میں ایسٹ لندن کے جس پارلیمانی حلقے میں رہتا ہوں وہاں سے سٹیفن ٹمز Stephen Timms) (1994سے مسلسل برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں، لیبر پارٹی کے دور حکومت میں اُن کے پاس کئی اہم وزارتوں کے قلمدان رہے۔ یہ برطانوی دارالعوام یعنی ہاؤس آف کامنز کے اُن650اراکین میں سے ایک ہیں جو اپنے حلقہ کے لوگوں سے رابطے اوران کی خدمت کو ہی اپنی سیاست کا محور اور اولین ترجیح سمجھتے ہیں۔ یہ مختلف لائبریریز کے میٹنگز روم، لوکل کاونسل کے کسی چیمبر یا پارٹی آفس میں باقاعدگی سے سرجری (اپنے ووٹرز سے ملاقات) کا اہتمام کرتے ہیں۔ مجھے اپنے حلقے کے اس رکن پارلیمنٹ سے دو بار ملاقات کی ضرورت پیش آئی۔ ایک بار جب کہ وہ لیبر پارٹی کے دور حکومت میں وزیر تھے میں نے سٹیفن ٹمز کے نمبر پر فون کیا تو دوسری طرف اُن کی سیکرٹری نے فون اٹھایا اور بتایا کہ منسٹر صاحب مصروف ہیں میں نے ملاقات کے لئے وقت مانگا تو اس نے ملاقات کا مقصد دریافت کیامیں نے وجہ بتائی تو اس نے دو روز بعد ٹاؤن سنٹر کے ایک چیمبر میں ملاقات کاو قت طے کردیا۔ دوسری بار میری ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ شیڈو منسٹر تھے میں نے اُن کے نمبر پر پیغام چھوڑا تو کچھ دیر بعد سٹیفن ٹمز نے خود فون کر کے مجھ سے ملاقات کا وقت طے کیا۔ ایسٹ لندن سے اس رکن پارلیمنٹ پر14مئی2010ء میں ایک 21سالہ لڑکی روشن آرا چوہدری نے اُس وقت چھری سے حملہ کرکے شدید زخمی کر دیا تھا جب وہ ایک لائبریری میں اپنے ووٹرز کے لئے ایک سرجری میں اُن سے مل رہے تھے۔ اس حملے کے بعد سٹیفن ٹمز نے صحت یاب ہو کر اپنے حلقے کے ووٹرز سے سرجری میں ملنے کے سلسلے کوترک نہیں کیا۔
میں اب تک حیران ہوتا ہوں کہ برطانوی سیاستدان اپنی سیاسی ذمہ داریوں سے اس حدتک کمٹڈ) (committed ہوتے ہیں کہ وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنے ووٹرز سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں برطانیہ میں عام لوگوں کے لئے اپنے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو ملنا ہمیشہ سے بہت آسان اور مفید ہوتا ہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم کے اراکین پارلیمنٹ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جس حد تک اپنے ووٹرز کی مدد کرسکتے ہیں کرتے ہیں کسی غیر قانونی مدد یا اختیارات اور آئین سے بالاتر کسی کام کی اُن سے توقع کرنا بالکل بے سود ہے۔برطانیہ میں سیاستدان ہوں یا حکمران، جج صاحبان ہوں یا سرکاری افسران کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے اور نہ ہی ان کو اس قسم کے صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں کہ آئین اور ضابطوں سے تجاوز کرسکیں ایک اعتبار سے یہ بے اختیار ہوتے ہیں کہ نہ تو کسی کو پلاٹ الاٹ کر سکتے ہیں اور نہ کسی حادثے یا سانحے سے متاثرہ کسی شخص کی مالی مدد کر سکتے ہیں نہ کسی واقعے کا ازخود نوٹس لے سکتے ہیں اور نہ کسی کو اپنی مرضی سے کسی عہدے یا منصب پر فائز کرسکتے ہیں نہ تو یہاں کے جج کسی ڈیم کی تعمیر کے لئے چندہ اکٹھا کرتے ہیں اور نہ یہاں کے سیاست دان سرکاری خرچ پر کسی دوسرے ملک جا کر قرض اتاروملک سنوارو مہم چلاتے ہیں، نہ تو یہاں سرکاری افسروں کے گھروں سے کروڑوں کی نقدی برآمد ہوتی ہے اور نہ یہاں ریٹائرڈ ہونے والے فوجی جرنیلوں کو زمین اور کمرشل یا رہائشی پلاٹ الاٹ کئے جاتے ہیں۔ قانون اور آئین میں سب کے لئے ایک جیسے ضابطے ہیں یہاں انصاف کے سینے میں دل نہیں اور سفارش کا تصور بھی محال ہے۔ سفارش سے کام بننے کی بجائے بگڑ جاتا ہے یہاں کی سیاست میں اقربا پروری کی کوئی گنجائش نہیں۔
