اس وقت بیشتر یورپی ملکوں کے صحافی و تجزیہ نگار قطر میں منعقد ہونے والے فیفا ورلڈ کے حوالے سے اس حد تک جذباتی عدم توازن کا شکار ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید دنیا میں انسانی حقوق کی جنگ جیتنے کے لئے یہ آخری معرکہ ہے۔ اور یورپ کے ’انسان دوست ‘ مبصر اور ٹی وی اینکر کسی بھی قیمت پر اسے جیت لیناچاہتے ہیں تاکہ فٹبال کا مزہ کرکرا ہوتا ہے تو ہوجائےلیکن انسانیت کے نام پر ’داغ‘ نہ لگ جائے۔
یہ جذباتی ، قلمی اور سمعی بصری لڑائی اس شدت سے شروع کی گئی ہے اور یوں لڑنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اب یورپ میں فٹ بال کے کھیل سے دلچسپی رکھنے والے اور اس سے محظوظ ہونے والے لوگ بھی عاجز آکر اس رویہ کو مسترد کررہے ہیں۔ یوں تو یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی کھلاڑی یا ٹیم نے تعصب یا ظلم و استبداد کا شکار ہونے والے کسی گروہ کے لئے اظہار یک جہتی کیا ہو۔ عام طور سے کسی جگہ پر ہونے والے فوری سانحہ کے بعد اس دوران منعقد ہونے والے ایونٹ میں کھلاڑی سیاہ پٹیاں باندھ کر ہمدردی یا کسی ایسے ظلم سے دست برداری کاا علان کرتے ہیں۔ تاہم قطر میں منعقد ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کے خلاف احتجاج کی نوعیت یوں مختلف ہے کہ نہ تو یہ وقوعہ اچانک رونما ہؤا ہے اور نہ ہی قطر کے حالات دنیا کے لئے نئے ہیں ۔
جن معاملات پر قطر کو ہدف تنقید بنا کر شدید پروپیگنڈا کی صورت پیدا کی گئی ہے، دنیا کے متعدد دوسرے ممالک میں بھی انہی حوالوں سے قابل تحسین صورت حال نہیں ہے۔ ان میں سے دیگر عرب ممالک کے علاوہ پاکستان کا نام بھی نمایاں طور سے حوالہ کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جہاں ٹرانس جنڈر حقوق کے حوالے سے بننے والی ایک فلم جوائے لینڈ کو ایک طرف دینا بھر میں سراہا گیا تو پاکستان میں اس کی نمائش پر پابندی لگادی گئی۔ جب وزیر اعظم کی قائم کردہ خصوصی کمیٹی نے اس فلم کی دوبارہ جانچ کرکے اسے نمائش کے لئے پیش کرنے کی اجازت دے دی تو پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت نے فوری طور سے اس پر پابندی لگانا ضروری سمجھا۔ کچھ اس سے ملتی جلتی صورت ہمسایہ ملک بھارت میں بھی دیکھی اور سنی جاسکتی ہے۔ جہاں ایک گروہ کے جنسی میلانات کے حق کی حفاظت تو ایک طرف وسیع علاقوں میں متعدد اقلیتی گروہوں کو جینے کے حق سے محروم کرنے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں اور سرکاری طور سے ایسی مہم جوئی کی سرپرستی بھی کی جاتی ہے۔
یورپی ملکوں کا مقدمہ یہ ہے کہ قطر میں امیگرنٹ ورکرز کے حالات کار مسلمہ عالمی معیار کے مطابق نہیں ہیں اور ان کے ساتھ معاشی و گروہی تعصب و زیادتی کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے بحث کا آغاز تو 2010 میں فیفا کی طرف سے قطر کو 2022 کا ورلڈ کپ منعقد کروانے کا موقع دینے کے بعد ہی کردیا گیا تھا ۔ یورپی ملکوں کے علاوہ فیفا کے دباؤ پر قطر میں غیر ملکی ورکرز کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لئے کوششوں آغاز بھی ہؤا۔ متعدد قوانین کے ذریعے امیگرنٹ ورکرز کو وہ تمام حقوق دیے گئے جو اس سے پہلے انہیں میسر نہیں تھے۔ بوجوہ صورت حال کسی ترقی یافتہ مغربی معاشرے کی سطح پر تو نہیں آسکی لیکن یہ مان لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے کہ فیفا ورلڈ کپ منعقد کروانے کے شوق میں قطر نے غیر ملکی ورکرز کے حالات کار کو اس ریجن کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہت بہتر کیا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو قطر کو فیفا ورلڈ کپ منعقد کروانے کی اجازت دینا ایک مثبت فیصلہ تھا ۔ ایک تو اس اہم کھیل کے مقابلے یورپ اور جنوبی امریکہ سے باہر ایک عرب ملک میں منعقد ہوئے جس سے فٹ بال کی عالمگیریت اورمقبولیت کو وسیع کرنے کا موقع ملا۔ دوسرے اس ایونٹ کا اعزاز حاصل کرنے کے لئے قطر نے متعد د ایسی اصلاحات کیں جو شاید بصورت دیگر ممکن نہ ہوتیں۔
