انسانوں سے نفرت کے میں قابل ہی نہیں۔ جو افراد کسی نہ کسی وجہ سے ناقابل برداشت ہوجائیں تو ان سے کنارہ کش ہو جاتا ہوں۔ عمران حکومت کے زوال کے بعد مگر ہماری ریاست کے دائمی اور طاقت ور ادارے میں بیٹھے چند سرپرستوں کی مہربانی سے امریکہ پہنچ جانے کے بعد خود کو صوفی پکارتے سلمان احمد نامی مسخرے نے جو رویہ اختیار کررکھا ہے مجھے اشتعال دلاتا رہتا ہے۔ بہت برداشت کر لینے کے بعد میں نے سوشل میڈیا پر اس کی کلاس لینا شروع کر دی۔
ابتداََ اس کے جعلی صوفی پن کا تمسخراڑاتا رہا۔ طنز کا جواب طنز سے دینا مگر اس بے سرے گویے کے بس کی بات نہیں جو دیسی اور ولایتی کے ملاپ سے آدھا تیتر آدھا بٹیر نوعیت کی موسیقی بڑے غلام علی خان مرحوم اور نور جہاں کی دھرتی میں ”جدیدیت“ کے نام پر متعارف کروانے کی ناکام کوشش کرتا رہا ہے۔ اپنی کوتاہی پرواز سے گھبراکر اس نے مجھے ”فوج کا ٹاﺅٹ“ ٹھہرا دیا۔ X پر ایسے پیغامات لکھنا شروع کردیے جس کے ذریعے یہ تاثر دیتے ہوئے مجھے خاموش کروانے کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ لگڑبگا ٹرمپ انتظامیہ میں اہم عہدوں پر فائز ہونے کو نامزد ہوئی شخصیات کے بہت قریب ہے۔
اس ذہنی غلام کو ایمان کی حد تک یقین ہے کہ ٹرمپ 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی حکومت پاکستان کو عمران خان کی رہائی کا حکم دے گا۔ یقینی بات ہے جیل سے رہائی کے بعد وہ بنی گالہ میں گوشہ نشین نہیں ہوجائیں گے۔ روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کے شہر شہر جاکر نئے انتخابات یقینی بنائیں گے۔ قبل از وقت انتخابات کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم کا کم از کم دو تہائی اکثریت سے جیتنا لازمی تصور کیا جا رہا ہے۔ وہ وزیر اعظم ہاﺅس لوٹے تو دو نمبر کا صوفی بھی دھمال ڈالتا پاکستان لوٹ آئے گا۔ اس کے بعد مجھ ایسے لوگوں کو اپنی خیر منانا ہو گی۔
مجھے ٹاﺅٹ پکارنے والے دو نمبر کے صوفی کو محض اتنا یاد دلانا ہی کافی ہے کہ اس کی پیدائش سے قبل ہی میں میٹرک کا طالب علم ہوتے ہوئے فیلڈ مارشل ایوب خان کی آمرانہ حکومت کے خلاف نکالے جلوس کے دوران پولیس کی لاٹھیوں سے مضروب ہوا لاہور کے سول لائنز تھانے میں بند ہوا تھا۔ مختلف حکومتوں کے خلاف احتجاج کی وجہ سے جیلوں میں آنا جانا لگا رہا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کل وقتی صحافی ہوا تب بھی ”آزاد صحافت“ کا مطالبہ اکثر بے روزگاری اور جیلوں کی طرف دھکیل دیتا۔ بات لمبی ہو جائے گی۔ لگڑ بگڑ گویے کو محض اتنا یاد دلانا ہی کافی ہے کہ جب وہ ”سیم پیج“ پر خوشی سے جھومتے ہوئے کولہے مٹکارہا تھا تو میں پہلا ٹی وی اینکر تھا جسے اگست 2018ء میں برسراقتدار آئی حکومت نے بے روزگاری کے تندور میں پھینکا تھا۔ اس سے قبل یہ سانحہ جنرل مشرف کے ہاتھوں بھی بھگتا ہے۔ لگڑبگا نوزائیدہ انقلابی ٹرمپ کی مہربانی سے دوبارہ وطن لوٹا تو اس کی جانب سے طے ہوئی ہر سزا کے لئے کاملاً تیار رہوں گا۔ راحت اور مستقل نوکری مجھے ویسے بھی راس نہیں آتی۔ ایک بار اور سہی کی خواہش مچلتی رہتی ہے۔
