سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن کے متعدد سینیٹرز نے بلوچ خاتون رہنما کریمہ بلوچ کی میت کے کراچی پہنچنے پر کئے گئے اقدامات پر سخت تنقید کی ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین کی رپورٹ کے مطابق کراچی ائیر پورٹ سے ہی سیکورٹی فورسز نے کریمہ بلوچ کے تابوت کو اپنی تحویل میں لے لیا اور میت خاندان یا دیگر بلوچ رہنماؤں کے حوالے نہیں کی گئی۔ نہ ہی کراچی میں نماز جنازہ کی اجازت دی گئی۔ تحریک انصاف کے سینیٹر فدا محمد نے اپوزیشن لیڈروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ لاشوں پر سیاست سے باز رہیں۔ البتہ حکمران جماعت کے سینیٹر کے پاس اس سوال کا جواب شاید نہ ہو کہ پھر ریاست نے کیوں ایک بلوچ خاتون کی لاش پر سیاست کی یا وہ اس سے خوفزدہ تھی؟
کریمہ بلوچ گزشتہ ماہ کے آخر میں کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے اچانک لاپتہ ہوگئی تھیں ۔ ایک روز بعد ان کی لاش قریبی جھیل سے ملی تھی۔ کینیڈین پولیس نے ان کی موت کو حادثاتی قرار دیا ہے لیکن قوم پرست بلوچ تنظیمیں اور اہل خاندان پولیس کی اس رپورٹ سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ بدستور کینیڈین حکام سے اس معاملہ کا تفصیلی جائزہ لینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اہل خاندان کا کہنا ہے کہ انہیں کینیڈا میں قیام کے دوران جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی رہی تھیں۔ اطلاعات کے مطابق دسمبر 2017 میں انہیں پیغام بھیجا گیا تھا کہ اگر وہ پاکستان واپس نہ آئیں اور بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرمیاں ترک نہ کیں تو ان کے چچا کو ماردیا جائے گا۔ کریمہ بلوچ نے اس دھمکی کو درخور اعتنا نہیں سمجھا ۔ 2 جنوری 2018 کو ان کے چچا نور محمد کی لاش آبائی گاؤں ٹمپ میں ملی۔ اس کے باوجود کریمہ بلوچ نے اپنی جد و جہد جاری رکھی۔
بلوچ قوم پرست تحریک کے حوالے سے بہت سے سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔ سرکاری بیانیہ کے مطابق یہ لوگ ملک دشمن ہیں اور بلوچستان کی علیحدگی کے لئے کام کرنے کے علاوہ ریاست کے خلاف مسلح جنگ شروع کئے ہوئے ہیں جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس مؤقف کے جواب میں قوم پرست تنظیموں کے علاوہ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی قومی اور عالمی تنظیمیں بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ بلوچ تنظیموں کو اپنے سیاسی حقوق کے لئے آواز اٹھانے پر سزا دی جاتی ہے۔ نوجوانوں کو گھروں سے اٹھالیا جاتا ہے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ سیاسی ، عدالتی اور سماجی دباؤ کے باوجود ابھی تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ ناپسندیدہ قرار دیے گئے لوگوں کی لاشیں کسی ویران جگہ سے ملتی ہیں۔ پولیس کبھی ایسے لوگوں کے قاتلوں کا سراغ لگانے کی کوشش نہیں کرتی۔
