ڈاکٹر فرزانہ کوکب کی کتاب "عصمت چغتائی روایت شکنی سے روایت سازی تک "دراصل ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔یہ کتاب جہاں تحقیقی حوالے سے متاثر کن ہے وہاں تنقیدی نکات بھی لائق توجہ ہیں۔اپنے تنقیدی تجزیات میں ڈاکٹر فرزانہ کوکب کسی مصلحت کی قائل نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے تنقیدی جملوں میں ایک تمکنت کی جھلک نظر آتی ہے۔تازہ تنقیدی تصورات اور مطالعات کی روشنی میں عصمت چغتائی کے فکروفن کو سامنے لانا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس تحقیقی مقالے کو بھی روایت شکنی اور پھر روایت سازی کا اعلی نمونہ سمجھتا ہوں۔
ڈاکٹر فرزانہ کوکب نے عصمت چغتائی کے حالات زندگی ڈھونڈنے میں بڑی جانفشانی کے ساتھ کام کیا۔عصمت چغتائی کی تاریخ پیدائش کی جس طرح کھوج لگائی ہے شاید ہی کسی اور نے لگائی ہو وہ لکھتی ہیں کہ "عصمت چغتائی 21اگست کی بجائے 21 جولائی 1915ء میں بدایوں (یو پی) میں پیدا ہوئیں ۔
ڈاکٹر فرزانہ کوکب نے جس طرح اپنے مقالے کا عنوان دیا ہے وہ قدم قدم پر اس کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جیسے وہ ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتی ہیں ۔
"میری اماں پڑوس کی سہیلی کی بیٹی کی شادی میں جانے کے لئے بیٹھی ڈوپٹے پر ٹھپہ ٹانگ رہی تھیں۔مہترانی جھاڑو دے رہی تھی کہ میں بغیر کسی اطلاع کے ایک دم پیدا ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لئے بڑے بہن بھائی بھنگن کی لونڈیا کہہ کر چڑایا کرتے تھے ۔” ڈاکٹر فرزانہ کوکب عصمت چغتائی کا ناطہ چنگیز خان یوں ظاہر کرتی ہوئی نظر آتی ہیں
"عصمت کے آباؤ اجداد کا سلسلہ نصب چنگیز خان سے جا ملتا ہے ۔چنگیز خاں کے دو بیٹے تھے ہلاکو خان اور چغتائی خان ۔ہلاکو خان جنگجو جبکہ چغتائی خان علم وادب کا دلدادہ تھا۔”
ڈاکٹر فرزانہ کوکب عصمت چغتائی کے حالات زندگی کا خوبصورت انداز میں تجزیہ کیا ہے ۔انہوں نے طالبعلمی سے لے کر شاہد لطیف کے ساتھ شادی تک کے سفر کو جس انداز میں بیان کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔عصمت چغتائی جہاں اپنی شادی کو ایک گھپلا کہتی ہیں وہاں ایک مشرقی عورت کے طور طریقے بھی نبھاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔عصمت چغتائی نے اونچی ایڑی والے سینڈل پہننا اس لیے چھوڑ دئیے تاکہ شاہد لطیف(شوہر) اور اس کے قدوں کا باہمی فرق کم ہو جائے اور وہ بڑے معلوم ہونے لگیں ۔میں نے کم لکھنا شروع کر دیا تاکہ میری شہرت سے وہ احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں۔
عصمت چغتائی بےشک پاک و ہند کے ان چند لکھنے والوں میں سے ہیں جنہیں اپنی زندگی میں لازوال شہرت حاصل ہوئی ان کا ادبی سفر تقریباً نصف صدی تک جاری رہا۔
اردو ادب میں عصمت چغتائی ایک ایسی مشہور ناول نگار ہیں جنہوں نے ترقی پسند تحریک کے دور میں ناول کے فن میں نمایاں مقام حاصل کیا۔عصمت ایک ترقی پسند فکشن نگار کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ اورناولوں کے علا وہ ان کے افسانے بھی کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کا خاص میدان عورتیں اور خاص طور پر متوسط مسلمان گھرانوں کی خواتین کی زندگی یا زمیندار گھر انوں کی بگڑی ہوئی عورتیں اور لڑکیاں ہیں ۔ ان کی جنسیات سے عصمت کو خاص دلچسپی ہے ۔