پہلا واقعہ۔3جنوری کی صبح بلوچستان کے علاقے مچھ میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے گیارہ مزدور اپنے جھونپڑی نما مکان میں سوئے رہے تھے کہ اچانک کچھ مسلح افراد نے اُن پر دھاوا بول دیا۔ بندوق کی نوک پر اِن بد حال مزدوروں کے ہاتھ پیر باندھے گئے، انہیں گولیاں ماری گئیں اور پھر اُنہیں کسی جانور کی طرح ذبح کر کے اِس عمل کی ویڈیو بنا کر انٹر نیٹ پر چڑھا دی۔ قتل ہونے والے مظلوموں کا تعلق شیعہ ہزارہ برادر ی سے تھا جبکہ قتل کی ذمہ دار ی داعش نے قبول کی۔ دوسرا واقعہ۔چند ہفتوں سے ٹی وی چینلز پر ایک اشتہار نشر کیا جا رہا تھا جس میں ایک پاکستانی مرد اداکار کسی قوت بخش وٹامن کی تشہیر کرتا ہوا کہتا تھا کہ یہ صرف مردوں کے لیے ہے۔ سنا ہے کہ اب سے چند گھنٹے پہلے پیمرا نے اِس بیہودہ اور فحش اشتہار کے نشر کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔تیسرا واقعہ۔30دسمبرکو خیبر پختونخوا کے ضلع کڑک میں انتہا پسندوں کے ایک ہجوم نے ہندوؤں کی ایک مقدس ہستی کی سمادھی اور اس میں واقع مندر کو تباہ کرکے آگ لگادی اور اُسی جگہ پر واقع ہندو برادری کے ایک زیر تعمیر مکان کو بھی مسمار کردیا۔چیف جسٹس جناب گلزار احمد نے فوری طور پرواقعے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے مندر کی از سر نو تعمیر کا حکم دیاہے۔کئی سال بعد تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے جب از خود نوٹس کے اختیار کا درست استعمال کیا گیا ہے۔چوتھا واقعہ۔ 2جنوری کو اسلام آباد میں اکیس سالہ نوجوان اسامہ ستی کو پولیس نے ناکے پر روکنے کی کوشش کی اور گاڑ ی نہ روکنے پر چاروں طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ کرکے موقع پر اُس نوجوان کو ہلاک کر دیا۔نوجوان کی جتنی عمر تھی اتنی ہی اسے گولیاں ماری گئیں۔ مقتو ل کے والد کے مطابق چند دن پہلے اسامہ کی پولیس اہلکاروں سے تلخ کلامی ہوئی تھی اور پولیس نے اسے ’مزا چکھانے‘کی دھمکی دی تھی۔پانچواں واقعہ۔22دسمبر کو بلوچستان سے تعلق رکھنے والی خاتون کریمہ بلوچ ٹورنٹو میں اچانک مردہ حالت میں پائی گئیں۔مس بلوچ پانچ برس سے کنیڈا میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گذار رہی تھیں۔ اُن کی موت کی خبر کے چند ہی گھنٹوں بعد ٹورنٹو پولیس نے بیا ن دیا کہ اِس واقعے میں کسی قسم کے جرم کے شواہد نہیں ملے۔
یہ پانچ مختلف واقعات ہیں، اِن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں،اسی لیے یہ واقعات لکھتے ہوئے میں نے کسی ترتیب کا خیال نہیں رکھا۔ بطور لکھار ی یہ میری ’صوابدید‘ہے کہ میں کس واقعے کو موضوع بناؤں اور کس زاویے سے اُس پرلکھوں۔لیکن جب بھی کوئی لکھاری اپنے صوابدیدی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے موضوع کا انتخاب کرتا ہے توساتھ ہی وہ قاری پر اپنی ترجیحات، نظریات اور انداز فکر بھی واضح کردیتا ہے۔پہلے واقعے سے شروع کرتے ہیں۔ شاید ہی کوئی کالم نگار ہو جس نے اِس موضوع پر ماتم نہ کیا ہو، لیکن محض نوحہ لکھنا کافی نہیں، یہ زاویہ دکھانا بھی ضروری ہے کہ یہ داعش ہمارے
ملک میں کہاں سے آئی،اِس کی ہمدرد اور ہم خیا ل تنظیمیں کون سی ہیں، یہ کون لوگ ہیں جو مذہب کے نام پر سفاکی سے قتل کو جائز سمجھتے ہیں اور کیوں ہمارے وہ دوست جنہیں ذرا سی بھی آزاد خیالی برداشت نہیں، اِس مذہبی جنونیت پر منہ میں گھنگنیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں اور اگر بولتے بھی ہیں تو یوں کہ داعش جیسی کسی تنظیم کی دل آزاری نہ ہو۔کسی موضوع پر محض لکھنے سے حق ادا نہیں ہو جاتا بلکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ لکھنے والے نے کیا لکھا ہے۔