کوئی بھی ملک جہاں جمہوری پارلیمانی نظام ہووہاں پارلیمنٹ سب سے اعلیٰ ادارہ ہوتاہے۔اورکسی بھی ملک میں جمہوریت کے پنپنے میں پارلیمنٹ کی برتری کو بحال رکھنا اشد ضروری ہے۔سیاست دانوں کو پارٹی اختلافات یا پسند ناپسند کی بنیاد پر کسی پارلیمنٹیرین پر تنقید کرنے کاحق حاصل ہے لیکن کوئی بھی جمہوری سوچ رکھنے والا سیاستدان پارلیمنٹ کو ادارہ کی حیثیت سے برا بھلا نہیں کہتا بلکہ سمجھدار سیاستدان تو پارلیمنٹیرین کوبھی برابھلا نہیں کہتے کیونکہ وہ اپنے حلقے کے لوگوں کی پسند ہوتا ہے ۔اورپارلیمنٹ میں لاکھوں لوگوں کی نمائندگی کررہا ہوتا ہے۔پارٹی پالیسی کی بناءپر کسی بھی سیاستدان کوکسی بھی پارلیمنٹرین سے اختلاف کرنے کاحق توحاصل ہے لیکن سیاسی اختلافات سے ہٹ کر کسی کوبرابھلا کہنا لاکھوں لوگوں کے ترجمان کو بے عزت کرنا دراصل اس حلقے کے عوام کا مذاق اڑانا کے مترادف ہوگا۔سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے ملزمان کو سزا دینے کامطالبہ جواب وزیراعلی پنجاب میاں شہبازشریف اور وزیر قانون رانا ثناءاللہ کے مستعفی ہونے کے مطالبے تک جاپہنچا ہے۔اس مطالبے کی منظوری کے لیے مال روڈ پر تین بڑی سیاسی جماعتوں سمیت 24سیاسی جماعتوں نے مشترکہ طورپر احتجاجی دھرنادیا۔دھرنے کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے ہوئے پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ۔شیخ رشید کے اعلان پر ملک کے سیاسی و سماجی حلقوں نے قطعاً برانہیں منایا کیونکہ خالی برتن زیادہ شورکرتا ہے۔فردواحد کی پارٹی ہے۔دوسرے لفظوں میں ”ٹانگہ پارٹی“کاسربراہ جسے پارلیمنٹ میں سپیکر بولنے کی اجازت نہیں دیتا اور پارلیمنٹ میں حکومتی ارکان کی توپوں کے منہ بھی ”ٹانگہ پارٹی“کے سربراہ کی طرف ہیں ان حالات میں انہیں چند ماہ پہلے پارلیمنٹ کی رکنیت سے مستعفی ہوجانا چاہیےتھا ۔ویسے بھی ہرسیاستدان کوجی ایچ کیو کے گیٹ نمبر 4کی پیداوار کہنے والے دراصل خود جی ایچ کیوکے گیٹ نمبر4کی پیداوارہیں۔اگرجی ایچ کیووالے ان کی حمایت نہ کریں تو الیکشن میں ان کی کامیابی بھی ناممکن ہوجاتی ہے۔وہ مسلم لیگ(ن)کے دور اقتدارمیں اس کاحصہ رہے۔اور ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے آتے ہی گیٹ نمبر4کی ہدایت پر مشرف کی کابینہ کاحصہ بنے۔اورپھرمشرف دور کے خاتمہ کے بعد مسلم لیگ(ن) کی ٹکٹ کے لیے سرگرداں رہے۔اورٹکٹ نہ ملنے پر انہوں نے ” بدکارعورت “ کاروپ دھار لیا ۔اس لیے ان سے کچھ بعید نہ تھا۔
لیکن تحریک ا نصاف کے سربراہ عمران خان تعلیم یافتہ ہیں ۔دنیا بھر میں کرکٹ کھیلے اور آل راﺅنڈر کے طورپر نام پیدا کیا۔پھراپنے ملک کی کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ جیت کردیا۔ملک بھر میں ان کے کروڑوں پرستار ہیں۔نوجوان نسل ان کی گرویدہ ہے۔ان کی طرف سے پارلیمنٹ جیسے ملک کے اعلی ادارے پر لعنت بھیجنا ( اور وہ بھی تین بار ) سمجھ سے بالاتر ہے۔وہ نوجوان نسل کے رول ماڈل ہیں۔ہمیشہ بیرون ملک جمہوریت کے حوالے دیتے ہیں اور مثالیں دیتے ہیں کہ قائد حزب اقتدار پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتا ہے لیکن شاید اس لیے جواب دہ ہوتا ہے کہ ہر پارلیمنٹرین پارلیمنٹ کی بطور اعلی ادارہ عزت کرتا ہے۔وہاں کی پارلیمنٹ لعنتی نہیں ہے۔جب عمران خان اپنی پارلیمنٹ کو لعنتی قراردیں گے تو لعنتی کے آگے کون جواب دہ ہوگا۔پہلے بھی عمران خان نے ماہانہ کی بنیاد پر دیئے گئے دھرنے میں پارلیمنٹرین کو چور ڈاکو کیا۔اورمستعفی ہونے کااعلان کیا۔لیکن پھر چورڈاکوﺅں کے ساتھ جابیٹھے۔چوری اورڈاکے میں ملنے والے مال میں حصہ بھی وصول کرلیا بلکہ صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا۔جب تحریک انصاف کے سربراہ کے مطابق پارلیمنٹ میں بیٹھے چور ڈاکوﺅں نے قوم کے خزانہ پر مزید ڈاکہ ڈالنا چاہا۔اور چوری ڈکیتی کی رقم میں اضافہ کافیصلہ کیا توتحریک انصاف نے انہی چور ڈاکوﺅں کی مکمل حمایت کی۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان یاد رکھیں کہ عوام نے ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن)کی کرپشن سے تنگ آکر تیسرے آپشن کے طورپر آپ کی گرویدہ ہوئی ۔اور یہ بھی یادرکھیں کہ سیاستدان اور کسی سیاسی جماعت کاسربراہ خصوصاً خطاب کے دوران جوکہتا ہے ۔پارٹی کے کارکنوں کواس کادفاع کرناپڑتا ہے۔اورجب سیاسی جماعت کاسربراہ پارلیمنٹ پر لعنت بھیجے تو پارٹی کے کارکنان کس طرح اپنی جماعت کے سربراہ کا دفاع کریں جبکہ چند ماہ بعد انہی کارکنوں نے عوام سے پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے ووٹ مانگنا ہے۔پارٹی کے کارکنوں کوعوام کاسامنا کرنا ہے۔آپ تو سکیورٹی کے حصار میں عوام کو جواب دہ نہیں ہیں۔لیکن آپ کے جوش خطابت نے تمام کارکنوں کو شرمندہ کردیا ہے ۔عوام کو جواب تو دے رہے ہیں لیکن شرمندہ شرمندہ ۔کیونکہ آسیب زدہ گھر میں پھرآپ کو جانا ہے اورآپ کوآسیب زدہ گھرپہنچانے کے لیے پارٹی کارکنوں نے عوام کاسامنا کرنا ہے۔اورشاید اس بار ”لعنتی“لوگوں کی سربراہی کی ذمہ داری آپ کے نحیف کندھوں پر ہو۔
لیکن تحریک ا نصاف کے سربراہ عمران خان تعلیم یافتہ ہیں ۔دنیا بھر میں کرکٹ کھیلے اور آل راﺅنڈر کے طورپر نام پیدا کیا۔پھراپنے ملک کی کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ جیت کردیا۔ملک بھر میں ان کے کروڑوں پرستار ہیں۔نوجوان نسل ان کی گرویدہ ہے۔ان کی طرف سے پارلیمنٹ جیسے ملک کے اعلی ادارے پر لعنت بھیجنا ( اور وہ بھی تین بار ) سمجھ سے بالاتر ہے۔وہ نوجوان نسل کے رول ماڈل ہیں۔ہمیشہ بیرون ملک جمہوریت کے حوالے دیتے ہیں اور مثالیں دیتے ہیں کہ قائد حزب اقتدار پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتا ہے لیکن شاید اس لیے جواب دہ ہوتا ہے کہ ہر پارلیمنٹرین پارلیمنٹ کی بطور اعلی ادارہ عزت کرتا ہے۔وہاں کی پارلیمنٹ لعنتی نہیں ہے۔جب عمران خان اپنی پارلیمنٹ کو لعنتی قراردیں گے تو لعنتی کے آگے کون جواب دہ ہوگا۔پہلے بھی عمران خان نے ماہانہ کی بنیاد پر دیئے گئے دھرنے میں پارلیمنٹرین کو چور ڈاکو کیا۔اورمستعفی ہونے کااعلان کیا۔لیکن پھر چورڈاکوﺅں کے ساتھ جابیٹھے۔چوری اورڈاکے میں ملنے والے مال میں حصہ بھی وصول کرلیا بلکہ صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا۔جب تحریک انصاف کے سربراہ کے مطابق پارلیمنٹ میں بیٹھے چور ڈاکوﺅں نے قوم کے خزانہ پر مزید ڈاکہ ڈالنا چاہا۔اور چوری ڈکیتی کی رقم میں اضافہ کافیصلہ کیا توتحریک انصاف نے انہی چور ڈاکوﺅں کی مکمل حمایت کی۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان یاد رکھیں کہ عوام نے ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن)کی کرپشن سے تنگ آکر تیسرے آپشن کے طورپر آپ کی گرویدہ ہوئی ۔اور یہ بھی یادرکھیں کہ سیاستدان اور کسی سیاسی جماعت کاسربراہ خصوصاً خطاب کے دوران جوکہتا ہے ۔پارٹی کے کارکنوں کواس کادفاع کرناپڑتا ہے۔اورجب سیاسی جماعت کاسربراہ پارلیمنٹ پر لعنت بھیجے تو پارٹی کے کارکنان کس طرح اپنی جماعت کے سربراہ کا دفاع کریں جبکہ چند ماہ بعد انہی کارکنوں نے عوام سے پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے ووٹ مانگنا ہے۔پارٹی کے کارکنوں کوعوام کاسامنا کرنا ہے۔آپ تو سکیورٹی کے حصار میں عوام کو جواب دہ نہیں ہیں۔لیکن آپ کے جوش خطابت نے تمام کارکنوں کو شرمندہ کردیا ہے ۔عوام کو جواب تو دے رہے ہیں لیکن شرمندہ شرمندہ ۔کیونکہ آسیب زدہ گھر میں پھرآپ کو جانا ہے اورآپ کوآسیب زدہ گھرپہنچانے کے لیے پارٹی کارکنوں نے عوام کاسامنا کرنا ہے۔اورشاید اس بار ”لعنتی“لوگوں کی سربراہی کی ذمہ داری آپ کے نحیف کندھوں پر ہو۔
فیس بک کمینٹ