بلاول بھٹو سے ملاقات، اُس ملاقات سے کہیں مختلف تھی جو اُن کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ میری نوجوانی میں پہلی مرتبہ ہوئی۔ وہ ملاقات ایک نوجوان ایکٹوسٹ کی اپنے رہبر کی بیٹی سے ملاقات تھی جو سزائے موت کا سامنا کررہا تھا۔ وہ ملاقات ایک رہبر کی بیٹی سے تھی اور یہ ملاقات ایک رہبر کے بیٹے سے تھی۔ اُس ملاقات اور اِس ملاقات کے درمیان چار دہائیوں کا فاصلہ تھا۔
اس دوران ذوالفقار علی بھٹو کو موت کی نیند سلا دیا گیا تو اُن کی بیٹی اپنی والدہ نصرت بھٹو کے سائے میں قیادت کا سبق سیکھتے ہوئے اپنے والد کے بعد پاکستان کی دوسری مقبول ترین لیڈر بن گئیں۔ ایک مردانہ سماج نے ایک عورت کو منتخب کرکے بے نظیر بھٹو کو جدید اسلامی دنیا کی پہلی خاتون حکمران بنا ڈالا۔ ان چار دہائیوں میں پیپلزپارٹی، بے نظیر بھٹو، سیاست اور حالات نے بڑی تبدیلیوں کو برپا ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور ایک ایکٹوسٹ کے طور پر اپنا حصہ بھی ڈالا۔ بحیثیت ایکٹوسٹ میں اُن لوگوں میں شامل تھا جو ذوالفقار علی بھٹو کو جسمانی طور پر مٹائے جانے کے بعد اس جدوجہد کا حصہ بنا جس نے آنسہ بے نظیر بھٹو کو محترمہ بے نظیر بھٹو بنایا۔ اس جدوجہد کے دو پہلو تھے۔ ایک آمر کے خلاف جدوجہد، دوسرا پارٹی کے اندر آمروں کے پیداکردہ لیڈروں کے خلاف جدوجہد۔ اس جدوجہد کی کہانی وفا اور بے وفائیوں سے لبریز ہے۔ راقم کے جسم پر مارشل لاء کے زخموں کے نشان بھی ہیں اور اُن زخموں کے بھی جو پارٹی کے اندر جدوجہد کے سبب ثبت ہوئے۔ Intra Party Struggle کی داستان آمریت کے خلاف جدوجہد سے زیادہ تلخ اور دل دکھا دینے والی ہے۔
آمریت کے خلاف جدوجہد ملک میں آئین کی بالادستی کے لیے اور پارٹی کے اندر سیاسی کارکنوں کی جدوجہد جاگیرداروں اور اوپری طبقات کی قیادت پر قبضہ کرنے کے خلاف جدوجہد، جس میں بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید مرحوم ہمارے رہبر تھے۔ 1978 اور 2017 … ایک زمانہ ہے جو بیت گیا۔ راقم نے وقت آنے پر سیاسی جماعت کے ڈسپلن کے بندھنوں کو توڑ ڈالا اور اپنے قلم اور علم کے ذریعے ایسی جدوجہد کا بیڑا اٹھایا جس کا نصب العین پاکستان کے محکوم عوام ہوں۔ اس لحاظ سے وہ ملاقات اور یہ ملاقات، بہت حوالوں سے مختلف ہے۔ ملاقاتی وہی لیکن ملاقات کا میزبان مختلف۔ یہ ملاقات ایک ایسے شخص کی ملاقات تھی جو اب ایکٹوسٹ نہیں بلکہ قلم اور علم کو اپنی طاقت سمجھتا ہے۔
بلاول بھٹو سے ملاقات، ان بدلے ہوئے حالات زمانے میں تھی۔ بلاول بھٹو نے کمالِ مہربانی سے راقم سے ملاقات کا وقت نکالا اور اس ملاقات کا تمام تر کریڈٹ پاکستان پیپلزپارٹی کے مخلص اور نظریاتی رہنما مولا بخش چانڈیو کو جاتا ہے۔ جب میں لاہور سے میلوں دور بلاول بھٹو سے ملاقات کے لیے گیا تو چالیس برسوں کی فلم میرے ذہن میں تھی۔ کتنے لوگ گھائل ہوگئے اس دوران، محترمہ بے نظیر بھٹو بھی جو شہید ہوگئیں۔ لاہور سے میلوں دور جب راقم بلاول ہاؤس کے گیٹ پر پہنچا تو ایک ہیلی کاپٹر بلاول ہاؤس میں اترا۔ لاہور قلعہ جہاں کبھی مغل حکمران گھومتے تھے، جاتی عمرہ شریف برادران کے بعد لاہور میں یقیناً دوسری بڑی رہائش گاہ ہے۔ ایک ایسے نوجوان سے ملاقات جس کی پنجاب میں مقبولیت کھوتے کھوتے، سکڑتے سکڑتے، ایک چھوٹی پارٹی بن چکی ہے اور وہ بڑے گھروں میں رہتاہے۔ اِس ملاقات اور اُس ملاقات میں یہ بھی ایک فرق تھا۔ تب چھوٹے گھروں میں رہنے والے بھٹوز کی پارٹی بڑی تھی اور اب بڑے گھروں میں رہنے والے بھٹوز کی پارٹی چھوٹی۔
