چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کراچی میں نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نہایت درد مندی سے بجا طور پر ہمارے نظام انصاف کی بے عملی اور بے چارگی کی وجوہات بیان کی ہیں جن میں سر ِ فہرست متعلقہ قوانین کا از کار رفتہ ہونا ہے۔ ہمارے ہاں فوجداری داد رسی اور جرائم سے نمٹنے کے لیے دو بنیادی قوانین ہیں یعنی مجموعہ تعزیرات ِ پاکستان اور قانون ِ شہادت آرڈر۔ اِن میں سے مجموعہ تعزیرات پاکستان آج سے 158برس قبل 1860ءمیں بنایا گیا تھا جب کہ قانون شہادت(Evidence Act) 1872ءمیں وجود میں آیا۔اگرچہ جنرل ضیاءالحق کے دور میں Evidence Act کوقانون شہادت آرڈر 1984ءکے نام سے مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کی گئی مگر مجموعی طور پر یہ صرف مختلف دفعات کی ترتیب بدلنے کی حد تک ہی تھی۔ اسی طرح ہماراضابطہ کار جس کی رو سے فوجداری نظام ِ انصاف ایف آئی آر کے درج ہونے سے مجرم کے سزایاب ہونے تک عمل میں لایا جاتا ہے ”مجموعہ ضابطہ فوجداری“ (The Code of Criminal Procedure) کہلاتا ہے جو کہ آج سے 120سال قبل 1898ءمیں ترتیب دیا گیا تھا۔
ہماری پولیس 2002ءتک پولیس ایکٹ 1861ءکے تحت کام کرتی رہی کہ جس کے لیے مفصل ضابطہ ءکار پولیس رولز 1934ءمیں میہا کیا گیا تھامگر اِس کاافسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بظاہر نیا قانون بنائے جانے کے باوجود نہ تو پولیس آرڈر 2002ءمیں کوئی بنیادی تبدیلی لا جا سکی اور نہ ہی اِس کے تحت نئے رولز بنائے جا سکے کہ جو بدنام ترین تھانہ کلچر کو تبدیل کر پاتے۔عجب تماشہ ایک اور بھی ہے کہ 2002ءمیں بنائے جانے والے پولیس آرڈر کو بھی ابھی تک پولیس رولز 1934ءکے تحت چلایا جا رہا ہے۔اگر یہی سب کچھ ہے تو یہ سمجھ لینے میں کوئی حرج نہیں کہ آزادی کے ستر برس بعد بھی ہماری پولیس کا نظام انگریز کے ظالمانہ نو آبادیاتی تسلط کا پرتو ہے اور عوام دوست ہونے کی بجائے محض ظلم اور عوام دشمنی کو بڑھاوا دیے جا رہا ہے۔
ہماری مقننہ، بیوروکریسی اور حکمران ہمارے نظام ِ انصاف کو وقت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ موثر بنانے کے لیے کس قدر سنجیدہ ہیں اِس کا اندازہ میری ےاداشت میں محفوظ کچھ واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔ 2002ءمیں میری تعیناتی حکومت ِ پنجاب کے محکمہ قانون میں بطور ایڈیشنل سیکریٹری کے تھی۔اُن دنوں جنرل مشرف کی عملداری میں صوبہ پنجاب کی حکومت لیفٹینیٹ جنرل خالد مقبول کے پاس تھی کہ جو ایک طویل عرصے تک یہاں کے گورنر رہے۔ امور حکومت نمٹانے کے سلسلے میں جنرل خالد مقبول کے ہاں دن رات کا تصور ناپید تھا۔خاموش منتظم اور درد مندانسان ہونے کے ناتے وہ اپنے کار ہائے حکومت کا چرچا نہیں کیا کرتے تھے بس کام سے کام رکھتے۔مجھے یاد ہے کہ دن بھر مختلف جھمیلوں میں پھنسے رہنے کے بعد وہ حساس نوعیت کی میٹنگز رات گئے بلایا کرتے تھے۔ایک ایسی میٹنگ کا بلاوہ رات گیارہ بجے کا تھا کہ جس میں انسداد ِ دہشت گردی کی عدالتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جانا تھا۔میٹنگ میں میرے علاوہ اُس وقت کے سیکریٹری ہوم برگیڈیئر اعجاز شاہ ، ایڈوکیٹ جنرل مقبول الٰہی ملک ، آئی جی پنجاب آصف حیات اور پراسیکیوٹر جنرل اصغر علی گل موجود تھے۔انسداد ِ دہشت گردی کی عدالتوں کے فیصلوں میں تاخیر اور بریت کے زیادہ تناسب پر استفسار ہوا تو سیکریٹری ہوم نے جھٹ سے کہا کہ جج نکمے ہیں۔کوئی ایسا طریقہ ہو کہ جو جج بری کارکردگی دکھائے اُسے لٹکا دینا چاہئے۔سیکریٹری موصوف کی اِس تجویز پر میٹنگ میں سناٹا چھا گیا۔میں نے گورنر صاحب سے پوچھا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ تاخیر کے عرصہ کا کس تاریخ سے تعین کرتا ہے، آیا کہ جس روز ایف آئی آر درج ہوئی یا جس روز عدالت میں چالان پیش ہوا۔معلوم ہوا کہ محکمہ مذکور نے فیصلوں میں تاخیر کے عرصے کا تعین ایف آئی آر کے اندراج کی تاریخ سے کر رکھا تھا جب کہ حقیقت یہ تھی کہ چالان ایف آئی آر درج ہونے کے کئی کئی سال بعد عدالتوں میں بھجوائے گئے تھے۔مجھے حیرت ہوئی کہ میٹنگ میں موجود کوئی بھی شخص گورنر کو یہ بتانے کی زحمت ہی نہیں کر رہا تھا کہ عدالتوں کا کام چالان پیش ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے ناکہ اُس سے پہلے۔ اُس سے پہلے جو بھی کچھ کرنا ہوتا ہے وہ پولیس کے تفتیش کاروں نے کرنا ہوتا ہے۔