یوں بھی دیکھا جائے تو اصلاح کا عمل سست رو ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک سے کوئی ایسا مطالبہ فوری طور سے تسلیم کروانا ممکن نہیں ہوتا جس کی جڑیں دہائیوں کے رویوں اور قانونی و سماجی مجبوریوں میں پیوست ہوں۔ تاہم جوں جوں ورلڈ کپ کا انعقاد قریب آتا گیا، مغربی میڈیا قطر کی منفی تصویر اجاگر کرنے کی اپنی سی کوشش کرتا رہا۔ ورلڈ کپ مقابلوں کا آغاز ہونے سے پہلے ہم جنس پرستوں کے حقوق کے حوالے سے قطر کو مطعون کرنا شروع کیا گیا۔ قطر میں بیشتر مسلمان ممالک کی طرح ہم جنس پرستی قانوناً ممنوع ہے اور اس کے پرچار یا عام طور سے اس کے اظہار کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ اب اس ایک معاملہ کو لے کر قطر کو یورپی ممالک کے کے شدید اور یک طرفہ تنقید کا سامنا ہے۔
جنسی میلان کی بنیاد پر ساتھی کا انتخاب بلاشبہ بنیادی انسانی حق ہے۔ پوری دنیا میں اس پہلو سے کام ہورہا ہے۔ کچھ ممالک تمام گروہوں کے حقوق کے حوالے سے بہت آگے نکل گئے ہیں لیکن بعض ممالک میں قانون سازی کے باوجود قبول شدہ جنسی رویوں سے ہٹ کر ساتھی کا انتخاب بدستور ناقابل سماجی رویہ ہے۔ قطر کی طرح متعدد ممالک میں ہم جنس پرستی کو عقیدہ کے خلاف سمجھتے ہوئے غیر قانونی قرار دیا گیا ہے اور ابھی یہ معاشرے اس قانون سازی کو ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس طرز عمل کو غلط ماننے کے باوجود یہ تسلیم کرنا بھی اہم ہے کہ اس شعبہ زندگی میں اصلاح کی بہت گنجائش موجود ہے کیوں کہ ہم جنس پرستی کا تعلق محض قانون سازی سے نہیں ہے۔ متعدد عقائد میں اسے مذہبی احکامات کی رو سے غلط رویہ کہا جاتا ہے۔ یورپ کے متعدد ممالک میں ہم جنس پرستی قانوناً جائز ہے۔ بہت سے ملکوں میں ایک ہی جنس سے تعلق رکھنے والے دو لوگوں کو شادی کرنے یا اکٹھے رہنے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ اس کے باوجود کوئی یورپی ملک یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ ان گروہوں کے خلاف سماجی تعصب کا خاتمہ کردیا گیا اور ایسے لوگ بدستور اپنی پسند کو چھپانے یا اپنے میلانات کو خفیہ رکھنے پر مجبور نہیں ہیں۔
اس کی دوسری بڑی مثال بھارت کی دی جاسکتی ہے جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیا جاتا ہے اور جہاں پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں بھی شاذ و نادر ہی آواز سننے میں آتی ہے ۔ وہاں 2018 تک ہم جنس پرستی قانونی طور سے جرم تھی۔ ٹرانس جنڈر کو اپنی جنسی حیثیت کے تعین کا حق 2019 میں دیا گیا۔ اس قانون سازی کے باوجود کیا سماجی طور سے بھارتی معاشرے میں ہم جنس پرست کسی خوف و ہراس کے بغیر زندگی گزار سکتے ہیں؟ مراعات یافتہ ایک مخصوس طبقہ سے قطع نظر ایسے میلانات رکھنے والے لوگوں کو آج بھی شدید گھٹن، تعصب، سراسیمگی اور خوف کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود وہاں اس حوالے سے اصلاح کی کوشش کی جارہی ہے۔ کچھ تنظیمیں متحرک ہیں اور عدالتوں نے بھی ہم جنس پرستوں اور ٹرانس جنڈر حقوق کو تحفظ فراہم کیا ہے تاہم مکمل سماجی قبولیت کے لئے شاید ابھی کئی دہائیوں کا سفر طے کرنا پڑے گا۔ لیکن کہیں سے یہ آواز تو سنائی نہیں دیتی کہ ہم جنس پرستوں کے خلاف پائے جانے والے اس وسیع سماجی تعصب کی بنیاد پر بھارت کا بائیکاٹ کردیاجائے۔ چین جیسے بڑے اور سیکولر ملک میں بھی اس حوالے سے حقوق کی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ یہ مثالیں دینے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کی قطر کو اس نئے عالمی رجحان سے آگاہ نہ کیا جائے کہ ہم جنس پرستی کو اب بنیادی حق کی حیثیت حاصل ہورہی ہے اور عقیدہ یا سماجی رویوں کو بنیاد بنا کر ان گروہوں کو ان کے جنسی میلان سے باز رکھنے کی کوئی کوشش ناروا ہوگی۔ البتہ یہ مان لینا کہ چونکہ عرب دنیا کا ایک چھوٹا سا ملک فیفا ورلڈ کپ منعقد کرنے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے، اس لئے اب اسے فوری طور سے نہ صرف یہ کہ قوانین تبدیل کردینے چاہئیں بلکہ ملک میں آنے والے تمام ہم جنس پرستوں کو کھلے عام بوس و کنار اور اپنے تعلق کا اعلان کرنے کا حق بھی دینا چاہئے۔ ایسا مطالبہ کرنا نہ تو قابل عمل ہے اور نہ ہی اس قسم شدت پسندانہ رویوں سے کوئی حقیقی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔ قطر نے فیفا ورلڈ کپ کے حوالے سے ایک سادہ سی درخواست کی ہے کہ ان کے ملک میں آنے والے ان کی سماجی و معاشرتی روایات اور مذہبی عقائد کا احترام کریں۔ قطر نے ایسا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا کہ ورلڈ کپ میں حصہ لینے یا میچز دیکھنے کے لئے آنے والوں سے ان کے جنسی میلانات کے بارے میں پوچھا جائے گا بلکہ صرف اتنا کہا ہے کہ ان کا سر عام اظہار قابل قبول نہیں ہوگا۔
ان دو مختلف آرا کے درمیان تواز ن تلاش کیا جاسکتا تھا۔ فیفا نے قطر حکام کے ساتھ مل کر وہی توازن تلاش کرنے کی کوشش بھی کی اور متعدد شعبوں میں رعایت بھی حاصل کی البتہ یورپی میڈیا اس مفاہمانہ طریقہ سے مطمئن نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فیفا کے صدر گیانی انفانتینو کو گزشتہ اتوار کے روز ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب سے پہلے ایک پریس کانفرنس میں کہنا پڑا کہ ’یورپ کو دوسروں پر نکتہ چینی کرنے کی بجائے اپنے ملکوں میں تارکین وطن کی حالت زار کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ ۔۔ ہم یورپین گزشتہ تین ہزار سال سے (انسانیت کے خلاف) جن جرائم کا ارتکاب کرتے رہے ہیں، ہمیں آئیندہ تین ہزار سال تک اپنے ان اعمال پر معافی مانگتے رہنا چاہئے۔ تب ہی ہم کسی دوسرے کو اخلاقیات کا سبق سکھا نے کے قابل ہوسکیں گے‘۔ یہ ایک انتہائی مؤقف ہے لیکن اس بیان میں پائے جانے والی تندی و تیزی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یورپی میڈیا نے کس حد تک یک طرفہ اور شدت پسندانہ رویہ اختیار کیا ہے۔
اس کی انتہا اس وقت دیکھنے میں آئی جب متعدد یورپی ملکوں نے اتوار کے روز ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب ٹیلی کاسٹ کرنے سے گریز کیا اور اس دوران نام نہاد تجزیہ نگار ٹی اسکرین پر قطر کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہے۔ بی بی سی کے علاوہ دیگر ممالک کے ٹی وی اسٹیشنز کی اس حکمت عملی کے خلاف فٹ بال شائقین کی طرف سے بھی شدید رد عمل دیکھنے میں آیا ہے۔ اس دوران فیفا نے متعد یورپی ٹیموں کے کپتانوں کو ’ون لو‘ کا بینڈ باندھ کر میچ کھیلنے سے منع کردیا اور رین بو ر یونفارم کی اجازت دینے سے بھی انکار کردیا گیا۔ اس کے جواب میں بدھ کو جرمنی کی ٹیم نے جاپان کے خلاف میچ سے قبل گروپ فوٹو اترواتے ہوئے منہ پر ہاتھ رکھ کر احتجاج کیا۔ حالانکہ یہ لڑائی فیفا اور متعلقہ ممالک کی فٹ بال تنظیموں کے درمیان ہے لیکن اس میں قطر کو ملوث کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ مغربی میڈیا کے سرسری مطالعہ سے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ فیفا ورلڈ کپ کی خبریں اینٹی قطر منشور کی پیغامبر بنا دی گئی ہیں جو بنیادی صحافتی اقدار کی بھی خلاف ورزی ہے۔
قطر میں فیفا ورلڈ کپ تو چند ہفتے میں ختم ہوجائے گا لیکن کسی بھی موضوع پر پیدا کی جانے والی شدت پسندی کا خمیازہ انسانوں کے کسی نہ کسی گروہ کو بھگتناپڑتا ہے۔ ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لئے شدت پسندی کا مظاہرہ کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ یہ طریقہ قطر ہی نہیں بلکہ اس پورے ریجن کے بارے میں یورپی لوگوں کے رویوں پر اثرانداز ہوگا ۔ اور اس کے رد عمل میں عرب ممالک میں چلنے والی مہم یورپ ا ور مغرب کے بارے میں نفرت کو عام کرے گی۔ افسوسناک طور سے کھیلوں کے ایسے عالمگیر ایونٹ کو جسے محبت ویک جہتی کا پیغامبر ہوناچاہئے تھا، انسانوں میں تقسیم کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )