آئی ایس پی آر کی منظور شدہ برگیڈئر صدیق سالک کی شہادت ” میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ ، مشرقی پاکستان کے بنگالی قوم پرستوں کی علیحدگی کی تحریک پر میرے ابتدائی مطالعہ سےہے۔
صدیق سالک کی کتابوں کی کھپت سے متاثر ہو کر بہتیرے فوجی افسروں نے اپنی اپنی قلم آزمائی سے ایک سلگتے موضوع کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا، مگر مرحوم سالک صاحب کی تصنیف کی اہمیت بوجوہ آج بھی سب سے بڑھ کر ہے۔ ویسے تو آئی ایس پی آر کے سابق ڈائریکٹر برگیڈئر اے آر صدیقی نے بھی اپنی یاداشتیں قلمبند کیں اور جنرل راؤ فرمان علی اور جنرل نیازی جیسے اعلیٰ سرکاری عہدہ داروں نے بھی پاکستان کی تاریخ کے اس تلاطم خیز دور کی اپنے تئیں منظر کشی کرنے کی کوشش کی مگر ایک پیچیدہ منظرنامہ میں حاضر سروس فوجی کے لئے انتہائی متنازعہ حالات کو ترتیب دینا اور پھر سکاری سطح سے منظوری، حتیٰ کہ کتاب کی اشاعت تک تمام مراحل کی انتہائی قلیل مدت میں تکمیل صدیق سالک کو اپنے ہم عصروں میں ممتاز کر دیتی ہے۔
صدیق سالک کے علاوہ مشرقی پاکستان کے المیہ کے تمام راوی مصنفین پاکستانی ” گلازناسٹ“ کے متعارف ہونے تک اپنے قلم کو متحرک نہ کر سکے۔ اور بیشتر نے ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا۔(سوویت ریاستوں کی خودمختاری کے بعد ابلاغ کی محدود آزادی کے تصور کی تقلید پاک فوج کے جنرل بیگ نے پاکستان میں کی)
صدیق سالک جب ہندوستان سے رہائی کے بعد پاکستان پہنچے تو پہلے ان کی کتاب ” ہمہ یاراں دوزخ “ شائع ہوئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 1973 میں جس وار انکوائری کمیشن کے سامنے (اس وقت کے) میجر سالک پیش ہوئے، اس کے خدوخال اور بیانیے نے صدیق سالک کے قلمی مستقبل (ہمہ یاراں دوزخ اور میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا) کی راہوں کا تعین کیا یا پھرشاید سب کچھ اس کے برعکس ہو۔
یہ کتاب پڑھے مجھے تین عشرے گزر چکے اور مجھے کچھ بھی یاد نہیں کہ میں نے اس کتاب میں کیا پڑھا، البتہ اتنا یاد ہے کہ مصنف کے اکثر فقرے اور تاثرات میرے لئے بے چینی کا سبب رہے۔ فوجی نظم سے معمولی واقفیت رکھنے والا بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ جنرل یحییٰ خان بہرحال پاکستان کی فوج کے کمانڈر انچیف تھے اور باوردی فوجی افسر نے اپنے سابق کمانڈروں کے لئے مشکل الفاظ کا چناؤ کیا۔
کیا ایک حاضر سروس فوجی (اور وہ بھی انتہائی جونیئر) کا سیاست سے براہ راست متعلقہ موضوعات پر قلم اٹھانا ملٹری ڈسپلن پر سوالیہ نشان تو نہیں بنے گا؟ پھر ایک حاضر سروس فوجی کا پاک فوج کے سابق کمانڈر ان چیف (جنرل یحییٰ خان) کے بارے میں رائے زنی سادہ لوحی میں ہوئی، سکرپٹڈ تھی یا فرائض منصبی کا تقاضا تھا؟ وجہ کچھ بی ہو یہ کتاب اپنے وقت میں حاکمانہ سوچ کی عکاس ہے۔ وہ سوچ جو پاکستان کو دو لخت کرنے کا موجب بنی۔ جہاں احتساب ابلاغ میں ہوتا ہے۔ ہمیں تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس بھر پور کتاب کوپاکستان کی تاریخ کے ایک اہم باب کی حیثیت میں نصاب کا حصہ بنانا مقصود تھا۔
جس بات نے ہمیں زیادہ بے چین کیا وہ اس وقت کے مشرقی ہاکستان کی مقامی آبادی کے لئے مصنف کا حقارت آمیز رویہ تھا۔
پاک فوج کو آج کی طرح اس وقت بھی پاکستان کا سب سے معتبر ادارہ سمجھا جاتا تھا اس لئے کتاب کے تمام متن کو من و عن تسلیم کرنے میں کوئی قباحت بھی نہیں ہونا چاہئے۔ تاریخ کے طالب علموں کے لئے صدیق سالک کی کتابیں اس لئے بھی منفرد ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ مصنف نہ تو اس کتاب میں اور نہ ہی بعد میں اپنی سرکاری حیثیت میں ان غیور سپاہیوں کے خاندانوں سے قوم کو متعارف کرا سکے جنہوں نے ہتھیار ڈالنے کی بجائے دشمن سے لڑتے ہوئے دھرتی پر اپنی جانیں قربان کر دیں۔ یہ تمام لوگ لاپتہ ہی ٹھہرے۔ مسنگ بلیووڈ کلڈ – یعنی ہلاک۔ یہ غیور فوجی جوان پاکستان کا اصل اثاثہ تھے، اب ڈھاکہ میں مدفون اور باقی ماندہ پاکستان سے لاپتہ ہیں ۔ 1988 میں صدیق سالک ہمہ یاراں اس دنیا سے رخصت ہوئے تو انہوں نے پاکستان کی تاریخ کے طالب علموں کے لئے ترکہ میں قیمتی کتابیں چھوڑیں۔ ” ہمہ یاراں دوزخ“ اور ” میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ پاکستان کی تاریخ میں صدیق سالک کی کتابیں ہمارے مشرقی بازو کےمفلوج ہونے کی داستانیں نہیں بلکہ ملکی تاریخ کے بد ترین سانحہ کی نیم سکاری ایف آئی آر ہے۔ مصنف کے قلم سے لکھا ایک ایک لفظ ایک مشکل دور کے تضادات کا ادبی عکاس ہے جس میں مشرقی پاکستان کی بنگالی قومیت سے تعصب سطر بہ سطر عیاں ہوتا نظر آتا ہے۔
ایک شکوہ بہرحال رہے گا کہ تضادات سے بھرپور کتابوں کے مصنف کے افکار ڈوبتے ڈھاکہ کے ماحول کا تو بڑی جانفشانی سے احاطہ کرتے رہے مگروہ مشرقی بنگال کے پانیوں میں غرق ہوتی ریاستی مشینری کی کوہتاہیوں کی نشاندہی میں پیشہ ورانہ انصاف نہ کر سکے۔
فیس بک کمینٹ