اوشنو گرافی (بحری حدود کے مطالعہ) کے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ملتان 20ہزار سال قبل بندرگاہ تھا اور شہر ساحلِ سمندر کے کنارے واقع تھا۔ (۱)اس وقت سے آج تک یہاں انسان جنم لے رہے ہیں اور موت کی نیند سو رہے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں یہ رسم تھی کہ جب کوئی شخص مر جاتا تومردے کو سمندر کی نذر کر دیا جاتا ۔جب سمندر خشک ہو گیا تو مردے کو جنگل میں پھینک دیا جاتا۔ (۲)جب اسلام کی روشنی پھیلی اور کتاب الٰہی نازل ہوئی تو فرمایا۔ ’’کُل من علیہا فان‘‘ (ہر ذی روح نے اس دنیا سے رخصت ہونا ہے) چنانچہ حکم ہوا۔ ’’میت کو احترام و توقیر کے ساتھ قبر میں دفن کیا جائے‘‘ خاک میں آسودہ روحوں کاالگ خاموش شہر ہوتا ہے۔ یہ شہر حضرت آدم سے لے کر قیامت تک آباد ہوتے رہیں گے اور اجڑتے رہیں گے۔ ملتان شہر جب سے آباد ہوا ہے اس وقت سے ہی خاموش شہر (قبرستان) پُر ہوتا آیا ہے۔
آج ہم ملتان کے ان گورستانوں کا ذکر کریں گے جو اب اپنے نشانات تک کھو چکے ہیں۔ صرف ان گورستانوں کے نام چند مخصوص کتابوں میں درج ہیں۔ میں نے کچھ نام تو چند بزرگوں سے سنے ہیں۔ باقی نام میں نے گورمکھی میں لکھی گئی کتاب ’’ملتان دے قدیم مندر‘‘ سے اخذ کئے ہیں۔ یہ کتاب 1892ء میں امرتسر سے شائع ہوئی تھی اور پنڈت شری واستودلاری رام نابھوی کی لکھی ہوئی ہے۔(۳) اگرچہ ہندو مؤلف نے اپنی معلومات کا ماخذ نہیں بتایا۔ ملتان کی تاریخ کے بارے میں اب تک جتنی کتابیں لکھی گئیں ان میں ملتان کے بزرگانِ دین ، سیاست دانوں، خانوادوں ، نواب زادوں اور بارگاہوں کے سجادہ نشینوں کے مزارات اقدس کا ذکر ہے یا پھر ’’ملتان ، عکس و تحریر‘‘ نامی تاریخ میں صرف عیسائیوں اور پارسیوں اور غیر مسلموں کے قبرستانوں کا ذکر ہے جب کہ ملتان سینکڑوں بار آباد ہوا اور اُجڑا ۔ اس شہر میں تمام مذاہب کے لوگ بستے رہے۔ آخر ان کے قبرستان تو ہوں گے۔ ہم نے صرف ان گورستانوں کا ذکر کیا ہے جن کی قبروں کے نشانات نابود ہیں۔
قبرستان جیون شاہ:
یہ قبرستان ملتان شہر کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ اس قبرستان سے پرے شمشان گھاٹ (ہندوؤں کے مردے جلانے کی جگہ) ہے جسے ملتان کے مسلمان حاکم نے بند کروادیا تھا جس پر ہندوؤں نے احتجاج کیا تو ان کے ایک درباری لالہ کھیم چند کی مداخلت سے یہ مسئلہ حل ہوا۔ اس قبرستان میں شیر شاہ سوری کا ایک بیٹا بھی دفن ہے جس پر فارسی زبان میں ایک کتبہ بھی نصب ہے جس پر صرف پہلا لفظ ’’آہ‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ باقی الفاظ معدوم ہیں اور آخری الفاظ ’’ پسر شیر شاہ سوری‘‘ نمایاں ہیں۔ اس قبرستان کے بارے میں روایت ہے کہ یہاں رات کے وقت ایک قبر سے روشنی باہر آتی ہے۔ روشنی دیکھنے والوں کا رات کے وقت تانتا بندھا رہتا ہے۔ ہندوؤں کا کہنا ہے کہ اس قبرستان کا مجاور رات کو اس قبر کے اندر موم بتی یا دیا جلادیتا ہے تو روشنی باہر آتی ہے۔
جہانگیری قبرستان:
یہ قبرستان ملتان کے قلعہ کے شمال میں واقع ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ جہانگیر نامی ایک بزرگ یہاں دفن تھا۔ جب راوی دریا نے اس قبرستان کو دریا بُرد کرنا شروع کیا تو اس بزرگ کے معتقدین نے ان کی میت کو نکال کر کسی دوسرے قبرستان میں لے جانا چاہا۔ چنانچہ جب قبر کو کشا کیا گیا تو خالی کفن پڑا تھا اور میت غائب تھی۔ لوک حیران تھے ۔ چنانچہ حاکم ملتان کو خبر کی گئی جو ذات کا کھتری تھا۔ اس نے حکم دیا کہ قبر کو دریا بُرد ہونے دو۔ صبح لوگوں نے دیکھا کہ دریا وہاں سے دور جا چکا تھا اور وہاں سے کفن غائب تھا۔
