ہفتہ کے روز اسرائیل پر حماس کے حملہ کے بعد سے غزہ پر اسرائیلی بمباری آج چھٹے روز بھی جاری رہی۔ اس دوران اسرائیل کی طرف سے غزہ پر زمینی حملہ کے اشارے موصول ہورہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اظہار یک جہتی کے لیے اسرائیل پہنچے ہیں لیکن غزہ میں بے گناہ انسانوں کی ہلاکت پر امریکہ کے حکام مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئیتریس سمیت متعدد عالمی تنظیمیں جنگ بند کرنے اور غزہ کے شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر زور دے رہی ہیں۔ ایک سنگین انسانی المیہ اور شدید جنگ کے باوجود ابھی تک اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس منعقد نہیں ہوسکا۔ کیوں کہ سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار رکھنے والے ممالک میں اختلاف رائے کی وجہ سے قیام امن یا جنگ بندی کی کوئی قرار داد منظور نہیں ہوسکتی۔
اس دوران میں امریکہ کی خواہش ہے کہ وہ اسرائیل کو اپنے جنگی عزائم پورا کرنے کا ہر ممکن موقع فراہم کرے تاکہ آئیندہ سال صدارتی انتخابات کے دوران اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ صدر جو بائیڈن اسرائیل کی حمایت میں اس حد تک غیر ذمہ داری پر اتر آئے ہیں کہ یہودی تنظیموں کے ساتھ ایک اجلاس کے دوران میں انہوں نے حماس پر معصوم بچوں کے سر قلم کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔ حالانکہ ایسی میڈیا رپورٹنگ کی اسرائیل نے بھی تصدیق نہیں کی۔ ان خبروں کی حقیقت فیک نیوز سے زیادہ نہیں ہے لیکن امریکی صدر اس قدر سیاسی دباؤ میں ہیں کہ وہ اسرائیل کے لیے امریکی حمایت پر زور دینے کے لئے افواہوں اور جھوٹ کو بھی گفتگو کا حصہ بنانے سے باز نہیں رہ سکے۔ اس بیان کے بعد وہائٹ ہاؤس کو البتہ یہ وضاحت جاری کرنا پڑی کہ صدر نے میڈیا رپورٹس کے حوالے سے یہ بات کہی تھی۔
غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ اور سنگدلانہ بمباری جاری ہے۔ اس کا نشانہ شہری آبادیاں اور ایسے مقامات ہیں جہاں سے جنگ زدہ لوگوں کو طبی امداد یا تحفظ ملنے کی امید ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کرتے ہوئے، اس علاقے کے لیے بجلی، پانی ادویات اور خوراک کی فراہمی روک دی ہے۔ اب اسرائیلی حکومت کے نمائیندے اعلان کررہے ہیں کہ حماس جب تک یرغمال بنائے گئے اسرائیلی و دیگر ممالک کے باشندوں کو رہا نہیں کرے گا، اس وقت تک محاصرہ جاری رہے گا اور غزہ کی سپلائی لائن بند رکھی جائے گی۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں نے واضح کیا ہے کہ یہ اقدام سنگین انسانی المیہ کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ خطرہ محسوس کیا جارہا ہے کہ اگر اسرائیل فوری طور سے انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے راہداری دینے پر آمادہ نہ ہؤا تو غزہ میں بچے اور شہری قحط کا شکار ہوسکتے ہیں۔
اس خطرناک اور اشتعال انگیز صورت حال کے باوجود جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب نہیں کیا جاسکا۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ روس اور چین کسی ایسی قرار داد کی حمایت نہیں کریں گے جس میں اسرائیل کی یک طرفہ حمایت کی جائے اور فلسطین پر قبضہ اور شہریوں کے خلاف اسرائیل کے جنگی جرائم کی مذمت نہ ہو۔ امریکہ کسی ایسی قرار داد کو قبول نہیں کرے گا جس میں اسرائیل کے کسی بھی اقدام پر تنقید کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے کے سیاسی و سفارتی مؤقف کو جانچتے ہوئے کوئی فریق بھی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی بات نہیں کرتا کیوں کہ اس میں کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہوسکتا جسے سب قبول کرلیں۔ اور جس پر عمل درآمد کے لیے تمام بڑی طاقتیں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرسکیں۔ اس حوالے سے ہچکچاہٹ کی دوسری اہم ترین وجہ یہ ہے کہ امریکہ کو اندازہ ہے کہ سلامتی کونسل کا اجلاس ہؤا تو مقررین ضرور ہفتہ کو اسرائیلی سرزمین اور شہریوں پرحماس کے حملہ کی مذمت کریں گے لیکن زیادہ زور اس انسانی المیہ پر دیا جائے گا جو اسرائیل کی سفاکانہ جنگی حکمت عملی کی وجہ سے رونما ہورہا ہے۔ غزہ میں جاں بحق ہونے والے انسانوں کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہورہا ہے اور اسرائیلی بمباری سے غزہ میں شہری آبادیوں کی اینٹ سے اینٹ بجائی جارہی ہے۔
سلامتی کونسل میں بیٹھ کر کوئی مناسب حل تلاش کرنے کی بجائے امریکی حکومت اسرائیل کی سلامتی کے لیے بحری بیڑہ اور جنگی طیارے بحیرہ روم روانہ کررہی ہے اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن بنفس نفیس اسرائیل پہنچے ہیں جہاں انہوں نے وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقات کی ہے اور کہا کہ کہ امریکہ کبھی بھی اسرائیل کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ بلنکن کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نے حماس کو دہشت گرد تنظیم داعش کے ہم پلہ قرار دیا اور اصرار کیا کہ جیسے پوری دنیا نے مل کر داعش کا خاتمہ کیا تھا ، اسی طرح اب حماس کے خلاف ایسا ہی عالمی محاذ بنایاجائے۔ گویا اسرائیلی حکومت کی خواہش ہے کہ پوری دنیا نہتے فلسطینیوں کے خلاف اس کی ریاستی دہشت گردی میں حصہ دار بن جائے لیکن انسانوں کے خلاف جنگی جرائم یا دہائیوں سے فلسطینیوں کے علاقوں پر ناجائز قبضہ کی بات زبان پر نہ لائی جائے۔
امریکی صدر اور دیگر عہدیدار اسرائیل کی حمایت میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بیان دینے کی کوشش کررہے ہیں لیکن غزہ میں سامنے آنے والے انسانی المیہ اور بے مقصد اسرائیلی بمباری کے بارے میں ان کے منہ سے ایک لفظ نہیں ادا نہیں ہؤا۔ امریکہ کا یہی یک طرفہ اور جانبدارانہ رویہ موجودہ تنازعہ میں شدت اور سنگینی کا سبب بن رہا ہے۔ یورپ میں صورت حال قدرے مختلف ہے۔ حماس کی مذمت اور اسرائیلی شہریوں پر دہشت گرد حملہ کو مسترد کرنے کے بعد اب یہ سوال اٹھایا جانے لگا ہے کہ غزہ کے شہریوں پر بمباری اور ان کی سپلائی لائن بند کرنے سے اسرائیل کی حفاظت کیسے ممکن ہوگی؟ اگرچہ ابھی تک یہ آوازیں نحیف و کمزور ہیں اور اس رائے کو کسی مغربی ملک کی سرکاری پوزیشن میں نمایاں حیثیت حاصل نہیں ہوسکی کیوں کہ سب یورپی ممالک خارجہ پالیسی پر بیان دینے کے لیے امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں اور اس سے اختلاف کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔
صدر جو بائیڈن کا سب سے بڑا مسئلہ امریکی انتخابات اور ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے امریکی عوام کی تائد حاصل کرنا ہے۔ انہیں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے سیاسی مخالف کا سامنا ہے جو حکومت پر تنقید کرتے ہوئے سخت الفاظ استعمال کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ تمام تر قانونی مشکلات کے باوجود ٹرمپ ابھی تک آئیندہ سال ہونے والے صدارتی انتخاب میں ری پبلیکن پارٹی کی طرف سے امیدوار بننے کے سب سے طاقت ور اور مقبول سیاسی لیڈر ہیں۔ حماس کے حملہ کے بعد نیو ہیمپشائر میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جو بائیڈن کی ایران پالیسی کو اس حملہ کی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے صدر بائیڈن پر الزام لگایا کہ قیدیوں کے تبادلے کے لیے ایران کو 6 ارب ڈالر جاری کرنے کا فیصلہ درحقیقت اس حملہ کی وجہ بنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ ایران کے بارے میں بائیڈن کی کمزور پالیسی پر پوری دنیا امریکہ پر ہنس رہی ہے‘۔انہوں نے بائیڈن حکومت پر زمینی حقائق سے بے خبر ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ دوہفتے پہلے صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان نے کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں اس وقت جو خاموشی (امن) ہے، وہ گزشتہ دو دہائیوں میں نہیں دیکھا گیا، اور ہفتہ کو حماس کے حملہ میں سینکڑوں اسرائیلی ہلاک ہوگئے۔
اگرچہ صدارتی ترجمانوں اور امریکی حکومت نے ٹرمپ کے الزامات کو بیہودہ قرار دیا لیکن دیکھا جائے تو اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے غزہ کے پچیس لاکھ انسانوں کے المیہ کو نظر انداز کرنے کی حکمت عملی درحقیقت یہ ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ امریکی سیاست میں کون سا لیڈر اسرائیل کا بہتر ’سرپرست‘ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس وقت جو بائیڈن کی کوشش ہے کہ وہ کم از کم اس مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ سے بازی لے جائیں تاکہ انتخابی مہم کے دوران وہ خود کو ’مظلوم ‘ کا ہمدرد بتاسکیں۔ لیکن ا س سے بڑا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے کہ پچاس سال سے عرب علاقوں پر قابض اور فلسطینیوں کو مسلسل ہلاک کرنے والی اسرائیلی ریاست کو ’مظلوم‘ کہا یا سمجھاجائے جبکہ غزہ میں لاکھوں بچے بھوک و پیاس سے بلک رہے ہوں اور انسانو ں کو کوئی جائے پناہ میسر نہ ہو۔
سابق صدر ٹرمپ نے اب ایک انٹرویو میں حماس کے حملہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لبنان کے ملیشیا گروپ حزب اللہ کی توصیف کی ہے اور کہا کہ اس گروپ نے نہایت ہوشیاری کا ثبوت دیا ہے جبکہ’ نیتن یاہو حماس کی تیاریوں سے بے خبررہے اور اس کامقابلہ نہ کرسکے‘۔ اس بیان پر اسرائیل اور امریکی حکومت نے یکساں طور سے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور ٹرمپ کے بیان کو مسترد کیا ہے ۔ تاہم حماس کے کامیاب حملے میں اس گروہ کی ہوشیاری سے زیادہ اسرائیلی و امریکی انٹیلی جنس کی ناکامی سمجھا جائے گا۔ اب یہ دونوں ممالک اپنی خفت چھپانے کے لیے غزہ کے معصوم انسانوں کو نشانے پر لینا ضروری سمجھ رہے ہیں اور اس گھناؤنے فعل میں انہیں بین الاقوامی اصول اور انسانی اقدار پامال ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔
حماس کے حملہ سے اسرائیل میں ہلاک ہونے والے لوگوں کی تعداد اب 1300 سے تجاوز کرگئی ہے۔ اسرائیلی سرزمین پر کبھی کسی گروہ کو ایسی تباہی مسلط کرنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد اسرائیل کے ایک کروڑ شہری کبھی اس اطمینان کے ساتھ نہیں سو سکیں گے کہ وہ ہر حملےسے محفوظ ہیں کیوں کہ ان کی حکومت اور ادارے چوکنا ہیں اور عسکری نظام مخالفین کی صلاحیت پر حاوی ہے۔ یہ بھرم اب ٹوٹ چکا ہے۔ اب اسرائیلی شہریوں کو حقیقی اطمینان اور مستقل امن فراہم کرنے کے لیے جنگ بند کرنے اور فلسطینیوں کے حقوق مان کر دو ریاستی حل کی طرف بڑھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اسرائیل کے علاوہ امریکہ جس قدر جلد اس حقیقت کو تسلیم کرے گا، اتنی ہی سرعت سے مشرق وسطیٰ میں حقیقی امن کے امکانات پیدا ہوسکیں گے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