کریمہ بلوچ نے بھی اپنے عوام کے حقوق کے لئے جد و جہد کی تھی۔ انہوں نے طالب علم کے طور پر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے ذریعے جد و جہد کا آغاز کیا تھا اور بعد میں وہ اس تنظیم کی سربراہ بھی مقرر ہوئیں۔ اس تنظیم کی سربراہ بننے والی وہ پہلی خاتون تھیں۔ وہ تنظیم کے کہنے پر ہی بلوچ عوام کی آواز عالمی فورمز تک پہنچانے کے مقصد سے 2015 میں کینیڈا چلی گئی تھیں جہاں بعد میں انہیں سیاسی پناہ دے دی گئی تھی۔ کریمہ بلوچ کو یہ اعزاز دیا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک انتہائی قدامت پسند سماج میں خواتین کو گھروں سے نکلنے اور اپنے حقوق کی جد و جہد میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے پر آمادہ کیا۔ کینیڈا روانہ ہونے سے پہلے دس برس تک وہ بلوچستان کی خواتین اور لڑکیوں کو منظم کرنے اور سیاسی طور سے باشعور کرنے کے لئے کام کرتی رہی تھیں۔ انہوں نے صوبے کے کونے کونے کا دورہ کیا اور گھر گھر اپنا پیغام پہنچایا۔ ان کی سرتوڑ کوششوں ہی کے نتیجہ میں گھروں میں بند رہنے والی بلوچ لڑکیوں اور خواتین نے باقاعدہ احتجاج کرنے، دھرنا دینے اور لانگ مارچ کرنے جیسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ یہ بجائے خود بلوچستان اور پاکستان کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے کہ ان جیسی متحرک نوجوان خاتون کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ 37 سال کی کم عمری میں وطن سے دور کینیڈا میں ان کی پر اسرار موت اسی کہانی کا افسوسناک اور دکھ بھرا انجام ہے۔
کریمہ بلوچ کے نظریات، خوبیاں اور کمزوریاں ان کے ساتھ ختم ہوچکی ہیں۔ ان کی موت پراختلاف رائے بھی قابل فہم ہے۔ کیوں کہ گزشتہ سال ہی مئی میں ایک دوسرے بلوچ کارکن اور صحافی ساجد حسین سویڈن میں اسی طرح پر اسرار طور سے غائب ہوگئے تھے اور پھر ان کی لاش ایک قریبی دریا سے ملی تھی۔ ان کی موت کو بھی سویڈن پولیس نے حادثہ قرار دیا تھا اور ان کے اہل خاندان بھی اسے قتل ہی کی واردات سمجھتے ہیں۔ کریمہ بلوچ کی موت پر بھارتی میڈیا نے اپنی روائیتی پاکستان دشمنی کی وجہ سے سنسنی خیزی پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ اور اس موت کو پاکستانی ایجنسیوں کا کارنامہ قرار دیا گیا۔ بعض بلوچ لیڈر بھی اس شبہ کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن بھارتی میڈیا کی منفی رپورٹنگ اور جھوٹی خبروں کی وجہ سے کریمہ بلوچ کی موت کا سراغ لگانے کے جائز مطالبہ کو بھی مشتبہ بنا دیا۔ کسی بلوچ رہنما کی بیرون ملک موت پر نہ تو صرف کینیڈین پولیس کی سرسری رپورٹ کو حتمی سمجھا جانا چاہئے اور نہ ہی بھارتی میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈا کو اہمیت دی جانی چاہئے۔ البتہ پاکستانی حکومت اور لیڈروں پر یہ ذمہ داری ضرور عائد ہوتی تھی کہ وہ مرحومہ کے خاندان کے اطمینان اور بلوچ کارکنوں کی تشفی کے لئے ، اس موت پر لاتعلقی اختیار کرنے کی بجائے، سرگرمی سے اس میں حصہ دار بنتے اور کینیڈا پر زور دیا جاتا کہ کریمہ بلوچ کی سیاسی حیثیت، ریاست پاکستان سے ان کے اختلاف اور اہل خاندان کے شبہات کی روشنی میں اس حادثہ کے تمام ممکنہ شواہد سامنے لائے جائیں تاکہ دشمن ملک کا میڈیا اسے پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرسکے۔
