آج روز عاشور ہے ، دس محرم الحرام ، 61 ہجری کے دس محرم الحرام کے روز وقتِ عصر تک محبوبانِ خدا کے قافلہ سالار کے کنبہ کے شیرخوار بچے ، جوان اور نوخیز، جوانوں کے ساتھ دوست حباب اور کوفہ کے سخت محاصرے کو کسی نہ کسی طرح پھلانگ کر سبطِ سرکار احمد مرسلؐ حسینؑ ابن علیؑ کی نیابت کو آنے والے جام شہادت نوش کرچکے تھے۔
دس محرم کے طلوع آفتاب سے وقت عصر تک خانوادہ رسالت مآب اور ان کے احباب و انصار پر عدو کے لشکر نے ہر وہ ظلم ڈھایا جو اس کے بس میں تھا۔ امام حسینؑ اپنے بچوں، بھتیجوں، بھانجوں اور بھائیوں کے ساتھ احباب و انصار کے لاشے مقتل سے اٹھاتے رہے۔
یہ جنگ وقتی نتائج کے اعتبار سے یک طرف رہی لیکن قدرت کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ خون نے تلوار پر ابدی فتح حاصل کی حسینؑ و حسینیتؑ آج بھی زندہ و تابندہ ہیں ذکرِ شاہ شہیداؑ آج بھی حریت فکر کے متوالوں کا لہو گرماتا ہے۔ کربلا آج بھی ان انسانوں اور ان مظلوم طبقات کے لئے مشعل راہ ہے جو اپنے عہد میں بدی کی طاقتوں سے برسرپیکار ہوتے ہیں۔
یہ کربلا و حسینؑ کا اعجاز ہی ہے کہ حسینیؑ پرچم آج بھی سربلند ہے اور یزیدیت تاریخ کو مسخ کرنے میں قطعی طور پر ناکام و نامراد ہوئی۔
طلوع آفتاب کے بعد سے وقت عصر تک کربلا کی زمین اور نیلگوں آسمان نے شجاعت اور تسلیم و رضا کے ایسے ایسے مناظر دیکھے کہ بے اختیار ریگزار کربلا اور نیلگوں آسمان ایک ہوگئے۔
عاشور کے دن کربلا میں برپا ہوئے حق و باطل کے معرکہ کے دوران وقفے وقفے سے امام حسینؑ نے مقصد قیام سے عدو کے لشکر کو آگاہ کیا۔ ایک موقع پر محبوبانِ خدا کے قافلہ سالار امام حسینُ گویا ہوئے
’’لوگو میں مدینہ سے اقتدار طلبی کے لئے رخصت ہوا نہ احرام حج کھول کر بیت اللہ سے کسی جنگ کی نیت سے نکلا تھا، اقتدار میری طلب ہے نہ منزل، اقتدار میرے جوتوں کے تلوئوں سے لگی مٹی سے بھی حقیر تر ہے، میرا قیام اس ناانصافی کے خلاف ہے جس کی وجہ سے پیغام اسلام و مصطفیؐ پر قبائلی تعصب پھر سے غالب آگیا ہے۔اسلام کے نظام عدل کی جگہ ملوکیت کے جاہ و جلال اور پسندوناپسند کے فیصلوں نے لے لی ہے۔ حلال و حرام کی تمیز ختم ہوتی جارہی ہے۔ میں نے نانا جان کے شہر مدینہ اور بیت اللہ کو لہولہان ہونے سے بچاکر اپنا فرض ادا کیا۔ مجھ حسین فرزندعلیؑ و فاطمہؑ پر واجب ہے کہ آخری سانس تک اعلائے کلمتہ الحق کا فرض ادا کرتا رہوں‘‘۔
آج پاکستان سمیت دنیائے ا سلام کے بڑے حصے میں عاشور کی مناسبت سے مجالس عزاء، تعزیتی جلسے منعقد ہوں گے اور ماتمی جلوس نکالے جائیں گے۔ مجالس و جلسوں میں علماء ذاکرین اور خطباء سیرت شہدائے کربلا بالخصوص مقصد قیام حسینُ پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔
عاشور کا ایک روشن و ابدی پیغام تو یہ ہے کہ تعداد کا حق و باطل سے کوئی تعلق نہیں ایک تنہا شخص بھی اگر ا علائے کلمتہ الحق کا فرض ادا کرے تو اس کی آواز اور وجود کرہ ارض پر بسنے والے تمام لوگوں سے زیادہ طاقتور اور تادیر رہنے والے ہیں۔ حسینیتؑ کا اس کا زندہ ثبوت ہے۔
کربلا میں حسینؑ ان کے صاحبزادے بھائی بھانجے بھتیجے احباب و انصار سبھی ایک ایک کرکے میدان عمل میں داد شجاعت دیتے قربان ہوگئے مگر ان مظلوموں کے خون نے جو فتحِ کامل حاصل کی اس سے انکار محض کور چشمی ہی ہوگی۔ حسینؑ و کربلا، زندہ تھے زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔ یہ دائمی زندگی درحقیقت اس قیام کا اجرِ عظیم ہے جو روز عاشور کربلا میں ہوا۔
