امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اب غزہ خریدنے اور اسے ایک رئیل اسٹیٹ سائٹ کے طور پر دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ائرفورس ون پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو غزہ واپس آنے کی اجازت دینا غلطی ہوگی۔ ہم حماس کو واپس آتا نہیں دیکھ سکتے۔ دنیا کے سب سے طاقت ور ملک کے صدر کا یہ بیان تمام انسانی، جمہوری اور اخلاقی اصولوں سے متضاد و متصادم ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے بارے میں بتدریج اپنی پوزیشن واضح کی ہے۔ اب انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ امریکہ غزہ کو خریدلے گا اور اس کا مالک بن جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں غزہ کو خریدنے اور اس کا مالک بننے کے لیے پرعزم ہوں۔ جہاں تک اس کی تعمیر نو کا تعلق ہے تو ہم اسے مشرق وسطیٰ کی دوسری ریاستوں کو دے سکتے ہیں تاکہ اس کے کچھ حصوں کی تعمیر کی جا سکے۔ دوسرے لوگ ہماری سرپرستی میں ایسا کر سکتے ہیں لیکن ہم اس کی ملکیت حاصل کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ حماس واپس نہ آسکے‘۔ وہاں واپس جانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، یہ جگہ انہدام کی جگہ ہے، بقیہ جگہ کو مسمار کر دیا جائے گا، سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے مطابق امریکی صدر نے کہا کہ میرے خیال میں فلسطینیوں یا غزہ میں رہنے والے لوگوں کو ایک بار پھر واپس جانے کی اجازت دینا ایک بڑی غلطی ہوگی اور ہم نہیں چاہتے کہ حماس واپس آئے۔ ’غزہ کو ایک بڑی رئیل اسٹیٹ سائٹ کے طور پر سوچیں۔ امریکا اس کا مالک بننے جا رہا ہے اور ہم آہستہ آہستہ بہت آہستہ آہستہ ایسا کریں گے، ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے، ہم اسے تیار کریں گے‘۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ نام نہاد انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ کے محروم اور مجبور باشندوں کو ہمسایہ عرب ملکوں میں اچھے گھروں اور پر سکون ماحول میں آباد کرنے کی مشورہ نما تجویز دینے کے بعد ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے غزہ پر امریکی قبضہ کی بات کی۔ اب اس ’قبضہ‘ کی وضاحت کرتے ہوئے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ غزہ کو خرید لے گا البتہ اگر عرب ملکوں کو شوق ہے تو وہ بھی اس کی ترقی میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ امریکہ غزہ کو لمیٹڈ کمپنی بنا دے جس کے کچھ حصے دلچسپی رکھنے والے ملکوں کو بھی بیچے جاسکیں گے۔
کسی خطے کے لوگوں کو وہاں سے نکال کر اس جگہ کو رئیل اسٹیٹ بنادینے کی بات کرنا بجائے خود بدترین سفاکی اور گھٹیا انسانی رویہ ہے لیکن کسی اصول یا اخلاق کو نہ ماننے والے امریکی صدر سے کسی بھی بے اعتدالی اور لاقانونیت کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ غزہ کے لیے جس منصوبہ کا اعلان کررہے ہیں، اس کے تحت غزہ سے 25 لاکھ فلسطینی باشندوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بے دخل کیا جائے گا۔ کیوں کہ ٹرمپ اور ان کے اسرائیلی ہم خیال نیتن یاہو کا مانناہے کہ اگر فلسطینیوں کو غزہ میں دوبارہ آباد کیا گیا تو اس سے حماس پھر سے طاقت ور ہوجائے گی۔ حالانکہ ڈیڑھ سال تک غزہ کو تباہ کرنے اور لاکھوں لوگوں کو مصائب و آلام کا شکار کرنے کے دوران مسلسل یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ اسرائیل غزہ کے شہریوں کا تو ہمدرد ہے لیکن وہ حماس کے جنگجوؤں کا پیچھا کررہا ہے۔ اس بیچ اتفاقاً شہری ہلاکتیں بھی ہوجاتی ہیں۔ حالانکہ اسرائیلی کارروائیوں کے دوران 46 ہزار فلسطینی شہری مارے گئے جن میں بچوں و خواتین کی اکثریت تھی۔ اسرائیلی فوج جان بوجھ کر ہسپتالوں، اسکولوں اور امدادی مراکز کو نشانہ بنایا اور وہاں پناہ لینے والوں کو ہلاک کیا گیا۔ اب اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے حماس کو تباہ کردیا ہے اور اس کے 20 ہزار جنگجو مارے ہیں۔ لیکن اسرائیل نے یرغمالی اسرائیلیوں کی رہائی کے لیے اسی حماس سے معاہدہ کیا اور انہیں حاصل کرنے کے لیے سینکڑوں فلسطینی قیدی رہا کرنے پر آمادہ ہؤا۔
