کافی دن ہوئے ایک ٹی وی چینل پر مسلم لیگ (ن) کی اندرونی سیاست پر گفتگو ہو رہی تھی۔ میزبان مجھے بار بار بیگم کلثوم نواز کے بارے میں سوال کر رہے تھے اور میں بیگم صاحبہ کے بارے میں کوئی اچھی سی بات کہہ کر خاموشی اختیار کر لیتا تھا۔ عامر متین بھی اس بحث میں شریک تھے۔ اُن سے نہ رہا گیا اور انہوں نے مجھے چوٹ کرتے ہوئے کہا کہ بیگم کلثوم نواز پر تنقید سے یہ گریز کرتے ہیں البتہ نواز شریف کے بارے میں کچھ بھی کہلوا لیں۔ اس فقرے پر کاشف عباسی نے ایک تائیدی قہقہہ بلند کیا اور میں نے مسکراہٹ آمیز خاموشی پر اکتفا کیا۔ یہ ٹی وی پروگرام ختم ہوا تو تحریک انصاف کے ایک رہنما نے فون کیا اور کہا کہ ایک بات کافی دن سے پوچھنا چاہتا تھا لیکن خاموش رہا آج عامر متین نے لائیو ٹی وی پروگرام میں جو کچھ کہا اُس کی آپ نے تردید نہیں کی لہٰذا میں وہ بات پوچھنا چاہتا ہوں جو کئی دن سے میرے حلق میں اٹکی ہوئی ہے۔ یہ سُن کر میں نے اُن سے کہا کہ آپ نے جو پوچھنا ہے پوچھ ڈالیں۔ موصوف نے یاد دلایا کہ لاہور کے حلقہ این اے120میں ضمنی الیکشن سے کچھ دن پہلے عطاء الحق قاسمی نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ بیگم کلثوم نواز کو مسلم لیگ (ن) کے حامیوں کے علاوہ بہت سے مخالفین بھی ووٹ ڈالیں گے اور انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اگر حامد میر کا ووٹ حلقہ این اے 120میں رجسٹرڈہوتا تو وہ اپنا ووٹ بیگم کلثوم نواز کو ڈالتا۔ تحریک انصاف کے رہنما نے پوچھا کہ کیا واقعی آپ بیگم کلثوم نواز کو ووٹ ڈالتے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو میرے اس مہربان نے قدرے تلخ لہجے میں پوچھا کہ اگر ایسا ہے تو پھر آپ نواز شریف پر تنقید کیوں کرتے ہیں؟ سوال بڑا جائز تھا۔ میں نے جواب میں کہا کہ نواز شریف پر تنقید میں اُس وقت بھی کرتا تھا جب وہ وزیر اعظم تھے لیکن تنقید کا مطلب یہ نہیں کہ میری اُن سے کوئی ذاتی دشمنی ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں میرے بہت سے قریبی دوست ہیں اور سیاست کے نشیب و فراز میں یہ دوستی قائم ہے لیکن میرے خیال میں مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور بہت سی دیگر جماعتوں کے کردار و عمل میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ سب پاور پالیٹکس کر رہے ہیں۔ کسی نے اصولوں پر سمجھوتہ کر لیا اور کوئی نئے سمجھوتے کی تلاش میں ہے لہٰذا کچھ لوگوں کے بارے میں اپنی رائے اُن کی سیاست کی وجہ سے نہیں بلکہ اُن کی ذاتی شخصیت کی وجہ سے قائم کر لیتا ہوں۔ بیگم کلثوم نواز کو میں بہت قریب سے نہیں جانتا لیکن دور دور سے اُنہیں جتنا دیکھا اور اُن کے بارے میں جو سنا اُس کی وجہ سے میں نے این اے 120کے ضمنی الیکشن میں اُن کے بارے میں مثبت باتیں کیں کیونکہ میری ناقص رائے میں وہ بیماری کے باعث پاکستان سے باہر نہ ہوتیں تو شاید نواز شریف کو اچھے مشورے دیتیں اور نواز شریف زیادہ پریشان بھی نظر نہ آتے۔
بیگم کلثوم نواز این اے 120کے ضمنی الیکشن میں کامیابی کے بعد بدستور بستر علالت پر ہیں اور قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اُٹھانے کے لئے پاکستان نہیں آسکیں۔ کچھ سنگ دلوں نے اس معاملے پر بھی طعنہ زنی شروع کر رکھی ہے اور عدالتوں میں درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ تاہم مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مخالفین کی اکثریت نے بیگم کلثوم نواز کے لئے کلمہ خیر کہا اور اُن کی صحت یابی کے لئے دعا کی ہے۔ بیگم صاحبہ کے ساتھ میری آخری ملاقات 2016ء کے وسط میں لندن کے ایک اسپتال میں ہوئی تھی جہاں نواز شریف کے دل کا بائی پاس آپریشن ہوا تھا۔ اس اسپتال میں نواز شریف کو یہ پیغامات بھیجے جا رہے تھے کہ وہ پاکستان واپسی کی تکلیف نہ کریں۔ وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیں یا لمبی چھٹی پر چلے جائیں۔ شریف خاندان کے ایک اہم فرد نے انہی دنوں مجھے کہا کہ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع ہونی چاہئے ورنہ مارشل لا لگ جائے گا۔ مجھ پر دباؤڈالا گیا کہ میں راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی حمایت کروں اور نواز شریف سے کہوں کہ وہ جمہوریت کو بچانے کے لئے توسیع دے ڈالیں۔ میں نواز شریف کی عیادت کے لئے لندن پہنچا تو شریف خاندان کے ایک اور فرد نے فرمائش کی کہ جب آپ وزیر اعظم صاحب کو ملیں تو رضوان اختر صاحب کی تعریف کر دیجئے گا۔ میں یہ سب کچھ سنتا رہا اور جب اسپتال میں وزیر اعظم صاحب کو ملا تو صرف اُن کی خیریت دریافت کرنے پر اکتفا کیا۔ بیگم کلثوم نواز صاحبہ نے سہارا دے کر نواز شریف صاحب کو تکیے کے ساتھ بٹھا دیا اور جب نواز شریف صاحب نے پوچھا سنائیے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے تو میں نے فوراً کہا آپ کو سفر کی اجازت ملتے ہی پاکستان واپس جانا چاہئے۔ میری بات سنتے ہی بیگم کلثوم نواز کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ شاید وہ بھی یہی چاہتی تھیں۔ نواز شریف کے چہرے سے بیماری کی نقاہت دور ہو گئی اور اُنہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر میں نے کہا کہ یہ موقع حساس معاملات پر گفتگو کا نہیں لیکن کیونکہ بات چل نکلی ہے تو میرا خیال ہے آپ کو جنرل راحیل شریف کو بالکل توسیع نہیں دینی چاہئے۔ بیگم صاحبہ نے دوبارہ تائید میں سر ہلایا۔ پھر میں نے موضوع بدل دیا اور غیر سیاسی باتیں شروع کر دیں۔ جب میں نے اجازت لی تو بیگم صاحبہ نے ایک ماہر نرس کی طرح اپنے خاوند کو سہارا دیئے رکھا اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔ آج بیگم کلثوم نواز بستر پر ہیں اور نواز شریف اُن کو سہارا دینے بار بار لندن جاتے ہیں۔ پاکستان واپسی پر جو میرے ساتھ ہوا اُس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔
مجھے وہ زمانہ بھی یاد ہے جب نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں سیف الرحمان کو احتساب بیورو کا سربراہ بنا دیا اور سیف الرحمان اپنے ہاتھ میں احتساب ایکٹ 1997ء کا گنڈاسا لے کر اپوزیشن کے ساتھ ساتھ میڈیا پر بھی چڑھ دوڑے۔ اُن دنوں سیف الرحمان کبھی کسی اخبار کا نیوز پرنٹ بند کراتے کبھی کسی کے پرنٹنگ پریس کی بجلی بند کراتے۔ بیگم کلثوم نواز نے ایک سے زائد بار سیف الرحمان کو روکنے کی کوشش کی۔ ایک دن سیف الرحمان نے ایف آئی اے اور آئی بی والوں کے ذریعہ مجھ پر حملہ کیا تو بیگم صاحبہ نے اپنے خاوند کو مجبور کیا کہ وہ مجھ سے معذرت کریں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب بیگم صاحبہ نے پرویز مشرف کے دور میں اپنے خاوند کی رہائی کے لئے تحریک شروع کی تو اکثر اسلام آباد میں اپنے دل کی باتیں مجھ سے کر لیا کرتی تھیں۔ اُنہی دنوں پتہ چلا کہ اُنہیں قرۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کا دریا‘‘ بڑا پسند ہے۔ وہ کہا کرتی تھیں میں نواز شریف صاحب کو آگ کے دریا سے نکالوں گی اور پھر وہ اپنے سسر میاں محمد شریف کی مدد سے نواز شریف کو آگ کے دریا میں سے نکال کر لے گئیں۔ افسوس کہ ہم نے سیاست کو ایک دوسرے کے لئے آگ بنا دیا ہے اور ایک دوسرے کو اس آگ میں جلانا چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ بیگم صاحبہ بستر علالت پر اپنوں اور پرایوں سب کو اس آگ سے بچانے کی دعا کرتی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ بیگم کلثوم نواز کو جلد از جلد صحت عطا فرمائے۔ (آمین)
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