کود پڑا آتش نمرود میں عشق۔۔۔۔
سندھ اور پیارے پاکستان میں انتخاب لڑنا اور اسکی مہم جہاں لاکھوں کروڑوں اور کہیں ایک دو ارب روپوں تک کا کھیل ہے وہاں کچھ سر پھرے اور سرپھریاں ہیں جو ایسی آتش نمرود میں کود پڑے ہیں۔ وڈیروں، سرداروں، بھوتاروں، وزیروں، ادوں اور ادیوں، بڑی پارٹیوں اور عظیم لوٹوں کے جہان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ بالکل تیرے دوارکھڑا اک جوگی کے مصداق۔
جہاں پراٖڈورینج گاڑیوں کی پچھلی سیٹوں پر بدنام زمانہ باڈٖی گارڈوں کے ساتھ اجرکوں چادروں کے ڈھیر رکھے ہیں کہ وڈیرے محلے محلے قریے قریے گاؤں گاؤں نکل کر کھڑے ہونے کو ہیں کہ وہ پانچ سال پہلے ہو چکی فوتگیوں کی بھی تعزیتیں کریں گے تو مر گئے ہوئے ڈھور ڈنگر کا بھی افسوس ۔ سندھی میں کہتے کہ اگر انتیس کالی راتیں چوروں کی ہوتی ہیں تو ایک رات بھاگیوں یا مالکوں کی بھی ہوتی ہے۔ جمہوریت میں نقصان یہ ہے کہ پانچ سالوں میں ایک دن ووٹروں کا بھی آتا ہے۔ پانچ سالوں سے یہ وکھرے ٹائپ کے گمشدہ اپنے ووٹروں کے پاس واپس ضرور آتے ہیں۔ سوائے بڑے پھنے خانوں اور خان خانانوں کےجن کے منشی کا پیغام ہی عام خلق خدا کیلئے ’’تھوڑی لکھائی زیادہ سمجھنا ‘‘ ہوا کرتا تھا لیکن اب نہ رہا خلیل خان اور نہ ہی رہی اسکی فاختائیں۔
فاختاؤں پر یاد آیا نہ رہی جمہوری تحریکیں اور نہ رہی جمہوریت کی فاختائیں۔ لیکن ایسے گھاگ انتخابی عقابوں کے حلقوں میں ایسی فاختائیں اپنے پر تولنے لگی ہیں۔ مخالف تند ہواؤں کے برخلاف۔
ایسی ہی ایک فاختہ لاڑکانہ کے ڈوکری باڈہ حلقے میں سابق استاد لیاقت میرانی بھی نکل کر آئے ہیں۔ ہاتھ میں میگا فون پکڑے یہ سفید پوش، محنت کش خاندان کا استاد لیاقت علی محلوں گلیوں بازاروں میں کبھی پیدل تو کبھی تانگے تو کبھی گدھا گاڑی پر اپنی انتخابی مہم چلا رہا ہے۔ ’’عوام بھی غریب تو امیدوار بھی غریب‘‘ استاد لیاقت کا مشہور ہو کر چلنے والا نعرہ ہے۔ ’’لوگو اب کے بار دھوکے بازوں سے دھوکہ نہ کھانا۔ ان کے جھوٹے وعدوں میں نہ آنا جن وعدوں میں آنے کی وجہ سے تمہارے یہ حالات ہوئے ہیں۔‘‘ موہن جو دڑو کی سرزمین کا یہ سب سے قدیم ترین باسی قبیلے کا فرد لیاقت میرانی۔ یہ مسکینوں کا ہمدرد ماسٹر کہلانے والا استا د لیاقت علی بھی ڈوکری تو کبھی باڈہ تو کبھی بلہڑیجی۔ یہ انڑوں، ابڑو، آریجو، اور سب سے طاقتور بھگیو وڈیروں کے حلقے میں کھڑا امیدوار۔ اس کے دوست یار اسکی مہم کے اخراجات اٹھا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسے طاقتوروں کے کچے پکے میں انکے ووٹروں کو باغی کر رہا ہے جہاں کہا جاتا ہے آسمان پر خدا نیچے زمین پر خوفناک جنگلی جانور ہیں یا بھوتار وڈیرے سردار۔ لیکن باڈہ اور ڈوکری میں ایک بڑی تعداد متوسط اور محنت کش طبقات سے تعلق رکھنے والے کل اور آج کے باشعور سیاسی کارکنوں کی بھی ہے۔ ایک طویل فہرست ہے۔یہاں جہاں چاول کے کارخانوں اور بیڑی باندھنے کے مزدوروں کی یونینیں ضیا کی آمریت میں بھی تھیں ۔ اور ایم آر ڈٖی کی تحریک کا بھی اچھا خاصہ کیڈر تھا، جہاں کے کچھ کامریڈ اب ملامتی صوفی ہیں۔ لیاقت میرانی نے ماضی قریب میں سندھ میں غیرحاضر یا گھوسٹ ٹیچروں کے خلاف بھی بڑی مہم چلائی تھی۔