”لیکن عدالتوں میں بھی تو کام نہیں ہوتا“۔گورنر صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے تو میں نے صاف صاف کہا کہ یہ محض ایک غیر حقیقی تاثر ہے۔ کوئی بھی جج از خود پیشی نہیں ڈالتا۔ پیشی ملنے کی دو وجوہات ہیں۔ اول قانونی ضابطہ کار کہ جس میں ہر ایک کاروائی کے بعد دوسری کاروائی کے لیے التواکی گنجائش رکھی گئی ہے اور ثانیاً فریقین یا اُن کے وکلا کی جانب سے مہلت کی استدعا۔”مگر یہ ضابطہ کار کے مسائل کیا ہیں“۔میں نے ایک بار پھر گوش گزار کیا کہ ہم نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کئی خصوصی قوانین بنا رکھے ہیں جن میں ایک یہی قانون انسداد دہشت گردی کابھی ہے کہ جسے اگرچہ 1997ءمیں بنایا گیا مگر اِس خصوصی قانون کے لیے عدالتی ضابطہ کار ”ضابطہ فوجداری 1898ء“ کاہی رہنے دیا گیا۔میں نے مزید کہا کہ اگر آپ آج کے دور کی سی ڈی کو پرانے گراموفون پر چلانے کی کوشش کریں گے تو نتیجہ یہی نکلے گا جو آپ کے سامنے ہے۔ خصوصی قوانین کے اطلاق کے لیے عدالتی ضابطہ کار بھی خصوصی ہونا چاہئے، عمومی نہیں۔
میری اس گفتگو کے بعد ضابطہ فوجداری میں ترامیم تجویز کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنا دی گئی کہ جس کی سربراہی اُس وقت کے ایڈووکیٹ جنرل کو سونپی گئی۔مگر اِس کمیٹی کا حشر کیا ہوا ، وہی ہوا جو اب تک وطن عزیز میں ہوتا آیا ہے کہ ایک اجلاس بھی نہ ہوا اور سربراہ سمیت سبھی ممبر تبادلوں کی صورت تتر بتر ہو گئے۔انہی دنوں محکمہ صحت کے سیکریٹری حسن وسیم افضل کے ہاں میٹنگ میں بطور ایڈیشنل سیکریٹری قانون سازی جانے کا اتفاق ہوا کہ جس میں کہیں حادثے کی صورت کسی ایک ہسپتال کی بجائے ایک سے زیادہ ہسپتالوں کو میڈیکولیگل کا اختیار دینے کا معاملہ زیر بحث آنا تھا تاکہ قانونی معاملات کو سادہ کرتے ہوئے زندگیاں بچانے کو اوّلیت دی جا سکے مگر میٹنگ کے دوران اُس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ ہمارے ہاں کے متعلقہ قوانین میں اُس وقت تک سرجن جنرل کے دفتر کا پتہ کلکتہ بھارت (موجودہ کول کتہ) لکھا ہوا تھا اور اُسے تبدیل کرنے کی زحمت ہی نہ کی گئی تھی۔
پولیس کی ناقص کارکردگی میں تھانہ کلچر کا کردار ضرور رہا ہوگا مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے تفتیشی پولیس افسروں کی ذہنی اور تعلیمی استعداد کیا ہے۔ ضلع بھکر میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے طور پر تعیناتی کے دوران وہاں کے ایک ذہین ڈی پی او رائے اعجازنے ہر رینک کے تفتیشی افسروں کی DNA کے نمونہ جات لینے کے بارے میں تربیت کے لیے دو روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا جہاں مجھے تقسیم اسناد کے لیے بطور مہمان ِ خصوصی مدعو کیا گیا۔اپنی گفتگو میں جب میں نے اے ایس آئی سے ڈی ایس پی سطح کے تفتیشی افسروں سے سوال کیا کہ DNA کس چیز کا اختصاریہ ہے اور یہ کہاں پایا جاتا ہے تو ورکشاپ کے سبھی شرکا ءنے چُپ سادھ لی۔ یعنی دو دن کی مشقت کے بعد بھی نہیں معلوم کہ زلیخا مرد تھی کہ عورت۔ مجھے یہ سبھی واقعات قصور میں ننھی بچی زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کی تفتیشی رودادسُن سُن کر یاد آ رہے ہیں کہ جہاں فوٹیج میں موجو د شخص سے مشابہت رکھنے والے اشخاص کو بھی محض اِس لیے رہا کیا جاتا رہا ہے کہ اُن کے DNAکے نمونہ جات اصل مجرم کے DNA سے مماثلت نہیں رکھتے ۔حیرت ہے کہ سبھی تفتیشی یہی یقین کئے بیٹھے ہیں کہ بچی کے ساتھ دکھائی دینے والا شخص ہی اصل مجرم ہے۔وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ یہ شخص اصل مجرم کا محض آلہ کار بھی ہو سکتا ہے۔اگر ایسا ہے تو اِس شکل کے شخص کا اصل مجرم کے ساتھ DNAکیسے مماثلت رکھتا ہو گا۔یہ کیسا نظام انصاف ہے کہ جہاں کے قوانین ابھی تک اُس دور کے چلے آ رہے ہیں کہ جب بیل گاڑی ، فیملی کی سواری اور تیل سے جلنے والے چراغ سے گھر روشن کئے جاتے تھے مگر اِس کے باوجودپھر بھی باتیں کی جاتی ہیں ڈرامائی تفتیش اور DNAکی۔
فیس بک کمینٹ