مَیں سوچتا ہوں کہ پی پی کے پاس برادرم ضیاءکھوکھر جیسے بے لوث رہنما نہ ہوتے تو آج پی پی کس مقام پر کھڑی ہوتی۔ ضیاءکھوکھر جیسے لوگ آج بھی اپنے خوابوں میں بھٹو صاحب کو دیکھتے ہیں۔ خیالوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو سوچتے ہیں۔ گفتگو میں نصرت بھٹو کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی وہ سراپا بھٹو خاندان کی محبت میں رہتے ہیں۔ حالانکہ پارٹی اس وقت جس بدحالی کا شکار ہے اس پر بات کرنا بھی لوگ پسند نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم چڑھتے سورج کے پجاری ہیں۔ فی الحال ن لیگ اور پی ٹی آئی کی اڑان اونچی جا رہی ہے۔ ایسے میں کسی کو یاد ہی نہیں کہ 21 جون کو شہید بے نظیر بھٹو کا 63واں یومِ پیدائش ہے۔ مجھ کو جون کے دوسرے ہفتے ضیاءکھوکھر نے فون کر کے یاد دلایا کہ آپ کو 21 جون تو یاد ہے؟ اس سے پہلے کہ مَیں کوئی سوال کرتا انہوں نے میری مشکل کو حل کرتے ہوئے کہا محترمہ کی سالگرہ ہے آپ کا کالم آنا چاہیے۔ ضیاءکھوکھر کے فون کے بعد سے لے کر اب تک سوچ رہا ہوں کہ محترمہ کی زندگی پر لکھنا اچھا لگتا ہے کہ بقول برادر محترم محمد افضل شیخ کے ”پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے کہ جس کے لیڈروں سے لے کر کارکنوں تک سب نے اس پارٹی کو اپنا خون دے کر اسے سینچا ہے۔“ محمد افضل شیخ نے جب یہ بات کہی تو کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ وہ خاموشی اصل میں تو اس سوگ کا اظہار تھا جس کے تحت ذوالفقار علی بھٹو سے بے نظیر بھٹو تک رہنما¶ں کا کبھی عدالتی قتل کیا گیا تو کبھی سرِعام گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی اس اعتبار سے بڑی خوش قسمت جماعت رہی ہے جس کے لیڈروں اور کارکنوں نے پورے پاکستان میں کہیں بھٹو اور پارٹی کے نام پر خود سوزیاں کیں تو کوئی جئے بھٹو کے نعرے لگا کر کوڑے کھاتا رہا۔ کوئی جیلوں میں جا کر معذور ہو گیا تو کسی نے اپنی زندگی بھر کی کمائی پارٹی کے نام پر نچھاور کر دی۔ عجیب طلسماتی کہانیاں ہیں اس پارٹی کے لیڈروں، کارکنوں اور بھٹو خاندان کی۔ اگر کبھی م¶رخ اس پارٹی کے بارے میں غیر جانبدار ہو کر لکھے گا تو اس کے لیے لکھنا بھی مشکل ہو جائے گا کہ سچ لکھنا آج کے دور میں جانبدار ہونے کی تہمت بھی لگا سکتا ہے۔ بہرحال یہ سب باتیں اپنی جگہ پر اہم ہیں لیکن آج ہمارا موضوع ”محترمہ“ ہیں جو سیاست میں بھٹو صاحب کے بعد ہمارا دوسرا عشق رہا ہے۔ عشق کے بارے میں ہم کیا کہیں بس احمد فراز کی زبان میں پڑھ لیں کہ وہ عشق کے متعلق کیا کہتے ہیں:
وادیِ عشق سے کوئی نہیں آیا جا کر
آ¶ آوازہ لگائیں سرِ صحرا جا کر
بزمِ جاناں میں تو سب اہلِ طلب جاتے ہیں
کبھی مقتل میں بھی دکھلائیں تماشا جا کر
کن زمینوں پہ مری خاک لہو روئے گی
کس سمندر میں گریں گے مرے دریا جا کر
ایک موہوم سی اُمید ہے تجھ سے ورنہ
آج تک آیا نہیں کوئی مسیحا جا کر
احمد فراز کے تیسرے شعر کا آخری مصرعہ بڑی معنی خیز ہے آپ اس کا بلاول بھٹو زرداری کی طرف سمجھ سکتے ہیں:
