئے جِن کا بھٹو صاحب نے ان سے وعدہ کیا تھا۔ بھٹو صاحب کی حکومت نے اِس بغاوت کو بذریعہ پولیس سختی سے کچل دیا جِس میں بہت سے مزدوروں کی شہادتیں واقع ہو گئیں۔
اِس واقعے کے بعد ڈاکٹر رشید حسن خان نے نہ صِرف پیپلز پارٹی کے ساتھ اشراکِ عمل باقاعدہ ختم کر دیا بلکہ معراج محمد خان کو بھی پارٹی نے واپِس بلا لیا۔ مگر کُچھ لوگوں کو دُکھ تھا بھٹو صاحب نے اپنے ساتھیوں سے ز یادہ واشنگٹن والوں پر اعتماد کیا۔
کہتے ہیں کہ ضیا مارشل لا ء کے دوران جب بھٹو صاحب نے پوچھا کہ کیا میری پارٹی مجھے جیل سے چھُڑا کر نہیں لے جاسکتی تو جواب یہ تھا کہ صاحب آپ اپنے پیچھے کوئی ”بالشویک پارٹی“ چھوڑ کر نہیں آئے۔ شائد، جواب دینے والے نے ٹھیک ہی کہا تھا۔
فیس بک کمینٹ