مین گیٹ پر سیکیورٹی والوں نے بڑے پیار اور احترام سے داخل ہونے کی اجازت دی۔ گاڑی اندر لے جائیں۔ بڑے بڑے سیاسی درباروں میں ایسا Gesture آپ کی عزت افزائی میں شمار ہوتا ہے۔ کم عزت افزائی پر گاڑی گھر سے باہر پارک کروائی جاتی ہے۔ ایکڑوں میں پھیلا، بلند فصیلوں والا بلاول ہاؤس اور اس کے اندر بیٹھا ایک نوجوان لیڈر بلاول بھٹو زرداری جو اپنی والدہ اور نانا کی پارٹی کو پنجاب میں دوبارہ مقبول بنانے کا خواب لیے سرگرم ہے، میرا منتظر تھا۔ محل ہے یہ بلاول ہاؤس، گھر نہیں۔ خوب صورت ڈرائنگ روم میں دراز قد بلاول بھٹو نے مجھے مسکراتے چہرے اور بڑے پُرتپاک انداز میں ریسیو کیا۔ ملتے ساتھ ہی کہا، میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھ سے ملنے کے لیے وقت نکالا۔ انگریزی کی بجائے اردو بولنے پر ترجیح دے رہا تھا۔ یہ نوجوان لیڈر جو پارٹی کی پنجاب میں کھوئی ہوئی مقبولیت اور ساکھ کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ سیاہ رنگ کی شلوار قمیص پہنے۔ مسکراہٹ اس نوجوان لیڈر کے چہرے پہ چھائی ہوئی تھی اور بار بار ملاقات کرنے کا شکریہ ادا کررہا تھا۔
میں نے ملتے ہی عرض کیا، مجھے نہ تو پارٹی عہدہ لینا ہے اور نہ ہی کوئی اور حکومتی عہدہ۔ میں پارٹیوں کے کلچر سے آگاہ ہوں کہ وہاں کیسے خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوجاتی ہیں کہ فلاں شخص اگر پارٹی میں آگیا تو اُن کا ’’گلشن کا کاروبار‘‘ ٹھپ ہوکر رہ جائے گا۔ بلاول صاحب، میں پاکستان پیپلزپارٹی کا رکن رہا ہوں۔ اس نے پوچھا، کب۔ جب میں آٹھ دس برس کا تھا تب سے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا عشق تھا جو مجھے پارٹی میں لے آیا۔ میں اب قطعاً پارٹی میں نہیں۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کا عشق میرے خون میں ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا سکڑتے جانا، آپ کا ہی نقصان نہیں بلکہ پاکستان کے وفاق کا نقصان ہے۔ پاکستان میں تینوں مقبول پارٹیاں، مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف اور آپ کی پارٹی ایک ایک صوبے تک مقبولیت رکھتی ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا سکڑنا پاکستان میں روشن خیالی کا سکڑنا بھی ہے اور سماج کے سب سے زیادہ پسماندہ طبقات کے حقوق کی آواز کا دبنا بھی۔ پارٹی بنانا اتنا مشکل نہیں جتنا مشکل پارٹی کی Restructuring کرنا ہے۔
بلاول مسلسل مسکراتے ہوئے دلچسپی سے سننے کا خواہاں تھا۔ جو رہبر سننے کی صلاحیت سے محروم ہو، وہ ایک دن سننے والوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ اُس کی شخصیت میں ٹھہراؤ اور تحمل حیران کن تھا۔ وہ اپنی والدہ اور نانا کی پارٹی کو دوبارہ بحال کرنا چاہتا ہے، مگر کیسے۔ اس ملاقات کا مقصد یہی تھا۔ ایک بڑے گھر میں رہنے والا رہنما کیسے اپنی پارٹی کو بڑا کرے۔ (جاری ہے)
(:بشکریہ کاروان ۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