میرے پاس بھی یہ اختیار موجودہے کہ جس اشتہار پر پیمرا نے پابندی لگائی اُس پر لکھوں اور کہوں کہ یہ پابندی ٹھیک لگی ہے، اِس قسم کے اشتہارات ٹی وی پر نہیں چلنے چاہئیں کہ یہ اشتہارات تو مغربی ممالک میں بھی رات کو ایک مخصوص وقت کے بعد نشر کیے جاتے ہیں مگر پھر سوچا کہ کیا میری ترجیح یہ اشتہار ہے یا کر ک میں تباہ کیا گیا مندر جس نے میرے ملک کا تاثر برباد کر دیا!مندر کو آگ لگائی گئی، سمادھی جلا دی گئی، ایک ہم وطن ہندو کا گھر مسمار کر دیا گیا۔۔۔کیا اِس موضوع پر لکھنے کا ٹھیکہ صرف وجاہت مسعود کا ہے؟ مذہبی رجحان رکھنے والے ہمارے دوست اِس پر کیوں نہیں لکھتے؟انہیں اِس ضمن میں کیاامر مانع ہے؟کیوں اِس موضوع پر ویسے ہی پھنکارتے ہوئے کالم نہیں آئے جیسے عورت مارچ کے پلے کارڈ پر درج نعروں کے خلاف آتے ہیں؟
چوتھے واقعے پر بھی میڈیا میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیاہے۔یہ موضوع ایسا ہے جس پر مرد حُر بننا قدرے آسان ہے کیونکہ مجرمان پولیس اہلکار ہیں۔اِس واقعے کی تفصیلات پڑھیں تو روح کانپ جاتی ہے کہ کیسے سفاک پولیس والوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کرکے اُس نوجوان کو چھلنی کر دیا۔ پولیس کی جاری کردہ پریس ریلیز اور بعد ازا ں عدالت میں بیانات سے صاف لگتاہے کہ کسی کو اپنے کیے پر پشیمانی نہیں۔ اور وجہ اِس کی یہ ہے کہ یہ پہلا واقعہ ہے نا آخری۔ خروٹ آباد سے لے کر حیات بلوچ کے قتل تک اگر کسی کو سزا ہو جاتی تو شاید یہ پولیس والے گولیاں مارنے سے پہلے کچھ سوچتے۔ لیکن جس معاشرے میں سی سی پی او کی ذہنی پستی قابل رحم ہو وہاں گریڈ سات کے نیم خواندہ کانسٹیبل کے ہاتھ میں خود کار اسلحہ اسی قسم کے بہیمانہ قتل کے کام ہی آئے گا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے حالات میں بھی ریاست سے محبت غیر مشروط ہوتی ہے؟ اس سوال کاجواب اسامہ ستی کے والد، ہزارہ برادری کے پسماندگان اور ہندو ہم وطنوں سے لینا چاہیے،ہم لکھاری اِس بات کا جواب نہیں دیں گے کیونکہ ہمارے پاس لکھنے کے لیے اور بہت سے’اہم موضوعات‘ہیں۔
اب کچھ بات پانچویں واقعے کی بھی ہو جائے۔جس روز کریمہ بلوچ کی ’پراسرا‘ موت کی خبر آئی، ٹویٹر پر اُس کا ٹرینڈ چل گیااور بہت سے بائیں بازو کے لکھاریوں نے مس بلوچ کی موت کو قتل قرار دیا۔میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کس بنیاد پر انہوں نے یہ رائے قائم کی! ٹورنٹو پولیس نے دو ٹوک الفاظ میں ایسے کسی امکان کو رد کر دیا تھامگر ہمارے یہ دانشور دوست مسلسل یہ تاثر دیتے رہے کہ مس بلوچ کو اُن کے بلوچ قوم پرست خیالات کی پاداش میں یقینا قتل ہی کیاگیا ہوگا۔عام حالات میں یہ لوگ عقلی دلائل سے کام لیتے ہیں اور یہی بات انہیں دائیں بازو کے جذباتی لکھاریوں سے ممتاز کرتی ہے مگر اِس معاملے میں انہوں نے جذبات سے کام لیا اور یہ نہیں سوچا کہ ہم جمال خشوگی قتل کے بعد کے عہد میں ہیں، یہ ممکن نہیں کہ کنیڈا جیسے ملک میں جلا وطنی کی زندگی گذارتی ہوئی کسی عورت قتل کردیاجائے اور ٹورنٹو پولیس اُس کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کرے۔ آج سے دس سال پہلے لندن میں عمران فاروق کا قتل ہوا تھا، سکاٹ لینڈ یارڈ نے تفتیش کی اور بالآخر گزشتہ برس مجرمان کو سزا ہوئی۔عرض صرف اتنی ہے کہ جس طرح مذہبی رجحان رکھنے والوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مذہب کے نام پر ہونے والی دہشت گردی اور جنونیت کی دوسرے لکھاریوں سے بڑھ کر مذمت کیا کریں اُسی طرح بائیں بازو کے آزاد خیال دانشورو ں پر بھی اتنی ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے نظریات کے ہاتھو ں یرغمال بننے کی بجا ئے حقائق کو پرکھا کریں اور درست بات کہنے سے نہ ہچکچایا کریں چاہے وہ بات اُن کے نظریات سے میل نہ کھاتی ہو۔کبھی کبھی بزم مے سے تشنہ کام آنے میں بھی کوئی حرج نہیں!
( گرد و پیش کے لیے ارسال کیا گیا کالم )