گزشتہ جمعہ کو عدالت عظمیٰ کے دو فیصلوں نے پاکستانی سیاست کے دھندلائے ہوئے منظر نامے کو خاصی حد تک واضح کر دیا ہے۔پنجاب جسے آبادی کے لحاظ سے باقی صوبوں پرکثیر العددی فوقیت حاصل ہے ، اب صرف دو سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے درمیان تقسیم ہو کر وفاق میں بننے والی حکومت کی راہ متعین کرے گا۔تحریک انصاف کی قیادت تو بلا شرکت غیرے بدستور عمران خان کی جیب میں رہے گی مگر پاکستان مسلم لیگ ن صرف اُسی صورت”ن“ رہے گی کہ جب تک میاں نواز شریف اور اُن سے کہیں زیادہ اُن کی دختر مریم نواز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا وجود تسلیم کرتے ہوئے انہیں عملی طور پر سیاسی قیادت سنبھالنے کا موقع دیں گی بصورت دیگر اِس جماعت کے ”ش“ بننے میں حدیبیہ پیپر ملز کے فیصلے نے کچھ زیادہ فاصلہ نہیں رہنے دیا۔بدقسمتی اگر یونہی شریف خاندان پر ”مہربان“ رہی تو پاکستان مسلم لیگ کا باقی ماندہ ووٹ بھی ”ن“ اور ”ش“ کے درمیان منقسم ہو کر پنجاب میں تحریک انصاف کو فیصلہ کن اکژیت دلا سکتا ہے کہ جس میں کچھ حصہ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی ملتا دکھائی دینے لگاہے لیکن یہ سب کچھ اُسی صورت ممکن ہے کہ جب الیکشن وقت پر یا قبل از وقت ہو سکیں۔بظاہر یوں لگتا ہے کہ بڑے میاں صاحب اور اُن کی جنگجو ٹیم کو عمران خان کے نااہلی سے بچ نکلنے کا اتنا دکھ نہیں ہواجتنا چھوٹے میاں صاحب کے حدیبیہ کیس کی لٹکتی تلوار کے کاری وار سے بچ نکلنے کا ہے۔اِن فیصلوں سے عمران خان کو بھی جہانگیر ترین کی نااہلی کی صورت اتنا نقصان نہیں ہوا کہ جتنا میاں محمد نواز شریف کو اپنی پارٹی کی قیادت بچانے کی کوششوں کو ہوا ہے جو اپنے پورے خاندان کے ساتھ اِس طرح احتسابی جکڑبندی میں آ چکے ہیں کہ دوبیٹے اور سمدھی اشتہاری ہیں اور وہ خود اپنی بیٹی اور داماد سمیت اُن مقدمات میں پیشیوں پے پیشیاں بھگت رہے ہیں کہ جن میں سبھی ثبوت مخالف سمت ہیں۔جمعرات کو نیب کے ہونے والے اجلاس میں اگرچہ میٹرو بس پراجیکٹ ملتان اور پنجاب میں بنائی جانے والی چھپن متوازی کمپنیوں کے سلسلے میں تحقیقات کی منظوری بھی دی گئی ہے کہ جن کاکھرا مبینہ طور پرپنجاب کی سیاسی قیادت کی طرف نکلتا ہے مگر بڑے میاں صاحب کے لیے اِس میں پریشانی اگر کہیں ہے تو نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کی تعمیر کے حوالے سے ہے کہ جس میں نامِ نامی مریم بی بی کے سمدھی کا آ رہا ہے۔کہنے کو تومیاں شہباز شریف کے لیے ماڈل ٹاو¿ن کیس بھی موجود ہے مگر جسٹس باقر نجفی رپورٹ کے بعد بھی ”سب اچھا ہے“ کی رپورٹ نے بوجوہ اُن کا حوصلہ بلند رکھا ہواہے۔علامہ طاہر القادری نے بھی سبھی سیاسی جماعتوں کی اخلاقی حمایت اور ملاقاتی دوروں کے باوجود محض ”پراسراروین ورلاپ“پر اکتفا کیا ہوا ہے کہ جس سے میاں شہباز شریف کی سیاسی صحت کو دور ونزدیک کوئی خطرہ دکھائی نہیں دے رہا۔
اِس پس منظر میں حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کی بحالی کی درخواست کا سپریم کورٹ سے مسترد ہونا جہاں میاں شہباز شریف کے لیے مژدہ ¿ جانفزا ہے وہاں طویل رخصت پر گئے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے لیے اُن کا دفعہ 164ضابطہ فوجداری کے تحت قلمبند کیا گیا بیان ابھی تک ایک ڈراو¿نا خواب ہی ہے۔ اُن کا مجسٹریٹ کے روبرویہ حلفیہ بیان ایک ایسی چابی ہے کہ جس سے ہر قسم کے احتسابی تالے کو حسب ِ منشا کھولا اوربند کیا جا سکتاہے۔