ملتان : پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان میں نوجوان لڑکی ثانیہ زہرہ کی دل دہلا دینے والی موت کی تحقیقات جاری ہیں تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ خودکشی کا واقعہ ہے۔
نو جولائی کی صبح نو بجے 20 سالہ ثانیہ زہرہ کی لاش ان کے سسرال کے گھر سے ملی تھی۔ ثانیہ زہرہ کی لاش ملنے کے بعد انھیں بغیر پوسٹ مارٹم کے دفنا دیا گیا تھا تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حکم پر سنیچر کے روز ثانیہ زہرہ کی قبر کشائی کر کے ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ملتان کے انسداد تشدد مرکز برائے خواتین کی منیجر منزہ بٹ نے میڈیا کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ کی خصوصی ہدایت پر وہ خود بھی ثانیہ زہرہ کی قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کے عمل کے دوران موجود رہیں۔انھوں نے کہا کہ ’تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے اور اب فرانزک رپورٹ کا انتظار ہے۔‘
ثانیہ زہرہ کے والد کا الزام ہے کہ ان کی بیٹی کے قتل کو خودکشی کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ ان کی مدعیت میں 11 جولائی کو ثانیہ کے شوہر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ثانیہ زہرہ کی موت نے ملک میں خواتین کی حالت زار اور گھریلو تشدد کے حوالے سے بحث کو ایک بار پھر متحرک کر دیا ہے۔ ملتان میں عورت مارچ کی انتظامیہ نے اتوار کے روز ثانیہ زہرہ کی موت کے خلاف شہر میں احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے۔
’جسم پر تشدد کے کوئی نشان نہیں، کوئی اعضا فریکچر نہیں‘
ڈی آئی جی ملتان صادق علی ڈوگر نے اس کیس پر بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ خودکشی کا واقعہ ہے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہم نے والدین کو اسی وقت پوسٹ مارٹم کرانے کا کہا تو انھوں نے ایف آئی آر درج کرانے اور پوسٹ مارٹم سے انکار کر دیا۔‘
’میں نے ان کے گھر جا کر ان سے کہا کہ آپ ایف آئی آر درج کرائیں لیکن فیملی نے انکار کر دیا اور لاش کو دفنا دیا گیا۔‘ڈی آئی جی ملتان نے بتایا کہ سنیچر کے روز قبر کشائی کے بعد ثانیہ زہرہ کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔
’ابتدائی میڈیکل رپورٹ میں چند چیزیں واضح ہیں: جسم پر تشدد کے کوئی نشان نہیں، کسی اعضا میں کوئی فریکچر نہیں جبکہ موت کی وجہ گلا گھٹنا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر یہ کہا جا رہا ہے کہ ثانیہ کو مار کر لٹکایا گیا لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ موت کی وجہ گلے کا گھٹنا ہے۔
’ہم نے معدے سے نمونے بھی لیے ہیں تاکہ پتا چل سکے کہ ثانیہ زہرہ کو مرنے سے پہلے کوئی نشہ آور چیز یا زہر تو نہیں دیا گیا تھا۔ ثانیہ کے ناخنوں کے نمونے لیے گئے ہیں، پھندے کے لیے جو رسی استعمال کی گئی، اس کی بھی جانچ کی جا رہی ہے، اگر کسی اور نے پھندا دیا تو اس کا بھی پتا چل جائے گا۔‘
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’نشہ آور چیز کھلا کر یا زہر دینے سے متعلق رپورٹ ایک ہفتے میں آ جائے گی جبکہ ڈی این اے رپورٹ 20 دن تک آئے گی۔‘
ثانیہ زہرہ کے والد سید عباس شاہ نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ ان کی بیٹی کو قتل کر کے اسے خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
’پولیس تحقیقات کر کے مجھے یہ بتائے کہ میری بیٹی کا قتل ہوا یا اس نے خود کشی کی اور اگر اس نے خود کشی بھی کی ہے تو اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔‘
انھوں نے اس بات پر بار بار زور دیتے ہوئے کہ ان کی بیٹی کو قتل کیا گیا، کہا کہ ’پولیس تحقیقات کرے کہ سسرال والوں نے ایسا کیا کیا کہ میری بیٹی خود کشی پر مجبور ہو گئی۔ مجھے اپنی بیٹی کی موت کی صاف اور شفاف تحقیقات چاہیے۔‘انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے سید عباس شاہ نے کہا کہ ’جنوبی پنجاب میں لڑکیوں کو کبھی تیزاب پھینک کر تو کبھی آگ لگا کر مار دیا جاتا ہے، ان تمام واقعات کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ بیٹی کے سسرال میں تحفظ کے لیے قانون بنایا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ 9 جون کو ہوا مگر بہت زیادہ احتجاج کے بعد پولیس نے ایف آئی آر 11 جون کو درج کی لیکن ابھی تک ملزم، اس کے اہلخانہ اور گھر میں سے کسی بھی ملازم تک کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب ڈی آئی جی ملتان صادق علی ڈوگر کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے پہلے ہی دن سسرال سے لوگوں کو حراست میں لیا تھا لیکن ثانیہ کے والد کی درخواست پر انھیں رہا کر دیا گیا۔
’انھوں نے کہا کہ ہم نے ایف آئی آر نہیں کرانی، انھیں چھوڑ دیا جائے تو ہم نے انھیں چھوڑ دیا۔ پھر سوشل میڈیا پر اتنا شور مچا کے وہ لوگ ڈر کر کہیں بھاگ گئے ہیں لیکن ہم انھیں پکڑنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔‘
اگرچہ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تشدد کے نشانات ظاہر نہیں ہوئے تاہم ثانیہ کے والد کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق جب ثانیہ زہرا کی لاش ان کے سسرال کے گھر سے ملی تو ان زبان کٹی ہوئی تھی اور جبڑا ٹوٹا ہوا تھا۔
ایف آئی آر کے مطابق ثانیہ زہرہ کی ٹانگوں پر رسی سے باندھنے کے نشانات کے علاوہ تشدد کے بھی نشانات پائے گئے۔درج ایف آئی آر کے مطابق ثانیہ کے دائیں رخسار پر خون کے جمنے کے نشانات کے ساتھ ساتھ دائیں آنکھ اور کہنیاں بھی زخمی تھیں۔
ثانیہ زہرہ کے والد کے مطابق ان کی بیٹی موت کے وقت حاملہ تھیں۔
ایف آئی آر میں ثانیہ کے والد نے الزام عائد کیا کہ ان کی بیٹی کا شوہر اکثر اپنی بیوی پر تشدد کرتا تھا اور مار پیٹ کر کے انھیں میکے بھیج دیتا تھا، اسی دوران ثانیہ نے اپنے شوہر کے خلاف فیملی کورٹ میں نان و نفقہ اور حق مہر کا مقدمہ بھی درج کرایا لیکن لیکن بچوں کی خاطر صلح کر لی۔
ثانیہ زہرہ کے والد سید علی عباس شاہ نے درج ایف آئی آر میں یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ ان کی بیٹی کا شوہر ان پر دباؤ ڈالتا تھا کہ ثانیہ کے حصے کی جائیداد ان کے حوالے کی جائے ورنہ وہ ثانیہ کو جان سے مار دے گا۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