وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا مقدمہ پرزور طریقے سے پیش کیا ہے۔ انہوں نے بجا طور سے سوال کیا ہے کہ ’ہم نے جو قصور نہیں کیا ، اس کی سزا پاکستانی عوام کو کیسے دی جاسکتی ہے‘۔ انہوں نے عالمی فورم میں تقریر کرتے ہوئے اقوام عالم سے اپیل کی پاکستان کو انصاف دیا جائے۔ موجودہ تباہی صنعتی ممالک کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ انہیں اس کا معاوضہ بھی دینا چاہئے۔
گزشتہ تین روز کے دوران شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے نیویارک میں مصروف وقت گزارا ہے۔ پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی اور اس سے پیدا ہونے والے انسانی المیہ کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے لئے جمع ہونے والے عالمی لیڈروں کے علاوہ میڈیا میں پاکستانی قیادت کی خوب آؤ بھگت ہوئی ہے۔ متعدد میڈیا ہاؤسز نے وزیر اعظم سے انٹرویو کئے ہیں اور پاکستان کی صورت حال کے بارے میں سوالات کئے گئے۔ اسی طرح بلاول بھٹو زرداری نے بھی متعدد فورمز پر خطاب اور دیگر ممالک کے ہم منصبوں سے ملاقاتوں میں پاکستان کو انصاف دینے اور موجودہ تباہی میں ہاتھ بٹانے کے لئے آگے بڑھنے کی اپیل کی ۔
اب یہ بات عالمی سطح پر تسلیم کی جارہی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی تباہی موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے ۔ دنیا میں درجہ حرارت بڑھنے کی اہم ترین وجہ کاربن کا اخراج ہے جس میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان کو موحولیاتی تبدیلی سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں شامل کیا جاتا ہے جبکہ ماحولیاتی آلودگی میں حصہ کے حوالے سے پاکستان دنیا کے پہلے ایک سو ممالک کی فہرست میں بھی نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ سیلاب سے رونما ہونے والے انسانی المیہ پر پاکستان کے ساتھ ہمدردی کی فضا پیدا ہوئی ہے ۔ نیویارک میں موجود پاکستانی لیڈروں نے اس صورت حال کو مزید مالی وسائل اور عالمی امداد حاصل کرنے کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔
جنرل اسمبلی سے خطاب میں شہباز شریف نے واضح کیا کہ پاکستان میں ہونے والی تباہی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستانی عوام کی تکلیف دیکھ کر یوں بھی دکھ میں اضافہ ہوتا ہے کہ یہ ان لوگوں کا قصور نہیں تھا جن کے گھر تباہ ہوگئے، مویشی مر گئے اور فصلیں زیر آب آگئیں۔ لاکھوں لوگ غیر معینہ مدت کے لئے روزگار کے مواقع سے محروم ہو چکے ہیں۔ شہباز شریف نے پاکستان کی مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی معیشت کو درست کرنے کی کوشش کررہے تھے لیکن اس ناگہانی اور تباہ کن صورت حال نے ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ دیے ہیں۔ اقوام عالم کو اس موقع پر آگے بڑھنا چاہئے اور پاکستانی عوام کو دوبارہ پانے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دینی چاہئے۔ اقوام متحدہ سے خطاب میں انہوں نے خاص طور سے اس نکتہ پر زور دیا کہ اس وقت انسانی صورت حال اور تباہی کے مناظر کی وجہ سے پاکستان کی تکلیف پر سب بات کررہے ہیں لیکن جب وقت کے ساتھ میڈیا کا فوکس اس طرف سے ہٹ گیا تو کون ان لوگوں کی مدد کے لئے آئے گا جو اس وقت دوسروں کی غلط کاری کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس وقت تو متاثرین کو محفوظ مقامات تک پہنچانے ، عارضی رہائش اور خوراک کی فراہمی بنیادی چیلنج رہا ہے لیکن اس کے بعد آباد کاری اور سیلاب سے ہونے والی نقصانات کو پورا کرنے کا مرحلہ آئے گا۔ فصلیں تباہ ہوجانے کی وجہ سے پاکستان کو غذائی قلت کا سامنا ہوگا اور گندم و دیگر اجناس درآمد کرنا ہوں گی۔ اس کے علاوہ تباہ ہونے والے گھروں اور پبلک عمارات، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر پر آنے والی لاگت کا تخمینہ لگانا بھی ممکن نہیں ہے۔