یہی سبب ہے کہ عباسی حکومت کے سبھی ”جدیدمحلف “ وزراءنے عمران خان کے حق میں آئے ہوئے فیصلے کے بعد جس طریقے سے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے خلاف رویہ اپنایا ہے وہ مستقبل قریب میں ن لیگ کی ”کشتیاں جلاو¿“ حکمت عملیوں کی نشاندہی کر رہا ہے کہ اب محترم ترین آئینی اداروں کی بجائے اُن میں موجود محترم شخصیات کو نشانہ بنا کر انہیں اِس طریقے سے متنازع کیا جائے کہ مملکت کا ہر ادارہ انتشار اور افراتفری کا شکار ہو کر اپنی توقیر کھو بیٹھے۔ مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی جب ماضی قریب کے ”معروف ترین“ میڈیا سیل کے فارغ التحصیل وزراءنے بیک وقت و بیک زبان عجیب متضاد موقف اپنایا۔دانیال عزیز تو اِس حد تک چلے گئے کہ اُن کے مطابق عمران خان اور تحریک انصاف کو مامون قرار دینے کے عمل میں ”سیاسی انجینئرنگ“ کی گئی ہے اور مستقبل کا سیاسی بیانیہ اُسی مسودے کے مطابق ترتیب دیا جارہا ہے کہ جو پہلے سے ہی لکھا جا چکا ہے۔یہ بوکھلاہٹ نہیں تو اور کیا ہے کہ خواجہ سعد رفیق بھی پیراگون اور آشیانہ سکیم کی تحقیقات شروع ہونے کے باوجود جہانگیر ترین اور یوسف رضا گیلانی کی عدالتی نااہلی کورگید تے ہوئے محترم اداروں کو ہدف ِ تنقید بنائے ہوئے ہیں ۔کیا وہ بھول گئے کہ میاں نواز شریف کس کو نااہل قراردلوانے کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ گئے تھے اور پھر جب عدالتی تلوار یوسف رضا گیلانی کی گردن پر تھی کون انہیں گھر چلے جانے اور قانونی کاروائی کا سامنا کرنے کا مشورہ نما حکم د ے رہا تھا۔ اور تو اور رانا ثنا اللہ بھی جہانگیر ترین سے ہمدردی جتانے کی آڑ میں عدالت ِ عظمیٰ پر چڑھ دوڑنے سے باز نہیں آئے اور اسے نظریہ ضرورت پر مبنی فیصلہ قرار دے دیا کہ جو تمام فریقین کو راضی کرنے کے لیے دیا گیا ہے ۔ کاش کوئی سمجھ سکے کہ رانا صاحب اب کس کیمپ میں ہیں اور سیالوی صاحب صرف انہی کا ستعفیٰ کیوں چاہتے ہیں۔یہ سوال بھی تو پوچھا جانا چاہئے کہ میاں شہباز شریف کی منشا کے برعکس وہ کس کے کہنے پر مستعفی ہونے سے گریزاں ہیں۔یاد دہانی کے لیے اتنی گزارش ہی کافی ہے کہ رانا صاحب کا ”لدھیانوی“ حوالہ انہیں بڑے میاں صاحب کے کیمپ میں لے آیا ہے کہ جنہوں نے مبینہ طور پر اپنی حکومت بچانے کے لیے انتہائی مہنگی لابنگ فرم ”رابرٹی گلوبل“کے زیر اثر اور بریلوی مسلک کے دینی جذبات کے برعکس انتخابی اصلاحات کی آڑ میں ختم نبوت کے بیان حلفی میں تبدیلی لانے کی کوشش کی تھی۔حدیبیہ پیپر ملز کا معاملہ بے شک ختم ہو جائے مگر اُن کا شریف خاندان سے منسوب منی لانڈرنگ کے بارے میں دیا گیا بیان کبھی ختم نہیں ہو سکتا ۔ فیصلوں سے قبل بظاہر ’ ’لندن کیمپ “ اور ”مریم الیون“ میں یہ حسن ِ زن پایا جاتا تھا کہ عمران خان نااہلی کیس کا جو بھی فیصلہ ہو مگر حدیبیہ پیپر ملز کیس کا ری اوپن ہوناضروری ہے مگر اُس بارہ درخواست کے غیر متوقع اخراج نے جس طور لندن کیمپ کو طیش دلایا ہے وہ مریم بی بی کے ٹیوٹ سے ظاہر ہے انہوں نے عدالت ِ عظمیٰ کے انتہائی محترم جج جناب فیصل عرب کا نام لے کر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے ہمارے انتہائی محترم اداروں کے پاس تو خاموش رہنا یقیناقرین مصلحت ہو گا مگر میں خوفزدہ ہوں اُس وقت سے کہ اگر ہمارے ”سیاسی رہنماو¿ں“کی تقلید میں اسی طرح کی دشنام طرازی پر مبنی رویہ ملک دشمن عناصر اور جرائم پیشہ لوگوں نے اپنا لیاتو سوچئے ملکی سلامتی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گالیکن قومی اداروں کی تذلیل اور بے توقیری کا سلسلہ اگر یونہی جاری رہا تو دیکھئے کہ شاہدخاقان عباسی پہلے قومی اسمبلی توڑتے ہیں یا سندھ اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں پہلے توٹتی ہیں۔
فیس بک کمینٹ