مہینے تو اور بھی بہت ہیں پر جو کمائی رمضان میں ہوتی ہے پھر پورا سال نہیں ہوتی ۔۔ یکم رمضان کا آغاز ہی بینکوں سے زکوٰ ۃ کی کٹوتی سے ہوتا ہے اور اس کے بعد ” مانگنے ” کا وہ طوفان اٹھتا ہے کہ نہ کوئی مسجد اس سے محفوظ ، نہ کوئی مدرسہ، نہ کوئی ہسپتال اس سے محفوظ، نہ کوئی این جی او اس سے محفوظ … بس ہر طرف مانگنے کا شور ۔۔ لگتا ہے پورا ملک ہی ” منگتا ” بن گیا ہے ….اس کے بعد نمبر آتا ہے اشیاۓ خورد و نوش کا جو کہ رمضان آتے ہی دو گنا بلکہ تین گنا قیمت میں دستیاب ہوتی ہیں ۔۔ لگتا ہے مارکیٹ کا ہر دوکان دار یکم رمضان سے ” لٹیرا ” بن گیا ہے ۔۔ اب باری ہے عید کی تیاری کی … جو کپڑا ، جوتا عام دنوں میں نارمل ریٹس پر مارکیٹ میں دستیاب ہوتا ہے رمضان شروع ہوتے ہی ان کی قیمتیں ڈبل ہوجاتی ہیں …( آخر یہ لوٹ مار رمضان میں ہی کیوں ؟کیا ہم ایک اسلامی ملک میں نادانستہ طور پر توہین رمضان کے مرتکب تو نہیں ہورہے اور اس کے باوجود کہ یکم رمضان سے پہلے ہی شور مچانا شروع کردیتے ہیں کہ ” سلامتی اور رحمتوں ” کا مہینہ شروع ہونے والا ہے جس میں شیطان جکڑ دیا جاتا ہے ۔۔ اگر شیطان جکڑ دیا جاتا ہے تو یہ شیطانی عمل کیسے سرزد ہوتے ہیں ؟ذرا سوچیے ؟
فیس بک کمینٹ