ایک موہوم سی اُمید ہے تجھ سے ورنہ
آج تک آیا نہیں کوئی مسیحا جا کر
اس میں کوئی شک نہیں پی پی والے بلاول بھٹو زرداری کو سیاست میں اِن کرنے کے لیے بڑی محنت کر رہے ہیں۔ اُس محنت کے نتیجہ میں پنجاب کی سطح پر پی پی کے اہم رہنما پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب کے سیاسی زعماءبلاول بھٹو زرداری کی قیادت پر اعتماد نہیں کر رہے ہیں۔ آصف علی زرداری کو اس مرحلے پر چاہیے کہ وہ پنجاب مستقل ڈیرہ لگائیں کیونکہ ابھی بہت سے سیاسی خانوادے ایسے ہیں جن کو مضبوط چھتری درکار ہے۔ سردست پی پی کا اتنا برا حال نہیں ہے کہ اسے پنجاب میں مضبوط امیدوار ہی نہ ملیں۔ اس مقصد کے لیے پارٹی کے مرکزی رہنما¶ں کو سر دھڑ کی بازی لگانی ہو گی۔ پی پی کو اس بات پر دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس کی پارٹی سے نذر گوندل، فردوس عاشق اعوان جیسے بڑے نام کوچ کر گئے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس کے پارٹی لیڈر پیپلز پارٹی کے لیے نقصان کا باعث تھے جنہوں نے اپنے دورِ حکومت میں عوام سے لاتعلق رکھی ایسے لیڈروں کی وجہ سے پارٹی آج اس حال پر پہنچی ہے۔ اگر پی پی بہتر ورکنگ کرے تو کوئی بعید نہیں بہتری آ سکتی ہے۔ اگرچہ پارٹی میں محترمہ کی واپسی تو نہیں ہو سکتی لیکن بختاور اور آصفہ کے ذریعے بےنظیر بھٹو کی شک کارکنوں کو مل سکتی ہے۔
مجموعی طور پر بلاول بھٹو زرداری ابھی اہلِ پنجاب کو متاثر نہیں کر پایا۔ اس کی وجوہات پر غور کرنا چاہیے۔ عوام سے دوری اور بلاول کا بلاوجہ کا پروٹوکول بھی کارکنوں کو بددل کر رہا ہے۔ دور کیوں جائیں جون کے دوسرے عشرے میں لاہور میں بلاول بھٹو زرداری کی موجودگی میں ایک جیالے کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ ناقابلِ معافی ہے۔ محترمہ سے ملنا بھی بڑا مشکل ہوا کرتا تھا۔ لیکن وہ جس شہر میں جاتی تھیں وہاں کی مقامی قیادت کو اپنے ساتھ رکھتی تھیں۔ مقامی قیادت کی وجہ سے محترمہ سے ملنا آسان ہو جاتا تھا۔ آج بلاول بھٹو زرداری کو سیکورٹی کے نام پر جس طرح مقید کیا ہوا ہے وہ رویہ بھی پارٹی کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ بچے کھچے جیالے اب نئی پارٹی، نئے لیڈر تلاش کر رہے ہیں۔ ایسے میں قبر میں لیٹی محترمہ بےنظیر بھٹو کا سیاسی ویژن کیا کام کرے گا۔ آج کا سیاسی کارکن اپنے لیڈر تک اپنی رسائی چاہتا ہے۔ لیکن پی پی نے بلاول بھٹو زرداری کو سیکورٹی کے نام پر اتنا دور کر دیا ہے کہ اب عوام میں بھی پی پی کا کارکن دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ محترمہ! جس پارٹی کو آپ کے باپ، بھائیوں اور آپ نے خون دیا، وہ خون اتنا ارزاں ہو گیا ہے کہ لوگ اس خون کی بے قدری کر رہے ہیں۔ کاش ہم لوگ ایسے نہ ہوتے کہ آج کے موقع پر آپ سے اتنا شرمندہ نہ ہوتے کہ ماضی میں پارٹی نے حکومت میں آنے کے بعد جو کارنامے انجام دیئے اس سے پارٹی انجام کو پہنچ گئی۔ بی بی ہم شرمندہ ہیں پارٹی کو تباہ کرنے والے زندہ ہیں۔
فیس بک کمینٹ