سابق امریکی صدر باراک حسین اوبامہ موجودہ دنیا کی طاقت ور ترین صدارت کی دوسری مدت پوری کر کے رخصت ہونے کو تھے ۔یہ وہ ایام تھے کہ جب کوئی بھی گوشت پوست کا بنا ہوا انسان اپنی رگوں میں بہنے والے لہو کی ہنگامہ پروری سے مغلوب ہو کراپنے آپ کو مذلت کی اُس کھائی میں دھکیلنے کو تیار ہو جاتا ہے کہ جس کے بعد پوری زندگی کی کمائی ہوئی ناموری کی جگہ تاریخ کی کتابوں میں محض چند بدبودار صفحات باقی رہ جاتے ہیں۔انہیں دنوں امریکی اشرافیہ کی ایک مجلس میں الوداعی گفتگو کرتے ہوئے اوبامہ صاحب نے امریکی قوم کے عروج اور اُن کی معاشرت میں پنہاں اعلیٰ اوصاف کو اس طرح چند جملوں میں سمیٹا کہ دنیا پر حکمرانی کرنے والی اِس قوم کی مکمل ذہنی بُنت اپنے قدیم تاریخی تناظر میں تاریخ نو کا حصہ بن گئی۔ امریکہ میں آئین کی پاسداری کی فلاسفی بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ کرسی صدارت چھوڑ کر جارہے ہیں مگر امریکہ یونہی رہے گا۔صدارت کی جو مدت انہیں امریکی آئین نے عطا کی انہوں نے اُس کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض پوری دیانت سے انجام دیے۔انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں کہ وہ اِس آئین کو اپنے مفادات کے حق میں بدل دیں گے یا کبھی اِس عہدے سے چمٹے رہنے کی خواہش یا سازش کریں گے۔ آئین عوام کی امانت ہوتا ہے کہ جسے عوامی فلاح اور ریاستی اداروں کی بقا کے لیے بنایا یا ترمیم کیا جاتا ہے نہ کہ کسی مخصوص شخص کی مہم جوئی یا عدالتوں کا منہ چڑانے کے لیے اُسے من چاہے انداز میں رسوا کر کے رکھ دیا جائے۔ اقتدار انہیں امریکی عوام نے آئین کے تحت سونپا تھا اور وہ اسے آئین کی روح کے مطابق چھوڑ کر جارہے ہیں تاکہ باقی زندگی اپنی منشاسے اپنی فیملی کے ساتھ گذار سکیں ۔
اِس کے برعکس بحیثیت قوم اگر ہماری تنزلی، تحقیر اور تضحیک کے پس منظر میں دیکھا جائے تو احوال اِس کے معکوس دکھائی دے گا۔ہمارے ہاں آئین اورقانون بنائے ہی اِسی لیے جاتے رہے ہیں کہ کسی مخصوص مہم جو شخص کو کرسی سے سے چمٹے رہنے میں آسانی رہے۔ہمارے جینز (Genes)ہمیشہ سے اِس جبلت کے متقاضی رہے ہیں کہ کوئی تلوار بدست مقتدرہماری نسلوں کے کشتوں کے پشتے لگاتا ہوا کسی ’’فتوے‘‘ کی مانند ہم پر نازل ہو، لوٹ مار کرے، ہماری بوٹیاں نوچے اور تمام ملکی وسائل سے دستیاب مال وزر ’’مالِ غنیمت‘‘ سمجھ کر ’’اغیار‘‘ کے دفینوں میں سنبھال رکھے اور ایسے میں اگر کوئی پوچھ بھی لے کہ میاں یہ عوام کا پیسہ ، عوام کا لہو نچوڑ کر اپنی نسلوں کی نسلیں سنوارکر کیا سے کیا بن بیٹھے ہو تواِس کے جواب میں یہی سننے کو ملے کہ اگر میرے اثاثے میرے ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں تو تمہیں کیا۔ یہ ’’تمہیں کیا‘‘ محض ایک دلیلِ بے معنی نہیں بلکہ ہماری اشرافیہ کی مجرمانہ ذہنیت کی عکاس اور اور اُن کی قانون سے ماورا رہنے پر قادر جبلت کا مکاشفہ ہے۔’’تمہیں کیا‘‘ محض دولفظوں کی تحکمانہ ترتیب ہی نہیں بلکہ ایک ایسے ادارے کا اصطلاحی تشخص (nomenclature)ہے کہ جہاں آئین وقانون محض ردی کی ٹوکری میں دھرے رہتے ہیں۔
