اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ جمعہ کو غزہ میں جنگ بندی کے لیے حماس کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کی منظوری دے گی۔ جنگ بندی پر اتوار سے عمل درآمد شروع ہوگا تاہم قطر کی کوشش ہے کہ اسے جلد از جلد نافذ کیا جاسکے۔ اگرچہ غزہ اوراسرائیل میں عوامی سطح پر جنگ بندی کی خبر پر خوشی کا اظہار دیکھنے میں آیا ہے لیکن مستقل جنگ بندی اور غزہ کے مستقبل کے بارے میں اب بھی متعدد سوال جواب طلب ہیں۔
گزشتہ رات قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان التھانی اور امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدہ پر اتفاق رائے کا اعلان کیا۔ قطری وزیر اعظم نے پریس کانفرنس میں معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ ’مستقل جنگ بندی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا‘۔ دوسری طرف واشنگٹن میں وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور نائب صدر کملا ہیرس کے ساتھ پریس کانفرنس میں صدر جوبائیڈن نے امید ظاہر کی کہ’ اس معاہدے کے نتیجے میں غزہ میں لڑائی رک سکے گی، فلسطینی شہریوں کو انسانی امداد کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی اور یرغمالیوں کو ان کے خاندانوں کے ساتھ 15 ماہ کی قید کے بعد ملنے کا موقع ملے گا‘۔ تاہم ان خوشگوار خواہشات کی تکمیل کا انحصار ابھی تک اسرائیلی حکومت کی مرضی و منشا پر ہے اور کوئی بھی مستقل جنگ بندی کے بارے میں کوئی واضح رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کنیسٹ سے شاید اس معاہدے کی منظوری حاصل کرلیں لیکن آخری مرحلے کے بارے میں انہیں کابینہ میں انتہا پسند وزیروں کی شدید مخالفت کا سامنا ہوگا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان تین مرحلوں پر مشتمل جس معاہدے کا اعلان ہؤا ہے اس کے تحت پہلے مرحلے میں 42 دن کی جنگ بندی ہوگی ۔ حماس اسرائیل کے 33 یرغمالی رہا کرے گا جن میں بچے، خواتین ، بوڑھے اور مریض یا زخمی شامل ہوں گے۔ اس کے بدلے اسرائیل کی جیلوں سے فسلطینی قیدی رہا کیے جائیں گے جن کی تعداد اور شناخت کے بارے میں آج بھی معاملات طے کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ البتہ اسرائیل نے واضح کردیا ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے میں ملوث افراد کو ہرگز رہا نہیں کرے گا۔ حماس نے بظاہر یہ شرط قبول کرلی ہے۔ درحقیقت حماس کے پاس اس وقت فیس سیونگ کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے کسی نہ کسی معاہدے تک پہنچنے کے سوا کوئی آپشن بھی نہیں تھا۔ اگلے ہفتے امریکہ میں صدارت کا عہدہ سنبھالنے والے ٹرمپ نے بار بار اعلان کیا ہے کہ اگر ان کے اقتدار سنبھالنے تک اسرائیلی یرغمالی رہا نہ ہوئے تو غزہ پر قیامت کا منظر دیکھنے میں آئے گا۔ انہوں نے اس میں کوئی شبہ نہیں رہنے دیا کہ ٹرمپ حکومت اسرائیل کو غزہ میں کسی قسم کی سہولت دینے پر مجبور نہیں کرے گی۔
یوں بھی حماس اب عسکری اور سیاسی طور سے تنہا اور بے بس ہوچکی ہے۔ لبنان میں اس کی حمایت کرنے والا گروہ حزب اللہ اسرائیل کے ساتھ چند روز کی جھڑپوں کے بعد ہی نیم مردہ ہوکر اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرکے ’نیوٹرل ‘ ہوچکا ہے۔ اسی طرح یمن میں حوثی قبائل نے اگرچہ بحری ٹریفک کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن جوابی کارروائی میں اسرائیل نے حوثیوں کو عسکری اور مالی لحاظ سے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس دوران شام میں بشار الاسد کے خلاف باغی فورسز کی کامیابی نے ایران کو اس علاقے سے منقطع کردیا ہے۔ اب وہ اپنے دفاع اور سفارتی پوزیشن بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ حزب اللہ یا حماس کو کوئی براہ راست امداد پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایران کو مزید دفاعی پوزیشن اختیار کرنا ہوگی اور سفارتی طور سے زیادہ ذمہ دارانہ رویہ اپنانا ہوگا۔ ٹرمپ حکومت موجودہ امریکی انتظامیہ کے مقابلے میں ایران کے بارے میں اعتدال پسندانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرے گی۔ یوں بھی علاقے میں حزب اللہ کی ناکامی اور بشارالاسد کی برطرفی کے بعد ایران کے پراکسی گروہ بڑی حد تک کمزور یا نیم جان ہوچکے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے میں جن تین مراحل کا ذکر کیا گیا ہے ، ان میں دو کے بارے میں تو واضح معلومات دی گئی ہیں لیکن تیسرے مرحلے کے بارے میں صورت حال غیر واضح ہے۔ پہلے مرحلے میں اتوار کو جنگ بندی شروع ہونے کے 16 دن بعد اسرائیل اور حماس باقی ماندہ یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے علاوہ اسرائیلی فوجوں کی غزہ سے مرحلہ وار واپسی کے بارے میں بات چیت شروع کریں گے۔ امید کی جارہی ہے کہ اس مرحلے میں اسرائیل کے تمام باقی ماندہ یرغمالی رہا ہوجائیں گے اور جو ہلاک ہوچکے ہیں ان کی لاشیں بھی اسرائیل کو دے دی جائیں گی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس وقت 94 اسرائیلی حماس کی قید میں ہیں جن میں سے 34 کی موت واقع ہوچکی ہے۔ اگر اس مرحلے پر کامیابی سے عمل ہوجاتا ہے تو اسرائیل پر جنگ بندی جاری رکھنے یا معاہدے کی باقی شرائط پوری کرنے کا کوئی دباؤ نہیں ہوگا۔ اسرائیلی حکومت میں ایسے عناصر موجود ہیں جو کسی قیمت پر غزہ سے اسرائیلی فوج واپس بلانے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اگرچہ 15 ماہ کی جنگ کے بعد جنگ بند کرنے پر فریقین کی آمادگی کے وفور میں کوئی بھی ابھی ان مشکلات کا ذکر کرنے پر آمادہ نہیں ہے جو غزہ سے اسرائیل کی مکمل واپسی اور غزہ کی تعمیر نو کے منصوبہ پر عمل درآمد کے لیے میں پیش آسکتی ہیں۔
اسرائیل کسی صورت غزہ کا کنٹرول حماس کے حوالے کرنے پر تیار نہیں ہے۔ وہ اسے دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے اور 7 اکتوبر کے حملہ کا ’ گناہ ‘کسی صورت معاف کرنے پر تیار نہیں ہے۔ اس حوالے سے البتہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کا کردار اہم ہوگا۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ مستقل جنگ بندی اور غزہ میں فلسطینیوں کی حفاظت اور پر امن زندگی بحال رکھنے کے لیے سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک اسرائیل کو کیا رعایت اور امریکہ کو کون سے مفادات کی پیش کش کرتے ہیں۔ اسرائیل مستقبل میں غزہ کی سکیورٹی مکمل طور سے اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے۔ دریں اثنا وہ سول انتظام نہ تو حماس کے حوالے کرنے پر آمادہ ہے اور نہ ہی مغربی کنارے پر حکومت کرنے والی فلسطینی اتھارٹی کو یہ انتظام منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اس مشکل کاامریکہ نے یہ حل تجویز کیا ہے کہ عبوری مدت کے لیے ’غیر جانبدار‘ لوگوں پر مشتمل انتظامیہ قائم کردی جائے۔ تاہم ایک تو فلسطینی باشندوں میں اختلاف اور تنازعات کی موجودہ صورت حال میں ’غیر جانبدار‘ یا قابل اعتبار لوگوں کو تلاش کرنا آسان نہیں ہوگا۔ دوسرے اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ جن لوگوں پر اسرائیل اور امریکہ بھروسہ کرتے ہوں، غزہ کے فلسطینی بھی انہیں قابل اعتبار سمجھیں۔
اس پس منظر میں ڈیڑھ دو ماہ بعد تیسرے مرحلے کے وقت پیش آنے والے حالات مشکل مزید پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔ جب تک فریقین یکساں طور سے وسیع تر فراخدلی اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کے ارادے کا اظہار نہیں کرتے ، غزہ کے مستقبل کے بارے میں کوئی قابل عمل انتظام ممکن نہیں ہوگا۔ ایک طرف اسرائیل حماس کو دہشت گرد گروہ قرار دے کر اسے کسی صورت قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے تو دوسری طرف حماس بھی اسرائیل کے وجود کو نہیں مانتی اور اس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دیاجائے۔ تاہم جنگ بندی کے اعلان کے بعد غزہ اور اسرائیل میں جیسے عوام نے خوشی کا اظہار کیا ہے ، اس سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ دونوں طرف کےعوام رواداری اور بقائے باہمی کے اصول کے تحت امن سے رہنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے لیڈر انہیں اس کا موقع دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔
اسی پس منظر میں گزشتہ روز ناروے کی حکومت کے زیر اہتمام دو ریاستی حل کی بنیاد پر فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک عالمی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں 84 ملکوں اور تنظیموں کے نمائیندوں نے شرکت کی۔ فلسطین کے وزیر اعظم محمد مصطفی بھی خاص طور سے شریک ہوئے۔ یہ کانفرنس اس عالمی اشتراک کا تیسرا اجلاس تھا جس کا آغاز ناروے نے ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران سعودی عرب اور یورپئین یونین کے ساتھ مل کر کیا تھا۔ اس گروپ کا کہنا ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازعہ کو مستقل بنیاد پر حل کرنے کے لیے خود مختار فلسطینی ریاست اور قابل اعتبار اور فعال فلسطینی حکومت قائم ہونا بے حد ضروری ہے۔ گزشتہ روز اوسلو میں منعقد ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ناروے کے وزیر خارجہ ایسپن بارتھ آئیدے نے کہا کہ ’ عالمی برادی یقین رکھتی ہے کہ سب کو مل جل کر دو ریاستی حل کو حقیقت بنانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ غزہ میں جنگ بندی کی خبریں تو خوش آئیند ہیں لیکن اس علاقے میں پائیدار امن اور باہمی احترام کی فضا کے لیے خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے۔ اسی لیے ہم نے سب سے گزارش کی ہے کہ اپنے اپنے طور پر وہ سارے قدم اٹھانے چاہئیں جو اس مقصد کا حصول آسان بنا سکیں‘۔
ناروے میں منعقد ہونے والی کانفنرس کے اس پیغام کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے عرب ممالک کو امریکہ کو ساتھ ملانا پڑے گا تاکہ اسرائیل کو دو ریاستی حل تسلیم کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔ بصورت دیگر مشرق وسطیٰ میں جنگ کے جن شعلوں کو بجھانے کی کوشش کی جارہی ہے ، وہ مسلسل سلگتے رہیں گے اور کسی نئے موقع پر پھر ایک نئی تباہی اور جنگ جوئی کا پیش خیمہ ہوں گے۔ موجودہ جنگ7 اکتوبر 2023 اسرائیل پر حماس کے حملے سے شروع ہوئی جس میں تقریباً 1200 اسرائیلی مارے گئے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے باشندوں پر جو قیامت نازل کی اس میں آخری اطلاعات کے مطابق 46788 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ان میں بچوں و خواتین کی اکثریت ہے۔ اس کے علاوہ غزہ کے 25 لاکھ لوگ 15 ماہ سے دربدر ہیں اور غیر انسانی حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
یہ ایک تکلیف دہ اور المناک صورت حال ہے لیکن حقائق سے بے خبر اور انسانوں کو سیاست کا ایندھن سمجھنے والے لیڈر اس کے باوجود اسے اسرائیل کی ’شکست ‘ قرار دینے سے باز نہیں آتے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ بندی پر 17 جنوری بروز جمعہ ملک بھر میں یوم تشکر منانے کا اعلان کیا۔ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ’ اسرائیل 15 مہینوں تک فلسطینیوں کی بدترین نسل کشی کرتا رہا۔ مگر آج اسی حماس سے جنگ بندی کا معاہدہ کرنا پڑا ہے۔ یہ صرف اسرائیل کی نہیں بلکہ امریکا کی بھی شکست ہے‘۔ اس قسم کی بیان بازی اور بے بنیاد دعوؤں کا مقصد درحقیقت زمینی حقائق سے نابلد ہونے ثبوت ہے۔بعض انتہا پسند لیڈر عوامی جذبات کو بھڑکا اپنے انتہاپسندانہ سیاسی اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں ہتھکنڈوں کی وجہ سے غزہ کے مظلوم عوام کو پندرہ ماہ طویل صعوبت سے گزرنا پڑا اور لاتعداد لوگ اس سانحہ میں جان سے گئے۔
( بشکریہ :کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