پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی اطلاع کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید(ر) کوباضابطہ طور پر چارج شیٹ کردیا گیا ہے۔ انہیں 12 اگست کو سپریم کورٹ کی ہدایات کا حوالہ دیتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ البتہ فیض حمید پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد یہ سوال زیادہ اہمیت اختیارکرجائے گا کہ کیا ملکی نظام میں موجود خرابیوں کی ساری ذمہ داری صرف ایک فرد پر عائد کرکے آگے بڑھا جا سکتا ہے؟
آئی ایس پی آر کے اعلامیہ کے مطابق جنرل فیض حمید پر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریاست کے تحفظ اور مفاد کو نقصان پہنچانے،اختیارات اور سرکاری وسائل کےغلط استعمال اور افراد کو نقصان پہنچنانے کے الزامات شامل ہیں۔ قانون کے مطابق انہیں فیلڈ کورٹ مارشل کے تحت قائم فوجی عدالت میں ان الزامات کا جواب دینا ہوگا۔ تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ کورٹ ماررشل کی کارروائی کے تحت الزام عائد ہونے کامطلب ہے کہ متعلقہ شخص کے خلاف ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد و ثبوت موجود ہیں۔ روزنامہ ڈان کے اطلاع دی ہے کہ سابق آئی ایس آئی چیف نے ایڈووکیٹ میاں علی اشفاق کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے۔ میاں اشفاق نے ڈان کو بتایا ہے کہ فیض حمید ان الزامات کا جواب دیں گے اور انہیں مسترد کریں گے۔
اس حوالے سے آئی ایس پی آر کے اعلامیہ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے عمل کے دوران ملک میں انتشار اور بدامنی سے متعلق پرتشدد واقعات میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید(ر) کے ملوث ہونے سے متعلق علیحدہ تفتیش بھی کی جا رہی ہے۔ ان تشدد اور بدامنی کے متعدد واقعات میں 9 مئی سے جڑے واقعات بھی شامل ہیں۔ ان متعدد پرتشدد واقعات میں مذموم سیاسی عناصر کی ایما اور ملی بھگت بھی شامل تفتیش ہے‘۔ اس کا مطلب ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو مستقبل میں مزید الزامات کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔ اب فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی میں الزامات کا جائزہ لے کر انہیں بری کرنے یا سزا دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ فوجی عدالت کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد ہی طے ہوگا کہ کیا اس معاملہ پر ہائی کورٹ و سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی۔ کورٹ مارشل کی کارروائی خفیہ ہونے کی وجہ سے اس پر عمومی تبصرے اور جائزے سننے یا دیکھنے میں نہیں آسکیں گے البتہ جب یہ معاملہ ملکی عدالتی نظام تک پہنچتا ہے تو اس حوالے سے مزید معلومات اور متضاد مؤقف بھی ضرور ملکی مباحث کا حصہ بنیں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف سیاسی معاملات میں ملوث ہونے کے الزام میں کارروائی پاک فوج کی تاریخ میں ایک یادگار وقوعہ ہے کیوں کہ پہلی بار ایک سابق جنرل کو ایسے الزامات کا سامنا ہے۔ ان پر سیاست میں ملوث ہونے کے علاوہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام بھی عائد ہے۔ اس معاملہ پر اپریل میں تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے پاک فوج کی طرف سے اسے خود احتسابی کا شفاف طریقہ کار بتایاگیا تھا۔ اگست میں ان الزامات میں جنرل فیض حمید گرفتار ہوگئے اور اب ساڑھے چار ماہ بعد انہیں چارج شیٹ کیا گیا ہے۔ فوج میں احتساب اور قانون شکنی کے مرتکب عناصر کو سزا دینے کے حوالے سے تو یہ ایک مستحسن اقدام ہے۔ ملک میں پہلی بار اتنے بڑے اور ذمہ دار عہدے پر فائز رہنے والے ایک افسر کو ایسے سنگین الزامات کا سامنا ہے جن کے بارے میں اس سے پہلے چہ میگوئیاں یا تبصرے ہی سننے میں آتے تھے۔ ملکی سیاست میں فوجی مداخلت کے معاملہ پر اس وقت بھی اخباری کالموں یا ٹاک شوز میں برملا دعوے کیے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت فوج کی کٹھ پتلی ہے اور حقیقی اختیارات وزیر اعظم کی بجائے آرمی چیف کے پاس ہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھی تواتر سے الزام عائد کرتے ہیں کہ اصل اختیار حکومت کی بجائے فوج کے پاس ہے۔ حتی کہ موجودہ اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے سابق حلیف مولانا فضل الرحمان بھی ببانگ دہل یہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ انتخابات میں اسٹبلشمنٹ نے دھاندلی کی اور اپنی مرضی کی حکومت قائم کرائی۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ اس حکومت کو نہیں مانتے۔
تو کیا جنرل فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ کے بعد اب متعدد دوسرے اعلیٰ افسروں کو بھی متنبہ ہوجانا چاہئے کہ کسی نہ کسی وقت انہیں بھی ایسے ہی الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا جواب اس وقت فیض حمید کو دینا ہے؟ یا 29 ماہ تک آئی ایس آئی کی سربراہی کرنے والے فیض حمید ایسے واحد افسر تھے جنہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران ملکی سیاست میں مداخلت کا انوکھا طریقہ ایجاد کیا ۔ اور اسی لیے اب انہیں سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ فوج کو ایک منظم ادارہ مانا جاتا ہے جہاں ڈسپلن کی پابند ہوتی ہے اور کوئی اہل کار یا ماتحت افسر کسی اعلیٰ افسر کی مرضی و منشا یا حکم کے بغیر کوئی اقدام کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس عمومی تصویر کے پیش نظر یا تو فیض حمید کسی غلط فہمی یا ذاتی خواہش کے زیر اثر ایسے کام کرتے رہے جو قانوناً انہیں کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ اس بارے میں سپریم کورٹ کی نشاندہی پر فوج کی تحقیقاتی کمیٹی نے چھان بین کی تو غیر قانونی کارروائیوں کا راز فاش ہؤا۔ دوسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ یہ ساری خدمات فوج کی اعلیٰ قیادت کی مرضی و منشا کے مطابق انجام دے رہے تھے لیکن کسی ایک مرحلے پر وہ ذاتی دوستی یا سیاسی شیفتگی کی وجہ سے ان حدود سے ایک قدم باہر نکال بیٹھے جو اعلیٰ قیادت نے مقرر کی تھیں۔ اب وہ اسی بے اعتدالی کی سزا بھگت رہے ہیں۔
یادش بخیر جب ملک میں ’مجھے کیوں نکالا‘ اور ’ووٹ کو عزت دو‘ نامی سیاسی مہم جوئی کی جارہی تھی تو نواز شریف نے فوج پر سیاسی اقدامات کا الزام عائد کیا تھا۔ اس کے بعد بھی مسلم لیگی قائدین فیض حمید کے علاوہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کا نام لے کر ان پر اپنی پارٹی کے خلاف سازش کا ذمہ دار قرار دیتے تھے۔ انہوں نے کسی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش نہیں کیا اور نہ ہی کسی عدالت نے ان الزامات کے ثبوت ان لیڈروں سے مانگے لیکن یہ الزامات بہر حال ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر سب اقدامات اس وقت کے آرمی چیف کی مرضی و منشا کے مطابق ہی کرتے رہے تھے۔ اسی لیے متعدد سیاسی حلقے فیض حمید کے علاوہ قمر جاوید باجوہ کو بھی سیاسی مداخلت کا قصور وار سمجھتے ہیں۔ یہ مؤقف بھی سامنے آتا رہا ہے کہ یہ دونوں افسر تحریک انصاف کی حکومت قائم کرانے اور دیگر سیاسی جماعتوں کو ان کی جائز سیاسی نمائیندگی سے محروم کرنے کا سبب بنے تھے۔
ایسے ہی الزامات چونکہ موجودہ فوجی قیادت پر بھی عائد ہوتے ہیں، اس لیے فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کے معاملہ کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے اور سیاسی معاملات میں فوجی مداخلت کی ہئیت و ساخت کو سمجھنے کی ضرورت ہوگی۔ بڑی حد تک اس کا انحصار کورٹ مارشل کے دوران فیض حمید کے بیان اور دفاعی مؤقف پر بھی ہو گا۔ دیکھنا ہوگا کہ وہ ان الزامات کو اپنی غلطی مان کر قبول کرلیتے ہیں یا صاف لفظوں میں یہ بتاتے ہیں کہ انہیں کن حالات میں کن مجبوریوں کے تحت سیاسی معاملات میں مداخلت کرنا پڑی۔ اگر وہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو بھی ان معاملات میں ملوث کرتے ہیں تو انہیں فوجی عدالت کے سامنے کم از کم یہ دعویٰ تو کرنا پڑے گا کہ فیض حمید ان پر جھوٹا الزام عائد کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ فوجی استغاثہ فیض حمید پر کس قسم کی سیاسی مداخلت کا الزام عائد کرتا ہے۔ تب ہی یہ اندازہ ہوگا کہ کیا الزامات کی نوعیت کے حساب سے وہ تن تنہا ایسا اقدام کرنے کی پوزیشن میں تھے یا سرکاری ڈیوٹی اور اعلیٰ افسروں کے حکم کے سامنے مجبور تھے۔
سیاسی مداخلت کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا ایسا الزام بھی عائد کیا گیا ہے جس کا جواب انہیں خود ہی دینا پڑے گا۔ وہ یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکیں گے کہ انہیں افسران بالا نے اخفائے راز کا عہد توڑنے پر مجبور کیا تھا۔ اسی طرح جن معاملات پر ابھی تحقیقات ہورہی ہیں ان میں سانحہ9 مئی کے پر تشدد واقعات میں ملوث ہونے کا الزام بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے ایک ہاؤسنگ سوسائیٹی کے مالک کی طرف سے ہراساں کرنے اور لوٹ مار کے الزامات پر ہدایت کی تھی کہ درخواست گزار وزارت دفاع سمیت دیگر مجاز حکام سے رابطہ کرے۔ عدالت عظمی کی اسی ہدایت کا حوالہ دیتے ہوئے پاک فوج نے پہلے تحقیقات کا اعلان کیا اوربعد میں جنرل فیض حمید کو گرفتار کیا تھا۔ اس لیے کورٹ مارشل کے دوران شہریوں کو تنگ کرنے، بھتہ وصول کرنے یا جائداد پر قبضہ کرنے جیسے الزامات بھی چارج شیٹ میں شامل ہوسکتے ہیں جس کا جواب بہر حال فیض حمید کو ذاتی حیثیت میں ہی دینا پڑے گا۔
فیض حمید جس قضیہ کی وجہ سے اس چنگل میں پھنسے ہیں، اسے عرف عام میں ہائیبرڈ نظام قائم کرنے کے طریقہ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ نواز شریف کے تیسرے دور حکومت کے دوران 2014 میں تحریک انصاف اور طاہر القادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک کا اسلام آباد میں دھرنا بھی اسی ہائیبرڈ نظام کی خواہش ہی کا شاخسانہ تھا۔ جنرل فیض حمید تو اس وقت فوجی قیادت کی اس سطح تک نہیں پہنچے تھے جو ایسے معاملات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو سیاست سے نکال کر نئے اور تازہ دم لیڈروں کو ملک کی سیاسی باگ ڈور دینے کی خواہش کے ڈانڈے درحقیقت پرویز مشرف کے دور سے جا ملتے ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے ہی نواز شریف اور بے نظیر کو ملکی سیاست سے بے دخل کرنے کے منصوبے کا آغاز کیا تھا۔ بعد میں یہ منصوبہ مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہؤا فیض حمید اور قمر جاوید باجوہ کے ہاتھوں پایہ تکمیل تک پہنچا۔
ہائیبرڈ نظام کے ناکام تجربے کے علاوہ ملکی تاریخ میں چار فوجی سربراہوں نے آئینی انتظام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک پر حکمرانی کی۔ سیاست میں فوج کی دلچسپی و مداخلت کی تاریخ طویل اور پیچیدہ ہے۔ یہ امکان تو نہیں ہے کہ ایک سابق جنرل کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان ساری غلطیوں کا ازالہ ہوسکے گا البتہ اگر اس کورٹ مارشل سے پاک فوج کی قیادت یہ سبق ضرور سیکھ سکتی ہے کہ بعض اوقات خواہشات کی تکمیل کرتے ہوئے آئین سے وفاداری کا اصول متاثر ہوتا ہے۔ اس وقت فیض حمید اس غلط روش کی علامت کے طور پر پوری قوم کے سامنے ہیں۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