ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی چند سالوں کے دوران نیا مکتبہ ملتان کے وسیلے سے فکر و نظر کی نئی تحریکوں سے مانوس ہونے کا موقع ملا تو ایک دن حسن پروانہ روڈ پر بھٹہ بلڈنگ میں نیشنل عوامی پارٹی کے دفتر میں جا پہنچا۔ اسے دفتر کہنا تو مناسب نہیں۔ چھ سات کارکن تعزیت کے لئے آنے والوں کی طرح ایک دری پر براجمان تھے، یہاں مجھے پہلی بار اشفاق احمد خان، حشمت وفا، راؤ سلیمان اور جہاں تک یاد ہے اشفاق سلیم مرزا صاحب سے بھی ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس زمانے میں بڑی گاڑیوں اور موبائل فون لیپ ٹاپ وغیرہ کا تو رواج نہیں تھا، بلکہ یہ رواج کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اور شاعر و ادیب بھی پیدل چلتے ہوئے فکر سخن میں مشغول ہو جاتے تھے۔
کچھ عرصہ بعد جب کہ میں ولایت حسین کالج میں بی۔اے کا طالب علم تھا تو دوستوں کے ساتھ ڈیرہ اڈا کے ایک نئے ریستوران میں اشفاق احمد خاں اور حشمت وفا صاحب سے تفصیلی مکالمے کا موقع میسر ہوا۔ وفا صاحب اس زمانہ میں امروز میں سب ایڈیٹر کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ اور میں مزید آئندہ دو تین برسوں میں اس اخبار کے علاوہ نیا مکتبہ اور رائٹرز گلڈ کے تنقیدی اجلاسوں کے ناطے اس دور کے ملتان کی ادبی و تہذیبی فضا سے بھی مانوس ہو چکا تھا۔
روزنامہ امروز ایک اخبار نہیں بلکہ تہذبیی، سیاسی، ثقافتی سرگرمیوں کا زندگی سے بھرپور دبستان بھی تھا۔ لیکن اب تو وہ عمارت بھی معدوم ہو چکی جس کی راہداری میں دائیں بائیں جانب پرنٹنگ مشین کی کھٹا کھٹ سنائی دیتی اور بائیں جانب ایک کمرے میں مسعود اشعر ادارت کی ذمہ داریاں سرانجام دینے کے علاوہ ادبی سرگرمیوں کی تحریک کا باعث بنے رہتے، میں کتابوں کی دنیا سے تخیل میں سوالات سمیٹے یہاں آنکلتا اور کئی ادیبوں، شاعروں کے علاوہ امروز کے دیگر کارکن دوستوں سے بھی ملاقات ہو جاتی۔ اس زمانے میں منو بھائی، شبیر حسین اختر، سلطان احمد، مسیح اللہ جام پوری، نوشابہ نرگس، سعید صدیقی، رشید ارشد سلیمی، حنیف چوہدری، مرزا ابن حنیف، اقبال ساغر صدیقی، ایم اے شمشاد بھی اسی ادارے سے وابستہ تھے۔ اسی دفتر میں وفا صاحب کی آمد ہوتی تو وہ کھدر کے شلوار قمیض میں ملبوس نظر آتے، اخبار کے مطالعے کے ساتھ ایک دو مکالمے بھی مخصوص پنجابی اسلوب سے سناتے، اور جب کبھی جمہور نظر آجائے تو پھر ظرافت جگت اور لطائف سے محفل جگمگا جاتی۔ وفا صاحب دوسری منزل پر اپنے کمرے میں چلے جاتے۔