کل وہ گیریلو گاؤں کے تھانے کے باہر کسی عوامی مسئلےپر دھرنا دیئے ہوئے دیکھا گیا لوگوں کے ساتھ مٹی پر بیٹھا ہوا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ علاقے کا کوئی وڈیرہ اسی طرح علاقے کے لوگوں کے ساتھ مٹی پر بیٹھ کر دکھائے۔ میں استاد لیاقت میرانی کو سندھ کا جے سالک کہوں گا۔
اسی طرح انقلابی گیت کار، لکھاری، پی ٹی وی کا سابق اور معروف پروڈیوسر اور آج کل صوفی بیدل مسرور بدوی بھی کراچی شرقی کے سچل گوٹھ سمیت اس علاقے سے بطور آزاد امیدوار کھڑا ہوا ہے۔ بیدل جو بہت عرصے سے کراچی کے اس متوسط طبقے کی اکثر سندھی آبادی پر مشتمل سچل گوٹھ والے علاقے میں سماجی و فلاحی کاموں میں مصروف رہا ہے۔ جس میں اپنی مدد آپ کے ذریعے علاقے میں چوکیداری سسٹم بھی ہے۔ لیکن کچھ عرصہ قبل بیدل کے اپنے گھر ڈاکہ پڑا اور اس کے کچھ دنوں بعد سندھ میں نوجوانوں اور باشعور لوگوں میں انتہائی عزت سے دیکھے جانیوالے بیدل پر کسی لوفر نے علاقے میں بندوق بھی تانی ۔ لیکن بیدل اپنے لوگوں اور سندھ سے ہر قیمت اور حالات میں ثابت قدم رہا۔ پھر وہ تونے سندہ کھپائی زرداری تحریک ہو کہ سندھ کی تقسیم کے خلاف ادیبوں شاعروں کی تحاریک ہوں۔ بیدل اپنے گیتوں کے مصداق ہے تند لڑے تلواروں سے بنا ہوا ہوتا ہے۔
اسی طرح دارالحکومت اسلام آباد سے عوامی ورکر ز پارٹی کی امیدوار عصمت شاہ جہان خٹک امیدوار ہیں۔ جو چائنا کٹنگ اور رقبوں اور ہائوسنگ سوسائٹٰیوں والی مافیاؤں کے بیچ تبدیلی لانے کا نعرہ لگا کر نکلی ہیں۔ عصمت شاہجہان عوامی حقوق کی جدوجہد میں بہت ہی چھوٹی عمر سے شامل ہے۔شاید خیبر پختونخوا میں انیس سو اسی کی دہائی میں آپ نے خواتین کے حقوق کی تنظیم دیوا کا نام سنا ہوگا۔ انہی دنوں میں عصمت شاہ جہان دیوا اور بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ رہی۔ اور آج بھی بائیں بازو کی سیاست کر رہی ہے۔ اسلام آباد کے مضافات اور کچی بستوں سے لیکر پوش سیکٹروں میں عصمت نے اپنی مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔ عصمت نے اپنی مہم کے اخراجات عوام سے دس روپے چندے سے شروع کر رکھی ہے۔ اسی طرح تھرپارکر میں شاید تلسی بالانی بھی نکلی ہیں۔
میں نہیں کہہ رہا کہ غریبوں کے مسائل کے حل کیلئے ضرورری نہیں کہ غریب ہی انکا مسیحا بن کر ابھرے گا۔ کیونکہ اب تک یہ جو عوام دشمن سول یا غیر سول نوکر شاہی یا حکمران بھی بدعنوان نکلے ہیں ان میں کافی کا تعلق غریب خاندانوں سے تھا۔ کئی پولیس عملدار جو وڈیروں چوہدریوں کو پولنگ جتوائیں گے۔
لیکن یہ جو امیر ترین سیاستدان ’’آئو غریب غریب کھیلیں‘‘کا ناٹک کرتے ہیں ،کرتے تھے ان کے ناٹک سوشل میڈیا کے زمانے میں ٹھپ ہونے کو ہیں۔ یہ فاختائیں ان عقابوں کے اسٹیٹس کو کو چیلنج کرتی نظر آ رہی ہیں۔
تو پس عزیزو محض زرداری اور بلاول کے گوشوارے تو دیکھو چاہے وہ ان کی اصل ملکیت کا عشر عشیر بھی نہیں بتارہے۔ میں نہیں جانتا کہ سندھ میں پھر کوئی ایسا شیخ عبدالمجید جیسا مستانہ کب پیدا ہوگا جو پھر سر شاہنواز بھٹو جیسوں کو شکست فاش سے دو چار کرے گا؟
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