فیصل آباد : فیصل آباد میں مدرسے کے استاد کی 12سالہ بچے کے ساتھ زیادتی کی کوشش اور پھر بچےکے والدکی جانب سے ملزم کو معاف کرنے اور پولیس کارروائی ختم ہونےکے بعد ایک بار پھر ملک میں بچوں سے جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات اور جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے بنائےگئے قوانین کے نفاذ پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ 22 مارچ کو فیصل آباد کی تحصیل تاندلیانوالہ میں ایک شخص نے اپنے بیٹے کے ساتھ زیادتی کی کوشش کےالزام میں علاقے کے معلم کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تھی جس میں الزام لگایا کہ 22 مارچ کو جب اُن کا 12سالہ بیٹا مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعدکافی دیر تک گھر نہیں آیا تو اُنہیں تشویش ہوئی تو وہ دو مزید لوگوں کے ساتھ اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے نکلے۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق جب وہ مسجدکے قریب پہنچےتو ساتھ والے مکان سے شور کی آوازیں آئیں۔ جب شور کی آواز سُن کر وہ اُس گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ معلم اُن کے بیٹے کے ساتھ زیادتی کی کوشش کررہا ہے۔ جب اُس نے ہمیں دیکھا تو فورا اپنےکپڑے پہن لیے اور ہم پر اسلحہ تان لیا اورکہا کہ اگر کوئی قریب آیا تو جان سے ماردوں گا اور موقع سے فرار ہوگیا۔ ایف آئی آر کے مطابق والد کا کہنا تھا کہ معلم نے میرے بیٹے کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی ہے لہٰذا اُس کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔
اُسی روز بچے کے والد کا ایک ویڈیو پیغام بھی آیا جس میں اُنہوں نے اس پورے واقعےکی تفصیلات بتائیں اور ساتھ یہ بھی کہا کہ آج میرے بیٹے کے ساتھ یہ واقع ہوا ہےکل کسی کے بھی بچے کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے کل کسی اور کا بیٹا اس آفت کا شکار نہ بن جائے ۔
اس حوالے سے مقدمہ درج ہونے کے اگلے دن یعنی 23 مارچ کو پولیس نے معلم کو گرفتار کرلیا جس کے بعد ایس پی تاندلیانوالہ شمس الحق کی ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ معلم کو کہہ رہے کہ تمہیں شرم آنی چاہیے، میں تمہارے خلاف فتوے لےکر آؤں گا۔
لیکن ملزم کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے سے ایک دن پہلے علامہ ابتسام الہٰی لاہور سے فیصل آباد پہنچے اور دونوں فریقین کی صلح کروادی۔
علامہ ابتسام الہٰی نے میڈیا کو بتایا کہ معلم پر بچے کے ساتھ جنسی بے راہ روی کا الزام نہیں تھا۔ اگر ایسا کوئی الزام ہوتا تو ہم کارروائی کا مطالبہ کرتے۔
لیکن پھر جب مدرسے کے معلم کو 28 مارچ کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ریمانڈ کے لیے پیش کیا گیا تو بچے کے والد نےکہا کہ مجھے غلط فہمی ہوئی تھی، لیکن اب میں نے انہیں معاف کردیا ہےاور مقدمہ واپس لے رہا ہوں۔ جس کے بعد پولیس نے معلم کو رہا کردیا۔
اس حوالے سے جب مقامی میڈیا نے بچے کے والد سےپوچھا کہ آپ نے معلم کو کیوں معاف کیا؟ تو اُنہوں نے کہا کہ میں نے اللہ کی رضا کے لیے ملزم کو معاف کردیا ہے۔
لیکن وہیں پریہ سوال اپنی جگہ پر موجود رہا کہ بچے کے والد نے معاملہ ختم کردیا مگر 5 دن تک پولیس نے خود سے الزام کی تحقیقات کیوں نہیں کی؟ اور اگر تحقیقات کی تھیں تو وہ کس نتیجے پر پہنچی؟اس واقعےکے بعد سوشل میڈیا پر یہ بحث چھڑ گئی کہ کیسے مذہبی اسکالرز، مدرسوں اور اس سے منسلک افراد کی جانب سے بچوں سے زیادتی اور زیادتی کی کوشش کوروکنے میں نہیں بلکہ معاملے کو رفع دفع کرنے یاملزم کو تحفظ فراہم کرنے میں لگ جاتے ہیں اور کیسے ان معاملات پر پولیس اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کرنے اور پراسیکیوشن کرنے کے بجائے مدعی کے بیان اور پھر فیصلوں پر ہی انحصار کرتی ہے جیسا کہ اس کیس میں کیا گیا۔
والد کی جانب سے بیان واپس لینےکے بعد پولیس نے واقعےکی مزید تحقیقات چھوڑ دیں۔یہ بات واضح ہےکہ پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں کمی نہیں آرہی ہے اور وہ بڑھ رہے ہیں اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے اکثریتی واقعات میں اُن کے قریبی لوگوں کا ہی کردار ہوتا ہے۔
این جی او ساحل کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال جنوری سے جون کے درمیان بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 2 ہزار227 کیسز سامنے آئے۔
یعنی پاکستان میں ہر 2 گھنٹوں میں ایک بچہ جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے اور ان جنسی زیادتی کے شکار ہونے والے بچوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان فرق بہت کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے ابتدائی 6 ماہ میں 1 ہزار 207 لڑکیاں اور 1ہزار 20 لڑکے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے اور ان میں سے 912 کیسز تو وہ تھے جہاں بچوں کے قریبی جاننے والے اس جرم میں ملوث تھے۔ساحل کی رپورٹ کے مطابق،رپورٹ ہونے والے 75 فیصد کیسز کا تعلق پنجاب سے ہی تھا۔
ساحل کے لیگل ایڈ کوآرڈینیٹر امتیاز احمد کے مطابق،پنجاب میں زیادہ کیسز رپورٹ ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہاں پر پولیس اور رپورٹنگ کا نظام باقی صوبوں سے بہتر ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی صوبوں میں بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات کم ہو رہے ہیں۔
بیشتر جگہوں پر بچے ایسے واقعات اپنے والدین یا قریبی افراد کو بتا نہیں سکتے۔ اگربتا دیتے ہیں تو اُن کی بات پر بڑے یقین کرنے یا آگے بڑھانے سے کتراتے ہیں خاص طور پر تب جب اس میں کوئی قریبی جاننے والا ملوث ہو اور اگر رپورٹ کر بھی دیتے ہیں تو پاکستان میں جنسی زیادتی کے کیسز میں سزاؤں کی شرح بہت کم ہے۔
( بشکریہ : جیو نیوز )
فیس بک کمینٹ