اسی دوران صدر ایوب خان کے جشن ترقی کے خلاف ایک تحریک کا آغاز ہوا، اور پھر بھٹو صاحب اور مولانا بھاشانی کے جلوسوں اور جلسوں کی آمد ورفت شروع ہوئی۔ ایک دن ملاقات کے دوران وفا صاحب نے بتایا کہ انہوں نے دوستوں کے ذوق مطالعہ کی پذیرائی کے لئے ارسلان سٹریٹ میں اپنی رہائش گاہ پر بھی ترقی پسند کتابوں کا ایک شوروم بنایا ہے لیکن اس شوروم میں کبھی کتابوں کا گاہک نظر نہ آیا۔ جو ترقی پسند تھے وہ صرف ”مفت“ کتابیں پڑھنے کے اہل تھے۔ سو یہ شوروم بتدریج ایک سیاسی مکالمے کا وسیلہ بن گیا۔ اس دوران سوشلزم اور اسلامی سوشلزم کی بحث کا آغاز ہوا اور اے کے شومار صاحب کا مضمون پڑھ کر میں نے بھی انتہائی محنت سے ایک مقالہ تحریر کیا جو کہ لاہور کے روزنامہ امروز کے ادارتی صفحے پر شائع ہوا۔ اس محنت و کاوش کے نتیجے میں مجھے ایم اے اردو کے ایک پرچے میں خاطر خواہ ناکامی حاصل ہوئی۔
ایک دن مسعود اشعر صاحب سے امروز میں اپرنٹس شپ کی بات کی تو اخبار کے دو اندرونی صفحات کے لئے خبروں کی ترتیب اور سرخیاں نکالنے کے ساتھ حشمت وفا صاحب کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ خوش مزاجی سے کاتبوں اور دوستوں کو بھی مخاطب کرتے اور خبریں بناتے ہوئے کچھ کام میرے سپرد بھی کرتے، اور صفحات میں ترتیب کے آخری مراحل میں مجھے سرخیاں بنانے کی تجویز دیتے لیکن میری زیادہ دلچسپی بیرونی صفحات سے تھی۔ شام کو امروز کے دفتر میں ٹیلی پرنٹر کی ٹک ٹک کے ساتھ خبروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوتا اور میز پر ایک بڑا ریڈیو بھی پڑا ہوتا جسے آن کرتے تو نزع کی حالت سے دوچار مریض کی طرح کراہنے لگتا۔ لیکن خبروں کی ترسیل کا وسیلہ بھی تھا۔
حشمت وفا صاحب کی اصل شخصیت اس وقت سامنے آئی جب 77ء کے مارشل لاء کے بعد کارکنوں کے تبادلوں، برطرفیوں اور پریس ضابطوں کے ردعمل میں ایک احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا اور کارکنوں نے امروز کے دفتر کے سامنے ایک کیمپ لگا دیا۔ منہاج برنا نثار عثمانی اور ان کے ساتھ پریس کے کارکنوں کی احتجاجی تحریک کو مؤثر بنانے کے لئے دورے کرتے رہتے۔ اور اس کیمپ میں روزانہ ہی مزدور تحریک کے کارکن، طلبا اور کئی آنے والے کارکن ساتھیوں کو بہت تندہی سے صحافیوں کے مسائل سے آگاہ کرتے اور پھر روزانہ کی کارکردگی کی رپورٹیں بنائی جاتیں، قراردادیں پڑھی جاتیں اور انہیں متعلقہ اداروں کو ارسال بھی کیا جاتا۔ ایک بار یادداشت تیار کر کے شام کے وقت چند دوستوں کے ہمراہ ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کے لئے پیدل روانہ ہوئے، میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ انہوں نے اچانک چلتے ہوئے طبیعت کی خرابی کی شکایت کی تو دوستوں نے انہیں سہارا دیا اور کچھ دیر آرام کا مشورہ دیا۔ یہ غالباً دل کے عارضے کا سگنل تھا۔ لیکن ان کی توجہ تو یادداشت کے متن پر مرکوز تھی۔
پھر ایک دن اخبار میں خبر پڑھی کہ حشمت وفا بذریعہ ٹرین اپنے سسرال محراب پور جاتے ہوئے راستے میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔
فیس بک کمینٹ