یہ ایک سنہری موقع تھا جو وزیر اعظم عمران خان نے کھودیا۔بھارتی حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش ٹھکرائے جانے کے بعد عمران خان نے جو ردعمل ایک ٹوئٹ کے ذریعہ دیا ہے اگر وہ یہی ردعمل بہت نپے تلے انداز میں کچھ تفصیل کے ساتھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دیتے تو پوری دنیا کے سامنے عمران خان کا نہیں پاکستان کا موقف اجاگر ہوتا۔ کچھ دن پہلے صحافیوں کے ساتھ وزیر اعظم کی ایک ملاقات میں زیادہ گفتگو خاور مانیکا اور پاک پتن کے ڈی پی او کے بارے میں ہوتی رہی۔ ایک گھنٹے تک اس معاملے پر گفتگو ختم نہ ہوئی تو میں نے وزیر اعظم صاحب سے گزارش کی کہ کیا آپ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں نہ جانے کے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اگر آپ جائیں گے تو کشمیر اور افغانستان سمیت اہم ایشوز پر دنیا کو آپ کا موقف سننے کا موقع ملے گا۔ ابھی عمران خان نے جواب نہیں دیا تھا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نفی میں سر ہلانا شروع کردیا۔ خان صاحب نے کہا کہ ایک دن امریکہ جانے میں ایک دن تقریر میں ایک واپس آنے میں لگے گا تین چار دن ضائع ہوجائیں گے۔ میرے کچھ ساتھیوں نے لقمہ دیا کہ اس مرتبہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں نریندر مودی سمیت بہت سے اہم سربراہان مملکت شریک نہیں ہورہے ۔ میں نے اصرار کیا کہ آپ کو وہاں مودی کو ملنے نہیں جانا اقوام متحدہ کے فورم پر پاکستان کا موقف بیان کرنا ہے۔اس مرتبہ آپ اردو میں خطاب کرکے نئی روایت بھی قائم کرسکتے ہیں لیکن عمران خان نے کہا کہ اگر مجھے وہاں ٹرمپ مل گیا اور اس نے مجھے کچھ کہہ دیا، کچھ میں نے اسے کہہ دیا تو نیا پھڈا کھڑا ہوجائے گا۔اس فقرے پر سب ہنس دئیے اور دوبارہ خاور مانیکا پر گفتگو شروع ہوگئی۔ اب جبکہ بھارتی حکومت عمران کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش مسترد کرچکی ہے اور بھارت کے آرمی چیف نے پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکی بھی دے ڈالی ہے تو پوری دنیا کی نظریں دو ایٹمی طاقتوں پر مرکوز ہیں۔ افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بڑے مدبرانہ انداز میں کہا ہے کہ امن جنگ سے نہیں مذاکرات سے آئے گا لیکن امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے جبکہ وزیر اعظم صاحب نے ٹوئٹ کے ذریعہ کہا ہے کہ بڑے عہدے پر بیٹھے چھوٹے شخص کی سوچ چھوٹی ہی رہتی ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عمران خان کی ٹوئٹ کے الفاظ ان کے عہدے کے شایان شان نہیں تھے لیکن میری ناچیز رائے میں عمران خان نے جو کہا ٹھیک کہا ، تاہم وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خود خطاب کرنے جاتے تو بڑے عہدے پر بیٹھا ہوا چھوٹا شخص مزید چھوٹاہوجاتا۔ افسوس کہ خان صاحب یہ سنہری موقع کھو چکے ہیں۔ جنرل اسمبلی سے 29ستمبر کو شاہ محمود قریشی خطاب کریں گے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ کو اپنے خطاب میں نا صرف بھارت کی طرف سے جنگ کی دھمکیوں کا جواب دینا ہے بلکہ کلبھوشن یادیو کے بارے میں بھی دنیا کو بہت کچھ بتانا ہے کیونکہ جب قریشی صاحب اپوزیشن میں تھے تو اکثر یہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ نواز شریف نے اقوام متحدہ میں کلبھوشن یادیو کا نام کیوں نہیں لیا؟
امید ہے کہ شاہ محمود قریشی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کلبھوشن یادیو کا بار بار نام لیں گے اور یہ نکتہ بھی اٹھائیں گے کہ جنرل اسمبلی کو نبی کریم حضرت محمد ﷺ سمیت تمام مقدس ہستیوں کی توہین اور گستاخانہ خاکوں کے خلاف قرار داد منظور کرنی چاہئے اور ان گستاخیوں کا راستہ روکنے کے لئے قانون سازی پر زور دینا چاہئے کیونکہ ان گستاخیوں سے انتہا پسندی اور نفرتیں پھیلتی ہیں۔ دوسری طرف بھارت کی طرف سے جنگ کی دھمکی کو محض ایک گیڈر بھبھکی سمجھ کر نظر انداز کردینا مناسب نہیں۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے فوجی جوان اور افسران آئے دن اپنے وطن کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں اور مشکل کی ہر گھڑی میں قوم کی توقعات پر پورا اتریں گے لیکن اس معاملے پر قومی یکجہتی دکھانے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح بھارت کے ساتھ کرکٹ میچ میں پوری پاکستانی قوم اپنی ٹیم کے پیچھے کھڑی نظر آتی ہے اسی طرح بھارت کی طرف سے جنگ کی دھمکیوں کے بعد قوم کو متحد کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں پارلیمنٹ کو اہم کردار ادا کرنا ہے۔ بھارت کے آرمی چیف نے جنگ کی دھمکی بہت سوچ سمجھ کر دی ہے اور اس دھمکی کے پیچھے بڑے عہدے پر بیٹھا ہوا وہ چھوٹا شخص ہے جو اپنے ذاتی مفاد کو بچانے کے لئے اپنی قوم کے مستقبل کو داؤپر لگانے سے گریز نہیں کرے گا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو 2019ءکے عام انتخابات میں بہت سی مشکلات نظر آرہی ہیں۔ ایک طرف پٹرول مہنگا کرنے کے باعث انہیں تنقید کا سامنا ہے دوسری طرف وہ پٹرول خریدنے کے لئے ایران کارخ کرتے ہیں تو ٹرمپ ناراض ہوجاتے ہیں۔ تیسری طرف فرانس کے سابق صدر فرانکوئس ہولاندے ان پر ایک عذاب بن کر نازل ہوئے ہیں۔ ہولاندے 2016ء میں فرانس کے صدر تھے، جب مودی نے پیرس میں ایک فرنچ کمپنی ڈزالٹ ایوی ایشن سے8.7ارب ڈالر مالیت کے 36رافائل طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا۔ ہولاندے نے کچھ دن پہلے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ اس سودے سے قبل بھارتی حکومت نے ہمیں پیغام بھجوایا کہ آپ ہمیں یہ طیارے رلائنس ڈیفنس نامی کمپنی کے ذریعہ فروخت کریں جو مودی کے گجراتی دوست انیل امبانی کی ملکیت ہے۔ اس سے قبل انیل امبانی سابق صدر ہولاندے کی پارٹنر جولی گائٹ کی ایک فلم پر پیسہ بھی لگاچکا ہے۔ بھارتی حکومت اور ڈزالٹ ایوی ایشن نے ہولاندے کے ا لزام کی تردید کردی جس کے بعد بھارتی میڈیا گروپ انڈیا ٹو ڈے نے ہولاندے کا انٹرویو کرنے والے صحافی انیتون روگیٹ سے رابطہ کیا اور ہولاندے کے انٹرویو کی تصدیق چاہی۔ روگیٹ نے یہ انٹرویو ایک ویب سائٹ’’میڈیا مارٹ‘‘ کے لئے کیا تھا کیونکہ کوئی بڑا اخبار اور ٹی وی چینل اربوں ڈالر کے اس دفاعی سودے پر خبر لینے کو تیار نہ تھا۔ روگیٹ نے بتایا کہ اس نے ہولاندے سے ایک مرتبہ نہیں دو مرتبہ انٹرویو کیا اور یہ بالکل غلط ہے کہ اتنے بڑے سودے میں بھارتی حکومت کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس اسیکنڈل نے بھارت کی اپوزیشن کو متحد اور حکمراں اتحاد کو منتشر کردیا ہے۔ حکمراں اتحاد میں شامل شیوسینا 2019ء کے انتخابات اکیلے لڑنے کا عندیہ دے چکی ہے۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ جوگی ادتیا ناتھ کو بی جے پی کے اندر کافی مخالفت کا سامنا ہے، وہ بظاہر مودی کے بہت پسندیدہ ہیں ۔
لیکن بی جے پی کے اندر ایک لابی انہیں 2019ء میں وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنانا چاہتی ہے۔ بہار میں ا تحادی جماعت جنتا دل یونائٹیڈ کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ جموں و کشمیر میں بی جے پی کی اتحادی پی ڈی پی بھی رسوا ہوچکی ہے۔ بی جے پی کا اندرونی بحران ا تنا شدید ہے کہ اس سال پارٹی کے اندر انتخابات ملتوی کردئیے گئے اور امیت شاہ کو بغیر انتخابات کے مزید ایک سال کے لئے پارٹی صدر بنادیا گیا تاکہ وہ پارٹی کے اندر مودی کے خلاف مزاحمت کو روک سکیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کا مودی کو سامنا ہے اور ان مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے انہوں نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے بجائے محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرلیا ہے اوراگر مودی کے لئے مسائل مزید شدید ہوگئے تو بڑے عہدے پر بیٹھا ہوا چھوٹا شخص کچھ بھی کرسکتا ہے۔ دو بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کے ایک غیر شفاف اور مشکوک سودے کی کوکھ سے جنم لینے والا اسکینڈل پاک بھارت کشیدگی میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے، مزید کشیدگی، مزید دفاعی سودوں کی راہ ہموار کرے گی، لہٰذا پاکستان کو ہمہ وقت ہوشیار اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کا عام لوگوں کو نقصان لیکن کچھ بڑے سرمایہ داروں کو بہت فائدہ ہوگا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