پنجاب حکومت کی جانب سے لاہور اور ملتان جیسے بڑے اور اہم شہروں میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کا فیصلہ ایک طرف تو سموگ کی کمی کے لیے اٹھایا گیا قدم نظر آ رہا ہے، مگر دوسری طرف یہ فیصلہ شہریوں اور خاص طور پر کاروباری افراد اور دیہاڑی دار طبقے کے لیے ایک بڑی آزمائش بن چکا ہے۔ "گرین لاک ڈاؤن” کا مقصد اگرچہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنا تھا، لیکن اس کا نتیجہ کچھ اور نکلا ہے۔ حکومت کی جانب سے رات 8 بجے تمام کاروباری مراکز کو بند کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں، جس سے نہ صرف کاروبار کی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں، بلکہ دیہاڑی دار طبقہ، جو پہلے ہی اقتصادی مشکلات کا شکار ہے، مزید پریشانی کا سامنا کر رہا ہے۔
پنجاب حکومت کے اس لاک ڈاؤن کے فیصلے کا بنیادی مقصد سموگ کو کم کرنا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ عام شہریوں اور کاروباری افراد کے لیے ایک اضافی بوجھ بن گیا ہے۔ جب حکومت نے رات 8 بجے تک تمام کاروباری مراکز بند کرنے کا حکم دیا، تو اس کے نتیجے میں کاروبار کی سرگرمیاں تقریباً معطل ہوگئیں۔ سموگ کے خاتمے کی کوئی حتمی ضمانت تو نہیں، لیکن اس لاک ڈاؤن کے سبب شہریوں کی زندگی ضرور پیچیدہ ہو گئی ہے۔
مخصوص کاروباری طبقے کی بات کی جائے تو وہ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ زیادہ تر چھوٹے کاروبار جنہیں دن کی زیادہ تر آمدنی شام اور رات کے اوقات سے ملتی ہے، وہ اس لاک ڈاؤن سے مکمل طور پر متاثر ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر ریسٹورنٹس، مارکیٹس، شاپنگ سنٹرز اور دیگر کاروباری مراکز کے مالکان اور ملازمین کو اس پابندی کے باعث اپنی روزمرہ کی کمائی میں کمی کا سامنا ہے۔ یہ حالات اس طبقے کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں جو پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر اقتصادی مسائل سے دوچار ہیں۔
اگر ایک شخص کاروبار شروع کرتا ہے، خاص طور پر ایک ریسٹورنٹ قائم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو اس کے لیے یہ آسان نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے وہ مناسب جگہ کی تلاش کرتا ہے اور کرایہ پر لے کر اس کی تزئین و آرائش پر بھاری اخراجات کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ مختلف محکموں سے ضروری لائسنس حاصل کرتا ہے جیسے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی، پنجاب ریونیو اتھارٹی، ایف بی آر وغیرہ۔ ان تمام مراحل میں وقت اور سرمایہ دونوں لگتے ہیں۔ ایک ریسٹورنٹ کی کامیابی کے لیے اسے بہت ساری انتظامی کارروائیوں، ملازمین کی خدمات، اور جدید ترین معیار پر عمل کرنا پڑتا ہے۔اس کے باوجود، جب کاروبار چل پڑتا ہے اور اسے صحیح سمت میں چلانے کی کوشش کی جاتی ہے، تو ضلعی انتظامیہ اور دیگر حکومتی ادارے کاروباری افراد کو بلاوجہ تنگ کرتے ہیں، ان کے مراکز کو سیل کر کے اور غیر ضروری اعتراضات لگا کر انہیں ہراساں کرتے ہیں۔ یہ صورتحال کاروباری افراد کے لیے انتہائی پریشان کن ہے اور ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ، جب کاروباری افراد اپنے کاروبار کو قانونی طور پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں حکومتی اداروں کی طرف سے بے جا مداخلت اور بوجھ کا سامنا ہوتا ہے۔
پاکستان میں جاری مہنگائی کی صورتحال اور بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمتوں نے پہلے ہی عوام اور کاروباری افراد کی زندگی مشکل بنا دی ہے۔ حکومت کی جانب سے اضافی ٹیکس، بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمتیں اور مہنگائی کے اثرات عوام کی قوت خرید پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔ ایک طرف حکومت کاروباری مراکز کو بند کرنے کی ہدایات دے رہی ہے، دوسری طرف ان کاروباروں کے مالکان مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے ہیں۔
اس وقت جب کاروباری افراد پہلے ہی معاشی بدحالی اور حکومتی پالیسیوں کی پیچیدگیوں سے پریشان ہیں، ایسے میں لاک ڈاؤن جیسے اقدامات ان کے لیے ایک اضافی بوجھ بن جاتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اس قسم کی پالیسیوں کا نفاذ کاروباری اعتماد کو مزید متاثر کرتا ہے اور ملک میں کاروبار کرنا ایک مشکل تر عمل بنادیتا ہے۔
پاکستان کی معیشت اس وقت ایک سنگین بحران سے گزر رہی ہے۔ سرمایہ دار بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ حکومت کی پالیسیوں میں مسلسل تبدیلی، بیوروکریسی کی پیچیدگیاں اور سرمایہ کاری کے لیے غیر محفوظ ماحول انہیں پاکستان میں اپنے پیسے لگانے سے روک رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام نے کاروباری اعتماد کو بری طرح متاثر کیا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔موجودہ معاشی حالات میں حکومت کی جانب سے ایسی پالیسیاں اختیار کرنا جو کاروباری افراد کی مشکلات میں اضافہ کریں، ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ "گرین لاک ڈاؤن” جیسے اقدامات نہ صرف سموگ کی کمی کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں، بلکہ ان سے کاروباری طبقے میں عدم استحکام اور بے چینی کا ماحول بھی پیدا ہو رہا ہے۔
حکومت نے گزشتہ سال 17 جون کو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کے قیام کا اعلان کیا تھا تاکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جا سکے اور معیشت میں بہتری لائی جا سکے۔ تاہم، ایک سال کے عرصے میں اس کونسل سے حاصل ہونے والے فوائد انتہائی محدود ہیں۔ معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق، ایس آئی ایف سی کی مدد سے آئی ٹی برآمدات میں اضافہ تو ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود بیرونی سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا ہے۔
بیرونی سرمایہ کاروں کی جانب سے اب تک کوئی بڑی سرمایہ کاری نہیں آئی، جس کا ایک بڑا سبب پاکستان میں سیاسی استحکام کا فقدان، معاشی پالیسیوں کی غیر تسلسل اور امن و امان کی صورتحال ہے۔ حکومت اگر واقعی بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھنا چاہتی ہے تو اسے معاشی پالیسیوں میں استحکام، سیاسی و معاشی ماحول میں بہتری، اور کاروباری افراد کو مکمل تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔پنجاب حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اس "گرین لاک ڈاؤن” جیسے اقدامات دراصل نہ صرف ماحولیاتی مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام ہیں، بلکہ ان کا اثر کاروباری طبقے، خاص طور پر چھوٹے کاروباروں اور دیہاڑی دار افراد پر انتہائی منفی پڑ رہا ہے۔ اس صورتحال میں حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ معاشی استحکام حاصل کیا جا سکے اور کاروبار کا ماحول دوستانہ بن سکے۔ کاروباری افراد اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنا، حکومتی اقدامات کو کاروبار دوست بنانا اور ملک میں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ پاکستان کی معیشت ترقی کر سکے۔
فیس بک کمینٹ