تمام مہذب اقوام میں آئین اور قانون طاقتوروں کی خود سری کو نکیل ڈال کر رکھنے کے لیے بنائے جاتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں اقتدار کی بازی جمانے والوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ آئین اور قانون کو نکیل ڈال کر رکھیں۔ جمہوری ریاستوں میں انتخابات حکومتی چناؤ کے لیے ہوتے ہیں جب کہ ملک عزیز میں انتخابات ملکی اور غیر ملکی دلالوں کے ذریعے خریدے جاتے رہے ہیں ۔دنیا بھر میں ووٹ تقدس اورتحریم کا متبادل ہوتا ہے جب کہ ہمارے ہاں ایک پلیٹ بریانی عمومی طور پر ووٹ سے مہنگی تصور کی جاتی ہے۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ مغربی جمہوریت ، اسلامی نظریۂ اقتدار سے لگا ہی نہیں کھاتی۔تاریخ اسلام حصول اقتدار کے جن راستوں کی نشاندہی کرتی ہے وہاں بندوں کو تولا اور پرکھا جاتا ہے گنا نہیں جاتا جب کہ مغربی جمہوریت محض گنتی سے عبارت ہے کہ چاہے اُس کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ برسر اقتدار آئے یا نریندر مودی۔گذشتہ برس ہونے والے امریکی انتخابات کے بعد تو یہ سوچ امریکہ کے سنجیدہ حلقوں میں بھی در آئی ہے کہ اِس نوعیت کی جمہوریت جس میں ہیلری ہار جائے اور ٹرمپ فاتح ٹھہرے ،کیا امریکہ جیسے مضبوط ملک کی چولیں تو نہیں ہلا دے گی۔
جمہوریت کا موجودہ ماڈل کسی طور پر بھی پاکستانی عوام کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مذہبی لحاظ سے یکسر غیر جمہوری ذہنی تربیت اور ثقافتی اعتبار سے ہر حملہ آور کو خوش آمدید کہنے کی جبلت نے تقسیم ہند کے بعد ہمیں جس قسم کی کنفیوژن میں لا پھینکا ہے وہاں ’’ایک آدمی ایک ووٹ‘‘ نے جرائم پیشہ سیاسی مافیا کو ہمارے سر پر لادے رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جس میںآزادی کے ستر سال بعد بھی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مگر مالی اعتبار سے سفید پوش شخص محض کونسلر کا الیکشن لڑنے کاتصور تک نہیں کر سکتا۔ بائیس کروڑ کی آبادی سے ڈیڑھ کروڑ ووٹ خرید کر حکومت بنانے والا کس منہ سے اپنے آپ کوکُلی طور پر پاکستانی عوام کا نمائندہ کہلانے کا حق رکھتا ہے۔یہ اِسی جعلی جمہوریت کا اعجاز ہے کہ جس کے ذریعے کل آبادی کے محض بیسویں حصے کا سوداگراپنے تئیں آئین اور آئینی اداروں سے ماوراہو کر پورے نظامِ عدل کو للکارتا پھر رہاہے۔یہ کیسی جمہوریت ہے کہ چند ہزار ووٹ لے کر تناسبی اعتبار سے کامیاب ہونے والا امیدوار ’’جرم اور سزا‘‘ کے تصور سے بھی بالا ہوکر یہ سمجھنے لگے کہ اگلے الیکشن میں ناممکنہ ناکامی ہی اُس کے جرائم کی سزاکے لیے علامتی طور پر مختص کر دی جائے۔ایسے میں کہاں گیا مجموعہ تعزیراتِ پاکستان اور کیا واسطہ باقی رہا احتسابی قوانین سے۔ ناطقہ سربہ گریباں ہے کہ پارلیمان اور انتخابی قوائد کی بالادستی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اُسی آئین کو مسلسل اپنے قول و عمل سے لتاڑے جا رہے ہیں کہ جس کے تحت پارلیمنٹ منتخب ہوتی ہے ، الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں آتا ہے ، احتساب کا ادارہ تشکیل پاتاہے اور نظامِ عدل قائم کیا جاتا ہے۔اب اکیلا نظامِ عدل بھی کیا کرے کہ جسے اپنے ایک فاضل جج صاحب کی رپورٹ کو حکومتِ وقت کے نہاں خانے سے متاثرین تک پہنچانے میں بھی ساڑھے تین سال کی جدوجہد کرنا پڑی۔عوام تک معلومات کی بھرپور رسائی کا دعویٰ کرنے والی سرکار نے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو دفن کرنے کی کوشش میں اپنی مبینہ نیک نامی تک کو دفن کر کے رکھ دیا اور حاصل کیا ہوا، اِس کے بارے میں سبھی زبانوں کے محاورے قارئین بہتر جانتے ہیں۔
طوائف الملوکی(anarchy) عوام سے خواص کی طرف نہیں بہتی بلکہ یہ اشرافیہ کی من مانیوں سے وجود میں آتی ہے اور ریاستی اداروں کی ہئیتِ نافذہ کو پامال کرتے ہوئے اُن سے اُن کی اتھارٹی چھین لیتی ہے۔اندازہ کیجئے جب مملکت خداداد کے تین بار رہ چکے وزیراعظم اور اُن کی سابقہ کابینہ کے حاضر سروس وزراء اپنی عدالتِ عظمیٰ کے قابل احترام جج صاحبان اور عساکرِ پاکستان کے نگہبانوں کو صبح دوپہر شام سرعام محض اپنے کئے دھرے پر پردہ ڈالنے کے لیے مطعون کرتے رہتے ہوں تو ملک کے اندر اور اُس کی سرحدوں پر کس قسم کی صورتِ حال دیکھنے کو ملے گی۔سپاہی سے لے کر جرنیل تک اپنی جانیں اِس لیے قربان نہیں کرتے کہ وہ چند ہزار روپے تنخواہ لیتے ہیں بلکہ وہ اپنا آج مادروطن پر اِس لیے نچھاور کئے جارہے ہیں کہ اُن کا اِس دھرتی کے ساتھ ایک عہد ہے کہ جس کی پاسبانی اُن کے ذمہ داریوں میں شامل ہے۔عساکرِ پاکستان کو گھٹیا معاملات میں گھسیٹنا اور رگیدنا اُن کے اِس عہد کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے جو کسی طور حب الوطنی کے دعویداروں کو زیبا نہیں۔
رہی بات عدالتوں کی تو جان لیجئے کسی بھی ریاست میں قانون کی حکمرانی صرف انہی کی مرہون منت رہی ہے۔میں ہمیشہ سے کہتا رہا ہوں کہ اگر آپ نے امن امان سے رہنا ہے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے لاقانونیت کے عذاب چھوڑ کر نہیں جانے تو اپنی عدالتوں کا احترام کیجئے۔میں تین دہائیوں سے زیادہ تک وکلاء سے بھی یہی کہتا رہا کہ آپ کے کالے کوٹ کی توقیر اور دبدبہ محض اِس لیے ہے کہ آپ عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں لہذا عدالتوں کو بے توقیر مت کیجئے ورنہ آپ کا احترام بھی باقی نہیں رہے گا۔عدالتوں کی درجہ بندی میں عدالتِ عظمیٰ سب سے برتر ہے کہ جس کے بعد ریاستی سطح پر اور کوئی عدالت نہیں ہوتی۔انصاف کے یقین کے ساتھ لوگ سب سے نچلی عدالت سے ہوتے ہوئے یہاں تک پہنچتے ہیں۔یہ عدالت کسی اورکے کہنے سے نہیں بلکہ سیاست دانوں کے بنائے گئے آئین کے تحت قائم ہوتی ہے کہ جسے آئین کی پاسداری اور موثر اطلاق کے اختیارات حاصل ہیں۔ اسی عدالت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ آئین کو اُس کی روح اور رہنما اصولوں کے تحت برتا جا رہا ہے کہ نہیں۔اسی آئین نے اِس عدالت کے معزز جج صاحبان کو اختیار دیا ہے کہ وہ طاقتور سے طاقتور شخص کو بھی آئین اور قانون کی پامالی سے روکے رکھیں لہذا اِن فرائض کی بجا آوری میں اگرکٹہرے میں لائے گئے کسی مقتدر کے عزائم پورے نہیں ہو پاتے تو اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے عدالتوں کو مطعون کرنا ہی شیوۂ حب الوطنی کیوں کر ہو گیا۔ یہ چار پانچ لوگ خود کسی کو کٹہرے میں نہیں لاتے بلکہ لوگوں کے اعمال انہیں کھینچ کھانچ کر یہاں تک لاتے ہیں۔’’یہ چار پانچ لوگ‘‘ جب عدالت کی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو آئین اور قانون کے نگہبان بن کر بیٹھتے ہیں۔اُس وقت یہ کسی کے ماتحت، دوست یا رشتہ دار نہیں رہتے۔آپ کے اندراگر تھوڑا سا بھی ’’پاکستان‘‘موجود ہے تو سجدۂ شکر ادا کریں کہ ہمیں ایسی عدلیہ نصیب ہے کہ جو ٹیلی فون کال پر احکام بجا نہیں لاتی۔ذرا سوچیں ، آپ والی سوچ اگر پاکستان میں رہنے والے تمام لوگ اپنا لیں اور سول جج سے لے کر عدالت عظمیٰ تک سبھی جج صاحبان کو اپنی اپنی من چاہی خواہشات کے نشانے پر رکھنا شروع کر دیں تو اِس ملک اور اس کے اداروں کا کیا بنے گااور خود آپ کا کیا بنے گا۔یا درکھنا چاہئے کہ اپنے ملکی اداروں کو برباد کرنے والوں کے لیے ’’اغیار‘‘ کے دروازے زیادہ دیر تک کھلے نہیں رہتے اور نہ ہی وہ ’’تمہیں کیا‘‘ کے طعنے کو خاطر میں لاتے ہیں ، انصاف کے لیے پھر بھی انہی چار پانچ لوگوں کے روبرو پیش ہونا پڑتا ہے۔
فیس بک کمینٹ