مسلمانوں میں رواج ہے کہ کسی کی وفات پے 40 دن تک سوگ منایا جاتا ہے اور ان دنوں میں خوشی کی کوئی تقریب وغیرہ نہیں ہوتی اور وفات کرنے والے کی مغفرت کے لیئے دعائیں کی جاتی ہیں اور اس کو یاد کیا جاتا ہے۔پاکستان میں اگر ہر موت کے بعد 40 دن تک سوگ کیا جائے تو پاکستان کی قوم ایک ایسی قوم ہوگی جس کی زندگی کا ہر دن دکھوں اور غموں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہوگا۔پاکستان نے اپنی 68 سالہ تاریخ میں بہت خونریزی دیکھی ہے۔ میرے بدقسمت ملک پاکستان کی تاریخ قتل کے ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے، جس میں قانون سے بالاتر ہو کر خون کی ایسی ہولی کھیلی گئی ہے کہ پورا مُلک لہو لہان ہے۔پاکستان کی آزادی کے چوتھے سال 1951 میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران گولی کا نشانہ بنا دیا گیا۔11 سال تک پاکستان کو ظلم اور زبردستی سے اپنی مُٹھی میں رکھنے والا ضیاء ایسی بہت سی کار روائیوں کا ذمہ دار تھا جس میں اپنے مخالفین اور بیگناہوں کی زندگی کا چراغ بُجھا دیا گیا۔ ان میں میرے دادا اور عوام کے ہر دل عزیز رہنما ذوالفقار علی بھٹو اور میرے انقلابی چچا شاہنواز بھٹو بھی ضیاء کی درندگی کا شکار بن گئے۔آمر ضیاء اُس ناموس رسالت کے قانون کا ذمے وار ہے جو سلمان تاثیر کے قتل کا سبب بنا۔میرے پاپا اور سندھ اسمبلی کے منتخب رکن میر مرتضیٰ بھٹو اور انکے ساتھیوں کو بھی ریاست کی درندگی کا نشانہ بنا گیا اور کراچی کی سڑک پے بے جرم خطا ان کا خون بہایا گیا۔کچھ سال پہلے میری پھپی بینظیر بھٹو کو بھی آمریت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور راولپنڈی کی سڑک پے ان کو قتل کر دیا گیا۔اس کے علاوہ بہت سے متحرک سیاسی ورکرز جن کی صلاحیتوں کا فائدہ اُٹھانے کے بجائے انکو موت کی نیند سُلا دیا گیا اور آج تک یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے ہمارے ملک میں۔ایسے نا قابلِ فراموش واقعات کے باوجود بھی ہم میں آج تک بہادری کے جذبات موجود ہیں،جن کو استعمال کرتے ہوئے ہر مظلوم کو ساتھ مل کے نئی صبح کے لئے موثر جدوجہد کرنی ہوگی،تا کہ ہماری آنے والی نسلوں کو حقیقی آزادی نصیب ہو سکے۔۔
فیس بک کمینٹ