فرائڈ کے فلسفے میں وہ پورا یقین رکھتی ہیں کہ انسانی شخصیت پر سب سے زیادہ اثر ڈالنے والا پہلو اس کا جنسی پہلو ہے ۔ تقریباً ہر جگہ اور ہر کردار میں وہ اس پہلو کی کھو د کرید کرتی ہیں اور اسے نمایاں کرنے میں کو ئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتیں۔ جنسی کج روی عصمت کو خاص طور پر متوجہ کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ کہیں کہیں فحش نگاری کے دلدل میں پھنسنے لگتی ہیں مگر وہ اپنی فنی بصیرت اور فنکارانہ مہارت سے اپنے ناولوں میں مزید حسن پید ا کردیتی ہیں عصمت چغتائی کی ناول نگاری پر گرچہ یہ الزام عائدکیا جاتا رہا ہے کہ ان کا فن محدود ہے مگر عصمت نے عورتوں کی نفسیات اور ان کے مسائل کو جس طرح سمجھا ہے اپنی تحریروں میں اسے زبان وبیان کے چٹخارے کے ساتھ پیش کیا ہے۔ عصمت اپنے دور کی ایک اہم فن کار ہیں اور ناول کی دنیا میں ان کی بنائے ہوئے نقوش ہمیشہ خاص اہمیت کے حامل رہیں گے۔
عصمت چغتائی ادب کی ترقی پسند تحریک میں شامل تھیں ۔ ان کا کہنا تھا ایسا ادب جو انسان کی بھلائی چاہے، جو انسان کو پیچھے نہ دھکیلے۔ جو انسان کو صحت، علم اور کلچر حاصل کرنے میں مدد دے اور جو ہر انسان کو برابر کا حق دینے پر یقین رکھتا ہو۔ انسان کی بھلائی چاہے۔ اندھیرے میں جانے کی بجائے اجالے کی طرف آئے۔ قصہ، کہانی، نظم، غزل جن سے انسان کی فلاح وبہبود مقصود ہو وہی ترقی پسند ادب ہے۔
عصمت چغتائی کا پہلا افسانہ ”گیندا“ تھا۔ چوتھی کا جوڑا“عصمت چغتائی کا نمائندہ افسانہ ہے۔عصمت چغتائی کے ناولوں میں ضدی، ٹیڑھی لکیر،معصومہ،سودائی،عجیب آدمی،جنگلی کبوتر، ایک قطرۂ خوں شامل ہیں، ’’کاغذی ہے پیرہن ‘‘ کے نام سے آپ بیتی بھی لکھی۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں کلیاں، ایک بات، چوٹیں، دوہاتھہ، چھوئی موئی، بدن کی خوشبو اور آدھی عورت آدھا خواب شامل ہیں۔
انہوں نے کئی معروف ادبی شخصیات کے خاکے بھی لکھے،جن میں اسرارالحق مجاز،سعادت حسن منٹو،خواجہ احمد عباس،کرشن چندر،سجادظہیر،پطرس بخاری،میراجی،جاں نثار اختر شامل ھیں۔اپنے بھا ئی عظیم بیگ چغتائی کا خاکہ ’’ دوزخی ‘‘ کے نا م سے لکھا جسے منٹو نے بہت سراہا اور کہا کہ ’’ اگر تم ایسا ہی خاکہ مجھہ پر لکھنے کا وعدہ کرو تو میں آج ہی مرنے کو تیار ہوں۔‘‘
عصمت چغتائی کا افسانہ’’ لحاف‘‘ جو خواتین میں ہم جنس پر ستی کے بارے میں تھا ،سخت نکتہ چینی کا نشانہ بنا لیکن انہوں نے کبھی یہ کہانی لکھنے پر افسوس کا اظہار نہ کیا ان کے بقول یہ نوابی سماج کی ایک عام بات تھی۔ اپنی آپ بیتی میں لکھتی ہیں کہ لحاف سے پہلے اور لحاف کے بعد میں نے جو کچھہ لکھا اس پر کسی نے غور نہیں کیا۔ لحاف کا لیبل اب بھی میری ہستی سے چپکا ہوا ہے۔ لحاف میری چڑ بن گیا۔ میں کچھہ بھی لکھوں لحاف کی تہوں میں دب جاتا ہے۔ لحاف نے مجھے بڑے جوتے کھلوائے۔
قرۃ العین حیدر او عصمت چغتائی کی معاصرانہ چشمک سب جانتے ہیں۔ عصمت نے قرۃالعین حیدر کے بارے میں ’’ پو م پو م ڈارلنگ ‘‘ کےعنوان سے مضمون لکھا۔جس کا جواب قرۃ العین حیدر نے "لیڈی چنگیز خان ” لکھ کر دیا۔عصمت چغتائی ایک صاحب طرز اور عہد ساز ادیبہ تھیں ۔بجا طور کہا جا سکتا ہے یہ ناقابل فراموش کام ہے جو ڈاکٹر فرزانہ کوکب کی کاوشوں کی اہمیت کو بڑھا رہا ہے ۔ان کا یہ کام طالبعلموں کے لئے مشعل راہ ثابت ہو گا ۔
فیس بک کمینٹ