آلودگی سے پاک ماحول ایک اچھے معاشرے اور بھرپورزندگی کی بقا کیلئے بہت ضروری ہے اسی طرح شجر اور پرندے بھی زندگی کی خوبصورتی کا ایک حسین منظر پیش کرتے ہیں مگر دکھ اور تشویش کی بات یہ ہے کہ انسان نے نئی بستیاں بسانے کے شوق اور نئے مناظر کی تلاش میں شجر کی آبیاری کرنے کی بجائے اشجار کو کاٹ کر اُسے زندگی سے محروم کرنے کی روش اختیار کر لی ہے سو شجر نہ رہنے کی وجہ سے پرندے بھی نہیں رہے اور فضا کوئلوں اور بلبوں کے چہکنے سے بھی محروم ہوتی جا رہی ہے یعنی صورتحال کچھ ان اشعار کی سی ہے کہ
درخت سوکھ گئے رک گئے ندی نالے
یہ کس نگر کو روانہ ہوئے گھروں والے
کہانیاں جو سناتے تھے عہد رفتہ کی
نشان وہ گردش ایام نے مٹا ڈالے
نئے شہر اور بستیاں بسانے کی خواہشیں اور لگن میں ہم نے درختوں کو کاٹنا شروع کر دیا ہے۔ نئی نئی ہاؤسنگ کالونیوں کی تعمیر میں سب سے زیادہ نقصان بھی درختوں کا ہوا ہے ملتان جو سٹی آف مینگو کی حیثیت سے پوری دنیا میں پہچانا جاتا تھا اب آہستہ آہستہ اپنی یہ شناخت کھوتا جا رہا ہے۔ بہرحال مایوسی کے اس منظر نامے میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جناب محمد قاسم خان نے ہاﺅسنگ کالونیوں کیلئے درختوں کی کٹائی میں ملوث بلڈرز کے خلاف کارروائی کی نوید سنائی ہے اور آنے والی نسلوں کو آلودگی سے پاک ماحول دینا عوامی ذمہ داری قرار دیا ہے انہوں نے زیادہ سے زیادہ رقبہ پر جنگلات لگانے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے ملتان محترم چیف جسٹس ہائی کورٹ کا اپنا شہر ہے اور Son of Soil کی حیثیت سے درختوں کے لیے ان کی درد مندی قابل تحسین و ستائش بھی ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ جناب قاسم خان ہمارے سول لائنز کالج کے بھی ساتھی ہیں۔ سال 1977-78ءکی سٹوڈنٹس یونین میں راقم جنرل سیکرٹری اور وہ نائب صدر کے عہدے پر منتخب ہوئے تھے سول لائنز کالج کا یہ وہ سہانا دور تھا جب پروفیسر ڈاکٹر محمد امین، ڈاکٹر انور جمال، پروفیسر جابرعلی سید، پروفیسر فاروق عثمان، پروفیسر شوکت مغل ،پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین حیدر، پروفیسر تاثیر وجدان ، پروفیسر خالق عزمی اور پروفیسر مبارک مجوکہ جیسے ادیب و شاعر و درس تدریس کے ساتھ ساتھ ملتان کے ادبی منظر نامے کو سنوارنے میں مصروف تھے یہی وجہ ہے کہ اس دور کے بہت سے طالب علم بھی آج شعرو ادب کی محفلوں میں خاصے سرگرم عمل دکھائی دیتے ہیں۔
محترم قاسم خان اورراقم نے اس دور میں بین الکلیاتی مباحثوں، مشاعروں اور علمی و ادبی تقاریب میں کالج کے نام کو خوب نمایاں رکھا پروفیسر حسین سحر انجمن طلباءکے نگران تھے اور ان ہی کی نگرانی میں دلیل سحر کالج میگزین کے ذریعے بھی طلبا کی ادبی و شعری صلاحیتوں کو جلا ملی۔ محترم وسیم ممتاز، محسن شاہین، صفدر عباس کھاکھی ،سرفراز خان اور برادم افضل شیخ بھی اس دور میں خاصے نمایاں تھے ۔جناب محمد قاسم خان کالج کے زمانے میں بھی علم و ادب سے گہری دلچسپی رکھتے تھے اور بہترین مقرر تھے وہ ایڈووکیٹ جنرل اور پھر جج کے منصب پر فائز ہوئے۔
ادب اور مطالعے کی طرف ان کا شروع ہی سے رجحان رہا یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں محنت اور والدین کی دعاؤں سے اس منصب جلیلہ تک پہنچے ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ انہوں نے نظام عدل کی بہتری کیلئے خاصے خوش آئند اقدامات کیے ہیں اپنے شہر ملتان کیلئے ضلع کچہری کے بیشتر معاملات کو بھی سلجھانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے وہ بار اور بنچ کے درمیان خوشگوار تعلقات کے حامی ہیں اور عوامی مسائل و مقدمات کے جلد حل کے بھی خواہاں ہیں۔ نوجوان وکلا کو اہمیت دیتے ہیں اور اس مقدس پیشے کے وقار کو برقرار رکھنے پر بھی زور دیتے رہتے ہیں یہ بات یقینا خوش آئند ہے کہ انہوں نے ملتان کے آموں کے باغات کی شناخت برقرار رکھنے کی بات بھی کی ہے اور درختوں کی کٹائی روکنے کے اقدامات پر بھی زور دیا ہے۔ ہمارے ادیب دوست اور مینگو گرورز زاہد گردیزی بھی آموں کے باغات کی بقاءکیلئے سرگرم عمل رہے ہیں۔ جناب چیف جسٹس محمد قاسم خان نے شہر کے پرانے اور یادگار تاریخی دروازوں کی تعمیر و مرمت اور بحالی کے کام کو بھی جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ شہر ملتان کی ثقافت اور تاریخ کو محفوظ کیا جا سکے۔
اہل ملتان جناب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے ان اقدامات پر ان کے شکر گزار بھی ہیں کہ نفسا نفسی اور کمرشل ازم کے دور میں وہ شہر کی بہتری اور درختوں کی بقا کیلئے نیک خواہشات رکھتے ہیں درخت بلاشبہ زندگی کی خوبصورتیوں میں نکھار پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں کہ
ہم محبتوں میں درختوں کی طرح ہیں
جہاں لگ جائیں مدتوں وہیں کھڑے رہتے ہیں
برگد کے کتنے ہی گھنے پیڑ مسافروں اور پرندوں کو آرام و سکون پہنچاتے ہیں ملتان کے کمپنی باغ میں کئی قدیم درخت آج بھی اس شہر کی عظمت رفتہ کی داستانیں رقم کئے ہوئے ہیں۔
شجریوں بھی زندگی کا استعارہ ہے اس کی بقاءکیلئے ہم سب کو آگے بڑھنا ہو گا تاکہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کو بھی آلودگی سے پاک ماحول مہیا کر سکیں اور انہیں شجر سے محبت کا احساس بھی دلا سکیں۔ بقول سلیم کوثر
سائے میں بیٹھی ہوئی نسل کو معلوم نہیں
دھوپ کی نذر ہوئے پیڑ لگانے والے
نیم ، کیکر، شیشم، کھجور اور آم کے درخت پھلے پھولیں گے تو راہردان شوق منزلیں بھی پائیں گے راستوں کی مسافت بھی کم ہو گی انہیں سستانے کا بھی موقع ملے گا اور درختوں کی ان لہلہاتی شاخوں پر مہکتی شاموںکا احساس بھی جاگزیں ہو گا اور پرندوں کی چہچہاہٹ سے زندگی کے رنگ اور بھی بھلے لگیں گے اور سرسبز پاکستان کیلئے ہم سب کو شجر کاری میں اپناکردار بھی ادا کرنا ہو گا۔
اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے
فیس بک کمینٹ