دنیا میں شہباز شریف کہ اس اپیل کو سنجیدگی سے لیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئیترس ہفتہ عشرہ قبل پاکستان کے دورے پر آئے تھے اور انہوں نے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اتنی تباہی نہیں دیکھی۔ اس موقع پر میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے گوئیترس نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ پاکستانیوں کو ایک ایسے گناہ کی سزا ملی ہے جو ان سے سرزد نہیں ہؤا ، اس لئے ترقی یافتہ ممالک کو پاکستان اور موسمی تبدیلی سے متاثر ہونے والے دیگر ممالک کو معاوضہ ادا کرنا چاہئے۔ قرضوں کی ادائیگی میں سہولت فراہم ہونی چاہئے اور متاثرین کی فوری مدد کا میکنزم تیار کرنے کے لئے کام ہونا چاہئے۔ شہباز شریف نے اپنے خطاب میں سیکرٹری جنرل کے تاثرات اور مشاہدات کا حوالہ دیا۔ دو روز پہلے امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں ہونے والی تباہ کاری کا خاص طور سے حوالہ دیا اور اقوام عالم سے اپیل کی کہ وہ اس کڑے وقت میں پاکستان کی مدد کے لئے آگے بڑھیں۔ امریکی حکومت اپنے طور پر پاکستان کو بحالی کے کاموں میں مدد کی پیش کش کرچکی ہے۔
گزشتہ شب امریکی صدر نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونے والے سربراہان مملکت و حکومت کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔ اس موقع پر صدر جو بائیڈن اور فرسٹ لیڈی جل بائیڈن نے شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کی اور فوٹو سیشن میں حصہ لیا۔ پاکستانی وزیر اعظم سے گفتگو میں امریکی صدر نے پاکستان کو درپیش صورت حال پر ہمدردی کا اظہار کیا اور اپنی بھرپور امداد و تعاون کا یقین دلایا۔ موجودہ مشکل صورت حال میں دنیا کی واحد سپر پاور کے صدر کی یہ توجہ پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لئے اچھی خبر ہے۔ یہ درست ہے کہ اس بار ایک طرف پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کی نظیر نہیں ملتی تو دوسری طرف ماضی کے مقابلے میں امداد کے وعدے سست روی کا شکار رہے ہیں۔ اس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ان میں البتہ سر فہرست یوکرین جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی مالی مشکلات ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے شہری قیمتوں کے علاوہ شرح سود میں اضافہ کی وجہ سے براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔ متعدد ترقی یافتہ ممالک اپنے عوام کی پریشانی رفع کرنے میں مصروف ہیں۔ تاہم گزشتہ چند روز کی پیشرفت سے دیکھا جاسکتا ہے کہ اب عالمی ادارے اور اہم ممالک پاکستان میں سیلاب سے ہونےو الی تباہی میں دست تعاون دراز کررہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری پاکستان میں تعمیر نو کی غیر معمولی ضرورت کی وجہ سے جلد ہی ڈونرز کانفرنس بلانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں امیر ممالک کی طرف سے کثیر عطیات کی امید کی جارہی ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے گزشتہ روز ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا ہے کہ غیر سرکاری طور پر آئی ایم ایف کی سربراہ نے پاکستان کو مزید فنڈز فراہم کرنے کے علاوہ قرض کی شرائط نرم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اسی قسم کے اشارے عالمی بنک اور ایشیا بنک کی طرف سے موصول ہوئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ سیلاب سے آنے والی تباہی وزیر اعظم شہباز شریف کی دیوار سے لگی حکومت کے لئے ’اچھی خبر ‘ بننے والی ہے۔ موجودہ مالی سال کے دوران اگر مختلف مالی اداروں اور ممالک سے سیلاب کی تباہ کاری سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو وسائل فراہم ہونا شروع ہوگئے تو حکومت داخلی طور سے سیاسی چیلنج کا بہتر طریقے سے سامنا کرسکے گی۔ پاکستان کے طاقت ور ادارے یعنی اسٹبلشمنٹ کو بھی ان حالات میں موجودہ حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے تاکہ پاکستان کو مالی وسائل کی ترسیل کا سلسلہ جاری ہوسکے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کے لئے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دھرنے کی صورت میں شہباز حکومت کا خاتمہ بے حد مشکل ہوجائے گا۔ انہیں اس راستے میں ایک سے زیادہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ ان حالات میں اس بات کا امکان بھی بڑھ گیا ہے کہ وفاقی حکومت اپنی اتھارٹی میں اضافہ کے لئے پنجاب حکومت گرانے اور کوئی ہمدرد حکومت قائم کروانے میں بھی کامیاب ہوجائے۔ قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اور تحریک انصاف کے ممتاز لیڈر اسد قیصر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اقرار کیا ہے کہ پارٹی دو آپشنز پر غور کررہی ہے۔ ایک آپشن صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر یا انہیں توڑ کر حکومت کو عام انتخابات منعقد کروانے پر مجبور کرنا ہے۔ دوسرے آپشن میں اگر شہباز شریف عام انتخابات کی کسی تاریخ کا اعلان کردیں تو تحریک انصاف قومی اسمبلی میں واپس جاسکتی ہے اور انتخابات کے انعقاد کے لئے مناسب اور ضروری قانون سازی میں شریک ہوسکتی ہے۔ اسد قیصر کو اگر تحریک انصاف کا ترجمان سمجھا جائے تو قیاس کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان بھی اب تصادم کی بجائے کسی سیاسی مفاہمت کے فارمولے پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔ سیاسی نفرت کے موجودہ ماحول میں یہ ایک اچھی خبر ہے۔ اس سے ایک طرف شہباز حکومت کو کچھ سپیس مل سکے گی تو دوسری طرف سیاسی ہیجان کی صورت حال ختم کی جاسکے گی۔
دیکھنا ہوگا کہ نیویارک سے واپسی پر شہباز شریف قومی سیاست کے حوالے سے کیا فیصلے کرتے ہیں۔ یہ مناسب ہوگا کہ وہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں اور ارکان اسمبلی کو عالمی لیڈروں کے ساتھ ہونے والی بات چیت اور پاکستان کے لئے امداد کی صورت حال کے بارے میں مطلع کریں۔ اس موقع پر وہ عام انتخابات کی واضح تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے بتا سکتے ہیں کہ انتخابات کے انعقاد کے لئے عبوری حکومت کب قائم کی جائے گی۔ اسد قیصر کی طرف سے قومی اسمبلی میں واپسی کے اشارے کے بعد ایسا اعلان مناسب اور ضروری ہوگا۔
حکومت مقررہ وقت پر انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرتی رہتی ہے۔ یہ مقررہ وقت جولائی 2023 میں ختم ہوجائے گا۔ شہباز شریف اگلا بجٹ پیش کرنے کے فوری بعد انتخابات کے لئے عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کردیں تو ملکی سیاست میں پائی جانے والی بے یقینی ختم ہوجائے گی۔ عمران خان شاید یہ ٹائم شیڈول مزاحمت کے بغیر قبول نہیں کریں گے لیکن انتخابات کا واضح اعلان ہونے کے بعد انہیں اپنا احتجاج انتخابی مہم میں تبدیل کرنا پڑے گا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