بہرحال موصوف جب ٹرمپ کے فراہم کردہ اڑن کھٹولے میں بیٹھ کر وطن لوٹیں گے تب دیکھا جائے گا۔ فی الوقت میں پریشان ہوں تو صرف اس وجہ سے کہ دونمبر کا صوفی محض ایک فرد نہیں رہا۔ بیمار ذہن کی علامت بن گیا ہے اور بدقسمتی سے امریکہ میں مقیم ہمارے کئی پاکستانی ”انقلابی“ اس بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں۔جو بیماری انہیں لاحق ہے مقصد اس کا پاکستان میں جمہوریت کی بحالی نہیں۔ کہنے کو وہ عمران خان کو پاکستان کے وزیر اعظم کے منصب پر واپس آنادیکھنا چاہ رہے ہیں۔ اپنی خواہش کے حصول کے لئے مگر وہ ایسی زبان اور رویہ اختیار کررہے ہیں جو اِس یا اس حکومت پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ ریاست پاکستان کو مسلسل تضحیک کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔
پاکستان کی تضحیک کا آغاز دو نمبر کے صوفی کے ہاتھوں رچرڈ گرنیل کی نامزدگی سے ہوا۔ ٹرمپ نے اسے خصوصی مشیر مقرر کرتے ہوئے وینزویلا اور شمالی کوریا کا خصوصی ذکر کیا۔ امریکہ میں مقیم نوزائیدہ انقلابیوں نے مگر تاثر یہ پھیلانا چاہا کہ رچرڈ کو جیسے عمران خان صاحب کی رہائی یقینی بنانے کے لئے ٹرمپ نے خصوصی سفیر تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں نے جب اس بچگانہ امید پر سوالات اٹھائے تو اس ضمن میں میرے لکھے اور ٹی وی سکرینوں پر کہے الفاظ کو توڑ موڑ کر سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا اور میری شکایت کو ”اصل تھانے دار“ تک پہنچانے کے لئے رچرڈ گرنیل کو بھی ان پیغامات میں ٹیگ کیا۔ رچرڈ گرنیل کو میرے خلاف بھڑکانے کی احمقانہ کوششوں میں مصروف افراد امریکی نظام سے قطعی نابلد محسوس ہوئے۔ ان کے بچگانہ پن کا مذاق ہی اڑایا جا سکتا ہے۔
مذاق کی بھی مگر حد ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے لگڑ بگڑ گویے نے زلمے خلیل زاد کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک تصویر کھچوائی ہے۔ زلمے خلیل زاد افغان نژاد ہے۔ وظیفے پر امریکہ پڑھنے گیا تھا۔ وہاں پہنچنے کے بعد امریکی ہوگیا۔ تیز آدمی ہے۔ ایوان ہائے اقتدار میں اپنے لئے جگہیں بنانے میں اکثر کامیاب رہتا ہے۔ نائن الیون کے بعد یہ شخص اپنے ہی آبائی ملک میں امریکہ کا سفیر بن کر نازل ہوا اور وہاں سے ناکام و نامراد لوٹا۔ بعدازاں عراق میں بھی وہ کوئی جلوہ دکھانے میں بری طرح ناکام رہا۔ اس کی ناکامیوں کی واضح تاریخ کے باوجود ٹرمپ نے سابقہ عہد صدارت میں اسے افغانستان کے لئے اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کر دیا۔ اس کی کاوشوں سے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا۔ بالآخر امریکہ کی افغانستان سے افواج نکالنے کا معاہدہ ہو گیا۔ مذکورہ معاہدے پر عمل درآمد مگر بائیڈن کے دور صدارت میں ہوا۔ جس انداز میں افواج کا انخلا ہوا وہ امریکہ کے لئے نہایت شرمندگی کا سبب ہے۔
زلمے خلیل زاد بے تحاشہ ٹھوس وجوہات کی وجہ سے پاکستان دشمن ہے۔ اپنی مخاصمت کو وہ تواتر سے سوشل میڈیا پر بھی عیاں کرتا رہتا ہے۔ اس کی پاکستان دشمنی کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھی دونمبر کے صوفی نے زلمے خلیل زاد کے ساتھ اپنی تصویر لگاتے ہوئے یہ بڑھک لگائی کہ اسے نو منتخب صدر پاکستان میں امریکہ کا سفیر تعینات کر دے تو پاکستان اپنی اوقات میں آ جائے گا۔ پاکستان کو اوقات میں رکھنے کی اس خواہش نے مجھے مشتعل بنا دیا ہے۔ میں ایسے کسی ”انقلابی“ کے ساتھ ”مہذب زبان“استعمال کرنے کو اب ہرگز رضا مند نہیں ہوں گا جو نفسیاتی مریضوں کی طرح عمران خان صاحب سے جنونی محبت کا ڈرامہ لگاتے ہوئے میرے ملک اور زمین کی تذلیل کا مرتکب ہو گا۔
(بشکریہ نوائے وقت)