اس صورت حال سے صرف یہ واضح ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کا حل جنگجوئی اور تشدد میں نہیں ہے۔اگر حماس کو تشدد کی پالیسی ختم کرنا چاہئے تو اسرائیل کو بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کے مقصد سے اجتناب کی ضرورت ہے۔ غزہ میں جنگجوئی کے دوران اسرائیلی حکومت کی پالیسی کو کسی بھی طرح خود حفاظتی قرار دینا ممکن نہیں ہے۔ متعدد ممالک، انسانی حقوق کے ادارے اور ماہرین اسے فلسطینیوں کی نسل کشی سے تعبیر کرتے ہیں۔ انتڑنیشنل کریمینل کورٹ نے اسی الزام میں نیتن یاہو اور دیگر اسرائیلی لیڈروں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں۔ تاہم اب اسرائیل، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرپرستی میں غزہ کی ترقی کے نام پر ایک ایسے منصوبے پر کام کررہا ہے جس میں غزہ کو فلسطینیوں سے پاک کیا جائے گا۔ تاہم یہ خواہش مشرق وسطیٰ میں ایک طویل المدت جنگ، انتہاپسندی اور عدم استحکام کا سبب بنے گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اب غزہ کو خریدنے کی بات کی ہے اور ساتھ ہی حماس کو ختم کرنے کے مقصد سے وہاں سے 25 لاکھ فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کیا غزہ کوئی ایسا خطہ ہے جسے اس کے کسی مالک نے فروخت کرنے کا عندیہ دیا ہے؟ اگر ایسی صورت حال موجود نہیں ہے تو یہ دعوے امریکی طاقت پر غیر ضروری گمان اور تمام عالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ حماس کو سزا دینے کے لیے اس خطے میں آباد لاکھوں لوگوں کو جلاوطن کرنے اور ان کی سرزمین خریدنے کی بات کرنا کسی طور قابل عمل اور کسی بھی عالمی ضابطے کے مطابق جائز نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی خطے کے بارے میں صرف وہاں پر آباد لوگ ہی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ امریکہ کا صدر یا اسرائیلی حکومت اگر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرے گی تو یہ منصوبہ مزید تباہی اور خرابی کو دعوت دینے کا باعث ہوگا۔
یہودیوں کو دوسری صدی عیسوی میں شاہ ہادریان نے بیت المقدس سے نکلنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد یہودی دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہوئے۔ دو ہزار سال بعد 1948 میں جبراً فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی ریاست قائم کی گئی۔ اس دوران میں دنیا کے کسی بھی خطے میں یہودیوں کی حکومت قائم نہیں ہوسکی تھی۔ صیہونی تحریک انیسویں صدی میں یورپ میں شروع ہوئی تھی جس کا مقصد ’اسرائیلیوں کی سرزمین‘ پر یہودی ریاست کا قیام تھا۔ یہودی، فلسطینی علاقوں کو اپنی مقدس کتابوں کے حوالے سے اپنی دھرتی قرار دیتے ہیں۔ اس تحریک کا مقصد فلسطینی عربوں کو ان کے علاقوں سے نکال کر یہودیوں کو آباد کرنا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی میں ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کی نسل کشی اور لاکھوں یہودیوں کی ناجائز ہلاکت کے اخلاقی دباؤ کی وجہ سے یورپ و امریکہ نے اقوام متحدہ کی قرار داد کے ذریعے فلسطین میں اسرائیل کے قیام کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اگرچہ اس مقصد کے لیے صیہونی کارندوں کے ذریعے پہلے علاقے میں دہشت گردی اور تشدد کی کارروائیوں کا آغاز کیا گیا تھا۔ اسرائیل اس وقت جس دہشت گردی کا رونا روتا ہے، درحقیقت خطے میں اس کا آغاز خود اس ریاست کے بانیوں نے کیا تھا۔