یہاں کے سیاست دان اس حد تک بے اختیار ہیں کہ کسی رکن پارلیمنٹ یا وزیر کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی کار کو لگنے والی پارکنگ پینلٹی ٹکٹ ہی کینسل کروا سکے یہاں معمولی سطح سے اعلیٰ سطح تک انصاف کے تقاضے آنکھوں پر پٹی باندھ کر پورے کئے جاتے ہیں کسی معمولی سی قانون شکنی پر بڑے سے بڑے عہدے پر فائز لوگوں کو اپنے منصب سے ہاتھ دھونا پڑتے اور انکوائری کا سامنا کرنا پڑتا ہے برطانیہ میں منصب اور سیاست پھولوں کی سیج نہیں بلکہ ذمہ داریوں کے کانٹوں سے بھرا بستر ہے۔ کسی لوکل کونسل کے کونسلر ہوں یا برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان، سرکاری عہدوں پر فائز افسر ہوں یا عدالتوں کے جج ان سب کو جتنی تنخواہ ملتی ہے اس سے کہیں زیادہ انھیں کام کرنا پڑتا ہے۔ اگر باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت بہت واضح ہوجاتی ہے کہ برطانوی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کی بنیادی وجہ یہاں کی عدالتیں اور نظام انصاف ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد جب یہ ملک اس جنگ کے ہولناک اثرات سے نبرد آزما تھا تو اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے کہا تھاکہ اگر ہماری عدالتیں اپنا کام کررہی ہیں تو برطانیہ کسی بحران میں زیادہ دیر تک مبتلا نہیں رہے گا۔کہنے کو تو یہ غیر مسلم معاشرہ ہے لیکن یہاں جس طرح انصاف اور قانون کو بالادستی حاصل ہے شاید ہی کسی مسلمان ملک میں اس طرح انصاف اور مساوات کے تقاضے پورے کئے جاتے ہوں۔برطانیہ میں عدالتیں انصاف کے تقاضوں کی ہرممکن تکمیل کرتی یا کرنے کی کوشش کرتی ہیں اس لئے یہاں کوئی بھی شخص یا طبقہ قانون سے تجاوز نہیں کرسکتا، ملازمت کا حصول ہو یا ملازمت سے برطرفی، رنگ نسل جنس یا مذہب کی بنیاد پر کسی کی حق تلفی ہو یا کسی کو ترجیح دی گئی، کسی کو پولیس کے طرز عمل سے شکایت ہو یا کسی کو گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑے کسی کے انسانی حقوق پامال کئے جا رہے ہوں یا ماحولیاتی آلودگی کا کوئی مسئلہ ہو، کسی ادارے کی سروسز سے آپ مطمئن نہ ہوں یا کوئی پراڈکٹ آپ کو ایسی خوبیاں بتا کر بیچ دی گئی ہو جو اس میں نہ ہوں اور آپ کو ان معاملات میں متعلقہ شکایتی اداروں اور عدالت سے رجوع کرنے کی ضرورت پڑے تو انصاف کے تقاضوں کی سوفیصد تکمیل کی جاتی ہے۔
برطانیہ میں کسی بھی قسم کی شکایت کے ازالے کے لئے کسٹمر سروس اور واچ ڈاگ موجود ہیں اور اگر کسی کی شکایت پھر بھی رفع نہ ہو تو پھر آخری سہارا عدالت ہے انگریز یا برطانوی شہری اپنے ساتھ ہونے والی کسی بھی قسم کی حق تلفی کو روزِ آخرت پر نہیں چھوڑ دیتے بلکہ عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں اور یہ عدالتیں دنیا میں ہی اس کی حق تلفی کا فوری ازالہ کردیتی ہیں۔اس ملک میں آباد پاکستانی تارکین وطن جب وطن عزیز کے حالات کا برطانیہ سے موازنہ کرتے ہیں تو انھیں دونوں ممالک کے درمیان بنیادی فرق نظام انصاف اور نظام تعلیم و تربیت کا ہی نظر آتا ہے جس روز ہمارے ارباب اختیار ملک میں یکساں اور معیاری نظام تعلیم کو رائج کرنے کے لئے ٹھوس حکمت عملی ترتیب دیں گے اور عدالتیں بلاتخصیص فوری اور سوفیصد مبنی بر انصاف فیصلے کرنا شروع کردیں گی اس دن پاکستان کی حقیقی خوشحالی اور ترقی کے سفر کا آغاز ہوگا۔ تعلیم اور انصاف ہی ترقی پذیر معاشروں کو بدامنی، بدعنوانی، انتہاپسندی، بدحالی اور ظلم سے نجات دلا سکتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کو بھی مسائل کے منجدھار میں پھنسی قوم کو نجات دلانے کے لئے تعلیم و تربیت اور انصاف کے تقاضوں کی سو فیصد تکمیل کو اپنی پہلی ترجیح بنانا ہوگا۔ملکوں اور قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ مثبت تبدیلی محض دعووں اور وعدوں سے نہیں، عمل سے آتی ہے اور حکمرانوں کو قانون اور انصاف کی بالادستی کا ثبوت دینے کے لئے خود کو رول ماڈل بننا پڑتا ہے۔مخالفین کے بارے میں سچ بولنے کے ساتھ ساتھ اپنے بارے میں سچ سننے کی بھی عادت ڈالنی پڑتی ہے۔ پاکستان میں تبدیلی کی نئی صبح صرف اسی وقت طلوع ہوگی جب ریاستِ مدینہ کی طرح حقیقی انصاف کی بالادستی حکمرانوں کی پہلی ترجیح بن جائے گی
جس کے ماتھے پہ نئی صبح کا جھومر ہوگا
ہم نے اس وقت کی دلہن کو بہت یاد کیا
فیس بک کمینٹ