جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ملک میں اسٹبلشمنٹ کی زور ذبردستی اور طاقت پر مکمل کنٹرول رکھنے کے بارے میں درست مؤقف اختیار کیا ہے۔ لیکن وہ یہ بتانے سے گریز کرتے ہیں کہ ایک آئینی انتظام میں اسٹبلشمنٹ یا فوج کو فیصلہ سازی کا موقع کیسے فراہم ہوتا ہے۔ اور نہ ہی وہ خود ماضی میں جھانک کر اس حوالے سے اپنے کردار پر شرمندگی محسوس کرنے پر تیار ہوں گے۔
مولانا فضل الرحمان کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے زیر انتظام چلنے والے مدارس کی خود مختاری اور من مانی کا معاملہ ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے سبب عسکری ادارے اس وقت انتہا پسند مذہبی عناصر پر کنٹرول کی ضرورت شدت سے محسوس کررہے ہیں۔ اسی لیے حال ہی میں ایک نام نہاد مدرسہ ایکٹ کے حوالے سے طویل اور مشکل تنازعہ سامنے آیا تھا جس میں اہم ترین کردار مولانا فضل الرحمان نے ہی ادا کیا تھا۔ روزانہ کی بنیاد پر وہ خود یا ان کے ساتھی اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے اور تاحیات دھرنا دینے کی دھمکیاں دیتے رہے تھے۔ مولانا ایک طرف جمہوری روایت کو سربلند دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ملک میں ایسا اسلامی نظام نافذ کرانا چاہتے ہیں جس میں اقلیتوں کو سانس لینے کے لیے بھی اپنے علاقے کے ملا کی اجازت درکار ہوگی۔ مولانا اپنے مسلک اور عقیدہ کے مطابق اسلام کی توجیہ کرتے ہوئے میانہ روی سے اعتدال پسندانہ راستہ اختیار کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ کسی بھی صورت ملکی سیاست میں اہم ترین سیاسی عنصر کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھنے کو بے چین رہتے ہیں۔ مولانا کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود ان کی جمہوریت بس اس ایک نکتے کے گرد گھومتی ہے۔
مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے چند حلقوں سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اس وقت وہ جس ’سرکار ‘کو طاقت کا حریص قرار دے کر اس کے خلاف نعرہ مستانہ بلند کررہے ہیں ، اسی کی اعانت و سرپرستی کے مطابق ان کے زیر اثرنمائیندوں کی تعداد کم یا زیادہ ہوتی رہی ہے۔ 2024 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے خیبر پختون خوا اور پنجاب میں چونکہ غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی، جس کی وجہ سے بہت سے نتائج مینیج نہیں ہوسکے تھے۔ مولانا فضل الرحمان کی جماعت اپنے جثے اور قد و قامت کے لحاظ سے چونکہ ترجیحی سلوک کی مستحق قرار نہیں پاتی، اس لیے مولانا کو ان کی خواہش کے مطابق نشستیں نہیں مل سکیں۔ اس ناکامی کے بعد سے جمہوریت پر اسٹبلشمنٹ کی دسترس کے بارے میں مولانا کی المیہ نگاری میں روز بروز شدت دیکھی جارہی ہے۔ انہوں نے کبھی ملک کا وزیر اعظم اور کبھی صدر بننے کا خواب دیکھا ہے لیکن ان کی ماضی کی سیاسی کامیابیوں کا احاطہ کیا جائے تو کشمیر کمیٹی کی قیادت کے سوا انہیں کوئی عہدہ نہیں مل سکا ۔ اب نہ جانے میڈیا میں اپنی چرب زبانی کے ذریعے وہ کون سی جمہوریت بحال کرانا چاہتے ہیں اور کس اسٹبلشمنٹ کو لگام ڈالنے کی بات کرتے ہیں۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا ہے کہ اسٹبلشمنٹ بہر صورت اختیار اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔ وہ معاملات پر کنٹرول رکھتی ہے اور ملکی سیاست دان اپنے فائدے کے لیے اسٹبلشمنٹ کو یہ استحقاق دیتے ہیں جو درحقیقت عوام کا حق ہوتا ہے اور اسے پارلیمنٹ کے ذریعے استعمال ہونا چاہئے۔ یہ بات اصولی طور سے درست ہے لیکن پارلیمنٹ کی بالادستی کے اصول کو مان کر چلنے والے سب لیڈروں کو ملکی سیاست میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے فلور کو ہی استعمال کرنا چاہئے۔ انتخابات کے انعقاد اور حکومتیں قائم ہونے کے بعد اپنی ناکامیوں کا مرثیہ جمہوری ناکامی کی صورت میں پڑھنے سے گریز کرنا چاہئے۔ مولانا اور ان کی جماعت جو جو بھی سیاسی نمائیندگی حاصل ہے، وہ اس کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں اپنا مؤقف ریکارڈ کرا سکتے ہیں۔ یہی ملک میں جمہوری استحکام کے لیے ان کا کردار ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان اور ان کے ساتھی یا دیگر چھوٹی بڑی پارٹیاں اگر دیانت داری سے یہ کردار ادا کرتے رہیں تو اس سے ملکی سیاست میں یقیناً تبدیلی واقع ہوگی۔ اس نقطہ نظر کے مضبوط ہونے سے جمہوری رویے اور روایت ملکی سیاسی ماحول میں جگہ بنا سکے گی۔ اور ابن الوقت قسم کے سیاست دان زیادہ دیر تک اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر حکومتیں بنانے اور ذاتی خواہشات کی تکمیل کا راستہ اختیار نہیں کرسکیں گے۔ مولانا سرد و گرم چشیدہ سیاست دان ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ جمہوری فلسفے اور عوام کو متاثر کرنے یا اداروں کو دباؤ میں لانے کے نعروں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے مولانا کی کراچی میں ہونے والی پریس کانفرنس میں اگرچہ بظاہر جمہوری مقدمہ پیش کیا گیا ہے لیکن بین السطور ملکی سیاست میں اپنی اہمیت و ضرورت جتانے کی کوشش کی گئی ہے۔
مولانا فضل الرحمان ملکی سیاست میں جو کردار ادا کرتے رہے ہیں اسے بلیک میلنگ اور دباؤ کی سیاست کہا جاتا ہے۔ اسے جمہوری رویہ نہیں کہا جاسکتا۔ یوں تو کوئی آمر بھی اگر جمہوریت کے حق میں بولتا ہے تو اس کی تحسین کرنی چاہئے ، اسی لیے مولانا کے منہ سے جمہوریت کا مقدمہ سن کر اچھا بھی لگتا ہے اور اس کی تائید کرنا بھی ضروری ہے ۔ لیکن جب ایک چھوٹی سیاسی جماعت کا سربراہ اختیار و فیصلہ سازی میں اپنی نمائیندگی سے زیادہ حصہ مانگتا ہے اور خود کو غیر ضروری طور سے اہم بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا مقدمہ خود ہی کمزور پڑ جاتا ہے۔ وہ اسٹبلشمنٹ کی ملکی سیاست میں غیر معمولی شراکت داری کو مسترد کرتے ہیں لیکن کراچی کی پریس کانفرنس منعقد کرنے اور اسٹبشلمنٹ کے خلاف زور دار بیان جاری کرنے کی ضرورت بلوچستان کے ایک حلقے میں اپنے امید وار کی ناکامی کی وجہ سے پیش آئی۔ گویا جمہوریت کا ’مقدمہ‘ پیش کرتے ہوئے وہ طاقت ور حلقوں یعنی اسٹبلشمنٹ کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اگر انہیں نظر انداز کیا جاتا رہے گا تو وہ بھی شور مچائیں گے۔
اسی لیے وہ اسٹبلشمنٹ کے بارے میں سوشل میڈیا پر جاری پروپیگنڈے کو ’جائز‘ قرار دینے کی بھونڈی کوشش کرتے بھی دکھائی دئیے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اسٹبلشمنٹ ملکی سیاست میں کل اختیارات پر قابض رہ کر عوام کا مذاق اڑاتی ہے، اس لیے عوام کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کا مذاق اڑائیں۔ ان کے الفاظ میں ’ جب اسٹیبلشمنٹ جمہوریت اور آئین کا مذاق اڑائے تو کیا لوگ ان کا مذاق نہیں اڑائیں گے؟ لوگ ان پر تنقید نہیں کریں گے؟ وہ تنقید پر ناراض ہوتے ہیں اور حرکتیں یہ کرتے ہیں کہ اقتدار ہمارے پاس ہوگا، گرفت ہماری ہوگی ‘۔ ملک میں جھوٹ اور نفرت و تعصب کی بنیاد پر عسکری اداروں کو ایک ایسے وقت میں مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے جس وقت انہیں دہشت گردی میں اضافے اور شدت پسندی کے خلاف بند باندھنے کا مشکل کام درپیش ہے۔ اس اصول سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کو آئین سے ماورا سیاسی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں ہونا چاہئے لیکن اگر یہ حق خود منتخب سیاسی لیڈروں کے ذریعے تفویض ہورہا ہو تو اسے نہ تو اسٹبلشمنٹ کی غلطی قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی حقیقی معنوں میں غیر آئینی کہا جائے گا۔ سیاسی بیانیہ میں ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پارلیمنٹ کو یرغمال بنا لیا گیا ہے لیکن یہ کام کسی فوجی دستے کے ذریعے انجام نہیں دیا جاتا بلکہ خود سیاست دان عسکری قیادت کو اہم مالی، سفارتی و خارجہ امور میں حصہ داری کی دعوت دیتے ہیں۔ مولانا جمہوری اقدار کی پاسبانی کے لیے ضرور سیاست دانوں کی اصلاح کا کام کریں لیکن اگر وہ فوج اور دیگر عسکری اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے اور جھوٹ عام کرنے کو عوام کا ’حق‘ قرار دیں گے تو یہ ایک خطرناک ریڈ لائن عبور کرنے کے مترادف ہوگا ۔ ایسا رویہ شاید مولانا جیسے ہر آن کینچلی بدل لینے والے کسی سیاسی لیڈر کے لیے مسئلہ نہ بنے کیوں کہ وہ اپنی بات کو کوئی نئے معنی پہنا کر آگے بڑھ سکتے ہیں ۔لیکن اس سے ملکی رائے عامہ میں ایک خطرناک رجحان سازی کا اندیشہ پیدا ہو تا ہے جس کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہئے۔
ملک میں جمہوریت اور اسٹبلشمنٹ کی مداخلت سے پاک فیصلوں کی خواہش کا اظہار کرنے کے باوجود مولانا ، وزیر داخلہ محسن نقوی سے مسلسل ملاقاتوں کا اعتراف کرتے ہیں اور دعویٰ یہ ہے کہ یہ ملاقاتیں نجی نوعیت کی ہوتی ہیں اور ان میں کیا بات چیت ہوتی ہے ، اسے بتانا ہرگز ضروری نہیں ہے۔ مولانا کی یہ بات جمہوریت و شفافیت کے اس معیار پر پوری نہیں اترتی جس کا دعویٰ کرنے کے لیے انہوں نے کراچی میں پریس کانفرنس منعقد کی تھی۔ کون نہیں جانتا کہ محسن نقوی کسی کی نمائیندگی کرتے ہیں اور وہ کیا باتیں کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمان کے دولت خانہ پر حاضری دیتے ہیں۔ مولانا بے شک ان ملاقاتوں کا دروں خانہ احوال بیان نہ کریں لیکن وہ یہ توبتا سکتے ہیں کہ محسن نقوی سے مولانا کی ارادت مندی کا سلسلہ کیا ان کے وزیر داخلہ بننے سے پہلے سے جاری تھا یا ان دونوں نے ملک کے تبدیل شدہ حالات میں ایک دوسرے کو اہم ماننا شروع کیا ہے۔
بدقسمتی سے مولانا فضل الرحمان نے مبارک ثانی کیس میں جیسے حکومت اور سپریم کورٹ کو دباؤ میں لاکر انصاف اور قانون کی دھجیاں اڑانے میں کردار ادا کیا تھا ، اس کی روشنی میں ان کی جمہوریت پسندی کی باتیں مضحکہ خیز لگتی ہیں۔ اسی طرح جیسے انہوں نے 26 ویں آئینی ترمیم میں حکومت کا ساتھ دینے کے لیے مدرسوں کی رجسٹریشن کا طریقہ تبدیل کرنے کی جو رعایت حاصل کی ، اسے بھی کسی جمہوری روایت کا حصہ ماننا مشکل ہے۔ مولانا فضل الرحمان اگر ملک میں جمہوریت کے چمپئن بننا چاہتے ہیں تو انہیں اسلامی نظام کا علمبردار بننے اور مدرسوں کی سیاست سے گریز کرنا ہوگا۔ لیکن مدرسوں کی سیاست چھوڑ کر مولانا فضل الرحمان اپنے اصل سیاسی قد پر واپس آجائیں کے جن کی جماعت کو قومی اسمبلی میں صرف 8 نشستیں حاصل ہیں۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