ٹرمپ کی طرف سے غزہ کو رئیل اسٹیٹ بنانے کے دعوؤں اور خواہش سے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کو اتنا حوصلہ ہؤا کہ امریکہ ہی میں قیام کے دوران انہوں نے ایک اسرائیلی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے سعودی عرب میں فلسطینی ریاست بنانے کی مضحکہ خیز اور اشتعال انگیز تجویز دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اگرچہ بظاہر یہ تجویز اینکر کی اس غلطی کے جواب میں دی گئی تھی جس میں اس نے فلسطینی ریاست کی بجائے سعودی ریاست کہہ دیا تھا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ ’ سعودی عرب اپنے ملک میں فلسطینی ریاست بنا سکتا ہے، ان کے پاس بہت زمین ہے‘۔ تاہم سعودی عرب اور دیگر عرب ملکوں نے اسے مذاق سمجھنے کی بجائے اس کی مذمت کرتے ہوئے اسے توسیع پسندانہ ذہنیت قرار دیا ہے۔ عرب لیگ کے سربراہ احمد ابول غئیت نے کہا کہ اس بیان کے پس پردہ سوچ ناقابل قبول اور زمینی حقائق کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔ سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہےکہ ’قابض انتہا پسند ذہنیت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ فلسطینی سر زمین کی فلسطینی عوام کے لیے کیا اہمیت ہے۔ تاریخی اور قانونی اعتبار سے وہ اس زمین سے کتنی گہری شعوری وابستگی رکھتے ہیں‘۔
تاہم موجودہ صورت حال میں اسرائیلی وزیراعظم کا ایک فقرہ زیادہ اہم نہیں ہے کیوں کہ وہ آسانی سے اس سے منحرف ہوجائیں گے لیکن غزہ کے بارے میں امریکی صدر کے ارادوں اور عزائم پر سنجیدہ غور و فکر ہونا چاہئے۔ ٹرمپ کی باتوں کو ایک غیر سنجیدہ صدر کی گفتگو قرار دے کر نظر انداز کرنا سنگین غلطی ہوگی۔ اس حوالے سے سب سے بھاری ذمہ داری امریکی عوام اور کانگرس پر عائد ہوتی ہے۔ امریکی عوام نے ایک غیر ذمہ دار شخص کو صدر منتخب کیا ہے ۔ ایک خطے کے لوگوں کو دربدر کرنے اور مشرق وسطی کے ایک قطعہ زمین پر قبضہ کرنے کے دعوؤں کو سب سے پہلے امریکی عوام کو مسترد کرنا چاہئے۔ امریکہ دنیا کا ایک اہم ملک ہے۔ اسے اس وقت واحد سپر پاور کی حیثیت بھی حاصل ہے لیکن وہ تمام دنیا کا نقشہ محض ایک شخص کی خواہش و مرضی کے مطابق ترتیب نہیں دے سکتا۔ امریکی کانگرس کے بیشتر ارکان ضرور اپنے انتخاب کو ٹرمپ کی مقبولیت کا سبب سمجھتے ہوں گے لیکن کانگرس کے ارکان کو اجتماعی لحاظ سے اس حقیقت پر بھی غور کرنا چاہئے کہ ٹرمپ کے توسیع پسندانہ بیانات سے جو صورت حال پیدا ہوگی، امریکہ کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ اس سے پہلے ویت نام اور افغانستان کی ناکام جنگوں کا احوال غلط سیاسی فیصلوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکت خیزی اور ہزیمت کے ناقابل فراموش سبق کے طور پر تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ امریکی عوام اور کانگرس کو ضرور سوچنا چاہئے کہ ٹرمپ کی مدت چار سال ہے۔ اس کے بعد دوسرا صدر اور دوسری پارٹی اقتدار میں آسکتی ہے۔ لیکن یہ صدر جو غلطیاں کرے گا اس کا خمیازہ امریکہ اور وہاں کے عوام بھگتیں گے۔
تاہم اس وقت سب سے بھاری ذمہ داری سعودی عرب سمیت ان عرب ممالک پر عائد ہوتی ہے جن سے تعاون کی امید لگا کر ڈونلڈ ٹرمپ فلسطینی ریاست کے طے شدہ اصول کو مسترد کرکے اب غزہ پر امریکی تسلط کی باتیں کررہے ہیں۔ عرب ملکوں کو سخت بیانات پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ امریکی صدر کے عزائم کو مسترد کرنے کے لیے ٹھوس سفارتی حکمت عملی اور علاقائی تعاون کے لیے کام کرنا چاہئے۔ اس وقت فلسطینیوں میں اپنی پسند کے گروہ کی کامیابی و ناکامی کا حساب کرنے کی بجائے ،ایک مشترکہ مقصد سے اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ عرب ممالک امریکی صدر پر واضح کریں کہ وہ کسی صورت اور کسی قیمت پر فسلطینیوں کے لیے علیحدہ وطن کے مطالبے سے دست بردار نہیں ہوں گے اور نہ ہی غزہ سے شہریوں کو نکال کر کسی دوسرے ملک بھیجنے کے کسی منصوبے کا حصہ بنیں گے۔
اب ٹھوس سفارت کاری اور واشنگٹن کو سنجیدہ پیغام دینے کی ضرورت ہے۔ البتہ اگر مختلف عرب ممالک وقتی مفادات اور امریکی طاقت کے خوف سے ایک دوسرے کے خلاف کسی ریشہ دوانی کا حصہ بنیں گے تو ایسے لیڈروں کا نام بھی انسان دشمن اور عوامی خواہشیں کچلنے والے سفاک لوگوں میں لکھا جائے گا۔
( بشکریہ :کاروان ۔۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