آج ہمارے چار اور ناانصافیوں، جبرو و ستم، استحصال، لاقانونیت، امن و انسانیت دشمنی کا دوردورہ ہے۔ انصاف طبقاتی بنیادوں پر فراہم کیا جاتا ہے۔ وسائل پر بالادست طبقات اور اداروں کا قبضہ ہے عام آدمی سسک سسک کر جی رہا ہے۔ ملک کی نصف سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔
ستم یہ ہے کہ مقصد قیام حسینؑ سے رہنمائی لینے کی بجائے کچھ لوگ خبثِ باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مقصد پر چاند ماری میں جُتے ہوئے ہیں۔ ہماری دانست میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے چار اور جس ظلم و انصافی لوٹ کھسوٹ، بندر بانٹ، لاقانونیت، فرقہ پرستی اور دوسرے جرائم کا دور دورہ ہے ان کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی جائے بلکہ اپنے اتحاد کی طاقت سے اس نظام جبر کے خلاف میدان عمل میں اترنا ہوگا جو 76 برسوں سے چہرے اور آلہ کار بدل بدل کر اہل پاکستان کی گردنوں پر مسلط ہے۔
عاشور کا دن فقط گریہ و ماتم مجالس و جلوس اور جلسہ ہائے عقیدت کے لئے نہیں بلکہ یہ دن اس امر کا متقاضی ہے کہ ہر کس و ناکس اپنے حقوق سے دستبردار ہو نہ ہی چار اور کے لوگوں کے سماجی معاشی سیاسی حقوق پر کسی کو ڈاکہ ڈالنے دے۔
پیغام عاشور یہی ہے کہ انسانی سماج کو کامل آزادی و انصاف سے منور رکھنا چاہیے تاکہ وہ تہذیبی و تمدنی ارتقا کے سفر کو جاری رکھ سکے۔ ارتقا کا یہی سفر انسانی سماج کو تحقیق و جستجو کی بدولت نئے جہانوں کے دروازوں پر لے جاکر کھڑا کرے گا۔
کربلا متقاضی ہے کہ اپنے حصے کے رزق میں ایثار کے جذبے سے مستحق لوگوں کو شریک کیا جائے۔ انصاف سے محروم افراد اور طبقات کو انصاف کی فراہمی کے لئے آواز بلند کی جائے۔ ملکی وسائل پر چند طبقات اور اداروں کے تسلط کو قومی جرم سمجھ کر اپنا حق لینے کے لئے میدان عمل میں اتر آیا جائے۔
ذکر کربلا کی سعادت اپنی جگہ لیکن عمل کربلا کے بغیر ذکر بے معنی ہے۔ عمل یہی ہے کہ اپنے حصے کا سچ وقت پر بولا جائے۔ ظالم کو ظالم کہا جائے اور مظلوموں کی ہمنوائی، ذات پات، رنگ و نسل، مذہب و عقیدے کے بغیر کی جائے۔
آج کے پاکستان میں جہاں ایسی خرابیاں بدرجہ اتم موجود ہیں جن کا ذکر بالائی سطور میں کیا گیا وہیں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ غیرمسلم برادریوں کے سیاسی مذہبی سماجی و قانونی حقوق پامال کرنے والے مٹھی بھر شرپسند ہر طرف دندناتے پھرتے ہیں اور آبادی کا بڑا طبقہ ان مجبوروں اور محکموں کے حق میں بات کرنے کی بجائے فتوئوں کے ڈر سے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ عاشور ہمیں سمھاتا ہے کہ خاموشی ظلم اور ظالموں کی ہمنوائی ہے۔
اندریں حالات ہمیں (ہم سب کو) اس امر پر غور کرنا ہوگا کہ کیا ذکرِ عاشور و کربلا اور محبت حسینؑ محض لذت دہن کے لئے ہے یا پھر مقصد قیام حسینِؑ کو شعوری طور پر سمجھ کر اپنے حصے کا فرض کسی خوف کے بغیر ادا کرنے کی دعوت؟
امید واثق ہے کہ اہل وطن ان معروضات پر غور کرتے ہوئے اپنا احتساب ضرور کریں گے کیونکہ خود احتسابی ہی ہماری حق شناسی کی طرف رہنمائی کرسکتی ہے
فیس بک کمینٹ