شاہی گوستان:
سورج دیوتا کے مندر کے جنوب میں قدیم بڑا مرگھٹ تھا جہاں ارتھیاں جلائی جاتی تھیں۔ اس کے اردگرد چار دیواری بھی تھی۔ محمد بن قاسم نے جب سورج دیوتا کو تاراج کیا تو اس شمشان گھاٹ کو قبرستان میں بدل دیا۔ اس کی سپاہ کا جو فوجی مارا جاتا یا کوئی فوجی مر جاتا تو اس کو وہاں دفن کیا جاتا۔ لوگ اب بھی روایت کرتے ہیں کہ اس قبرستان سے رات کے وقت رونے کی بہت سی آوازیں آتی ہیں۔
قبرستان ناگ شاہ:
یہ قبرستان سورج کنڈ مندر سے ایک فرلانگ دور ہے۔ اس قبرستان میں شیعہ حضرات اپنی میتوں کو دفن کرتے ہیں ۔ اس قبرستان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ جہاں بھی کوئی نئی قبر کھودی جاتی ہے وہاں سے پرانے مردوں کی ہڈیاں ملتی ہیں۔ بعض قبریں ایسی بھی ملی ہیں جن میں مردے کے ساتھ مٹی اور چاندی کے برتن جو میت کے سرہانے پڑے ہوتے ہیں، ملے ہیں جس سے قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ سب سے قدیم قبرستان ہے۔ ملتان شہر کے ایک بزرگ کی روایت ہے کہ رات کے وقت کئی قبروں سے آوازیں سنائی دیتی ہیں جس کی وجہ سے لوگ رات کے وقت میتوں کو یہاں نہیں دفناتے۔
بڑا قبرستان:
خضری دروازے سے جب اندر داخل ہوں تو سامنے ایک فصیل کے اندر بہت پرانا قبرستان نظر آئے گا۔ کہتے ہیں کہ جب سکندر اعظم نے ملتان پر حملہ کیا تو بڑے گھمسان کا رن پڑا۔ سکندر کے بارہ سو سپاہی مارے گئے چنانچہ کئی دن تک ان کی نعشیں پڑی رہیں۔ پھر شہر کے لوگوں نے ان سب نعشوں کو اٹھا کر اس قبرستان میں اجتماعی دفن کیا۔ اس قبرستان میں نوگزوں کی نو قبریں ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قدیم زمانے میں یہاں شمشان گھاٹ کو بند کر کے وہاں قبرستان بنا لیا ۔
قبرستان بابا فرید:
قلعہ ملتان سے تقریباً چار فرلانگ دور بابا فرید کا قبرستان ہے اس قبرستان کے بارے میں روایت ہے کہ بابا فرید کے خاندان کے کئی افراد یہاں دفن ہیں۔ اس وجہ سے یہ ’’قبرستان بابا فرید‘‘ کہلاتا ہے ۔ قبرستان کے ایک کونے میں ایک بہت بڑا پیپل کا درخت ہے جس کے نیچے بیٹھ کر بابا فرید گیان دھیان کیا کرتے تھے۔ یہ پیپل بابا جی کی یاد گاری پوتر نشانی ہے۔ گورو رام داس جی نے بھی اسی پیپل تلے بیٹھ کر تپسیا کی تھی۔ کہتے ہیں کہ ایک جوڑے (مرد اور عورت) نے رات یہاں خرابی کی جس سے اگلے روز اتنی بارش ہوئی کہ ہر (سیلاب) آگیا اور سارا قبرستان زمین بوس ہو گیا۔
قبرستان مِٹھا پیر:
ملتان شہر کی باہر کی فصیل کے ساتھ جنوب میں متصل دربار شاہ ولی ہے۔ قدیم بڑی بڑی پختہ اینٹوں کا ایک ڈھیر بھی نظر آتا ہے ۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے اس قبرستان میں کئی اوتار( صحابہ کرام) بھی دفن ہیں۔ سید بدر دین المعروف بابا ولی جس نے اپنی انگلی کے اشارے سے ظالم راجہ کو قتل کیا تھا بھی اسی قبرستان میں دفن ہے جب کہ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ بابا ولی کی ارتھی اس جگہ جلائی گئی تھی ۔ یہ قبرستان دریا بُرد ہو گیا تھا۔
مِٹھا پیر:
مِٹھا پیر کی قبر پر لوگ چڑھاوے چڑھاتے ہیں اور مرادیں مانگتے ہیں۔ ان لوگوں میں ہندو اور سکھ بھی شامل ہوتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ گورکن کسی ولی اللہ کی قبر کھودرہے تھے کہ اتنے میں مٹھا پیر آگئے اور قبر کے قریب آکر بیٹھ گئے۔ جب قبر تیار ہو گئی تو وہ اس کے اندر لیٹ گئے۔ گورکنوں کا خیال تھا کہ وہ قبر کی لمبائی ناپ رہے ہیں مگر وہ کافی دیر تک جب باہر نہ نکلے تو گورکنوں نے ان سے باہر نکلنے کی درخواست کی تو وہ نہ بولے اور نہ کوئی جنبش ہوئی۔ پھر پتہ چلا کہ وہ فوت ہو چکے ہیں۔
قبرستان گھوڑے شاہ:
اس قبرستان کے بارے میں عجیب کہانی بتائی جاتی ہے ۔ جب دریائے راوی نے ملتان شہر کا رخ کیا اور نواحی قصبوں کے مکانات بہا لے گیا تو متاثرہ لوگ راتوں کو جاگ جاگ کر گزارتے کہ پانی تھا کہ سمندر کی طرح دکھائی دیتا اور بڑھتا ہی جاتا ۔ اچانک رات کو سفید لباس میں ملبوس ایک گھوڑ سوار پانی پر گھوڑا دوڑاتا دکھائی دیا۔ لوگ ڈر کے مارے سہم گئے۔ کوئی گیان میں مصروف ہو گیا کسی نے کرامت قرار دیا۔ صبح ہوتے ہی دریا کا پانی اتر گیا اور گھوڑ سوار بمع گھوڑے مردہ پائے گئے۔ لوگوں نے اس ولی اللہ کو وہیں دفن کر دیا۔ اس طرح یہ قبرستان آباد ہو گیا۔ مسلمانوں میں اس طرح کے فرضی قصے عام ہیں۔
قبرستان زندہ پیر:
ملتان شہر کے عین وسط میں واقعہ زندہ پیر کا قبرستان بہت قدیم بتایا جاتا ہے ۔ حریص اورلو بھی لوگوں نے ان قبروں کی بے حرمتی کرتے ہوئے مسمار کر کے مکانات تعمیر کرنا شروع کر دئیے ۔ جب ملتان کے سربراہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے سارے مکان مسمار کر وا کر مالکان مکانات کو جیل کی سزائیں دے دیں۔ سندھ کے ہندو حاکم نے جب ملتان کو فتح کیا تو اس نے ان قیدیوں کی سزائیں معاف کر دیں اور سارا قبرستان مسمار کروا دیا اور وہاں مکانات تعمیر کرنے کا حکم دیا جس پر مسلمانوں نے شدید ردِ عمل ظاہر کیا۔ اس ردِ عمل میں ہندوؤں اور سکھوں نے بھی حصہ لیا۔
قبرستان شیخ سادن شاہ:
یہ قبرستان دریائے چناب کے کنارے بستی سرور والا کے قریب واقع ہے۔ اس قبرستان میں شیخ سادن کا مقبرہ بھی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ ملّاں قبیلے کے لوگ دریا کے کنارے لکڑیاں جمع کر کے جب بھی اپنے گھر بناتے تھے تو رات کو ان گھروں کو آگ لگ جاتی تھی اور ڈنگرڈھور جل کر مر جاتے۔ شیخ سادن سے لوگوں نے دعا کروائی تو مکانوں کو آگ لگنا بند ہو گئی (شیخ ساد ن کا مقبرہ اب بھی وہاں موجود ہے۔(راقم)
ان کے علاوہ ملتان کے نواحی علاقے میں کئی چھوٹے چھوٹے قبرستان ہیں جن کے نام تو گنوائے جا سکتے ہیں مگر تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں۔ البتہ جب بھی ملتان میں مسلمان حاکم آیا اس نے مندروں کو منہدم کیا۔ شمشان گھاٹ بند کروائے اور غیر مسلمانوں سے نارواسلوک کیا۔ قبرستھانوں(قبرستانوں) کے نام یہ ہیں۔
قبرستان جند وڈا اندروں شہر، قبرستان حسن پروانہ نواح ملتان، قبرستان مائی سواگ سہاگ محلہ مائی مہربان، لنگاہ قبرستان بیرون دولت گیٹ ، خاندانی قبرستان اندرون پاک گیٹ، قبرستان جند وڈا اندرون بوہڑ گیٹ( مصنف نے اس کو ابوہر گیٹ لکھا ہے) آدم خانی قبرستان اندرون لوہاری گیٹ، قبرستان شہر خاموشاں بستی بچہ کے باہر ، سڑک کے ساتھ پل والہ قبرستان نزد پل مردہ خانہ،بھلے شاہ کا قبرستان، قبرستان پیر عمر شاہ واقعہ محلہ نندر والا
۱۔ Shaphard and Curry Oceanography Vol:IV Laden 1968 P-31
۲۔ تلسی رام ، پنڈت،ہندومت کی بھومکا، (ہندی)امرتسر 1902ء، پتلی گھر مارگ، صفحہ 61
۳۔ دلاری رام نابھوی ،پنڈت، ملتان دے قدیم مندر، (گورمکھی )امرت سِر، 1892ء، پتلی گھر مارگ، صفحہ121