گزشتہ روز کریمہ بلوچ کی میت پاکستان پہنچنے کے بعد اختیار کیا گیا رویہ بھی پاکستانی ریاست اور سیکورٹی ایجنسیوں کی کوتاہ نظری کا واضح ثبوت ہے۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ سیکورٹی ایجنسیوں کو کریمہ کی میت کو قبضے میں لینے، اہل خاندان کو اس سے دور رکھنے اور پھر سخت پہرے میں اسے بلوچستان پہنچانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ بلوچستان کے ضلع مکران میں کرفیو نافذ کیا گیا اور ٹمپ کے علاقے میں صرف اہل خاندان اور مقامی باشندوں کو نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت دی گئی۔ بعض اطلاعات کے مطابق سخت پابندیوں کی وجہ سے کریمہ بلوچ کی والدہ بھی اپنی بیٹی کا چہرہ نہیں دیکھ سکیں۔ کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ کریمہ بلوچ کے لواحقین اور ان کے سیاسی ساتھیوں کو میت وصول کرکے تدفین کے لئے لے جانے کا موقع دیا جاتا۔ انہیں اس حق سے محروم کرکے دراصل سیکورٹی اداروں نے خود شبہات اور غلط فہمیوں کو عام ہونے کا موقع دیا ہے۔ بلوچستان کی موجودہ صورت حال میں یہ فیصلہ ناروا تھا اور سیاسی نقصان کا سبب ہوگا۔
حیرت انگیز بات ہے کہ اس سارے معاملہ میں سیاسی حکومتوں کا کوئی کردار دکھائی نہیں دیتا۔ سینیٹ میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سینیٹر جہاں زیب جمالدانی نے شدید تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مکران میں کرفیو لگانے کا فیصلہ صوبائی حکومت یا سول انتظامیہ کی بجائے سیکورٹی اداروں نے کیا تھا۔ تدفین کے موقع پر پورا علاقہ فوجی نگرانی میں تھا اور نقل و حرکت پر سخت پابندی عائد تھی۔ یہ ایک جائز سوال ہے کہ بیرون ملک انتقال کرنے والی ایک پاکستانی خاتون کی میت وطن پہنچنے پر ان کا سوگ منانے اور آخری رسومات ادا کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ ریاست کو ایک مری ہوئی عورت سے ایسا کون سا خوف تھا کہ اس کے تابوت کو سخت نگرانی میں ایک محدود نماز جنازہ کے بعد دفن کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ملک یا صوبے کی سیاسی حکومتوں نے اپنی کوتاہی کا جواب نہیں دیا ۔ سینیٹ میں سرکاری سینیٹرز نے اپوزیشن کو جواب دیتے ہوئے میت کی پاکستان آمد اور تدفین کے حوالے سے عائد پابندیوں پر سیاسی رد عمل دینے کی بجائے یہ الزام لگانے کی کوشش کی کہ اپوزیشن اسے سیاسی معاملہ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ یا ملک دشمن عناصر کریمہ کی حادثاتی موت کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔
اتوار کو کریمہ کی میت کے حوالے سے رونما ہونے والے واقعات پر یہ سوال نہیں اٹھایا جارہا کہ وہ کن حالات میں مری تھیں۔ بلکہ یہ پوچھا جارہا تھا کہ اس موقع پر سیکورٹی کا غیرمعمولی اقدام کرنے کا نادر روزگار فیصلہ کس زیرک نے کیا تھا۔ اگر یہ فیصلہ بلوچستان حکومت یا اسلام آباد نے کیا تھا تو اس کی دو ٹوک ذمہ داری بھی قبول کی جائے۔ اس کے برعکس تحریک انصاف کے سینیٹر فدا محمد یہ الزام عائد کررہے تھے کہ لوگ کراچی میں کریمہ بلوچ کے تابوت کو لیاری لے جاکر اس پر سیاست کرنا چاہتے تھے۔ حیرت انگیز طور پر سیاسی نمائیندے ایسے فیصلے اور اقدامات کا دفاع کرنے پر مجبور تھے جن کے بارے میں یہ تک نہیں جانتے کہ وہ کیوں کئے گئے اور اس سے کیا مقصد حاصل ہوسکتا تھا۔ نہ یہ جواب دینے کے قابل تھے کہ کونسی سول اتھارٹی نے ان اقدامات کی منظوری دی تھی۔
کریمہ بلوچ اس ملک کی شہری تھیں ۔ باوقار تدفین ان کا حق تھا۔ زندہ انسانوں کو حقوق دینے سے انکار کرنے والی طاقتیں ایک لاش کو احترام دینے میں بھی ناکام رہی ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے یہی خوف دراصل مملکت پاکستان اور اس کے اداروں کی مسلسل ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )