ایسا لگتا ہے سارا سندھ غیبی خان چانڈیو جاگیر ہے اور اس میں کشمور سے کراچی تک انسانی شکار گاہ۔
گزشتہ ہفتے سترہ جنوری کو جو دن دہاڑے بیچ میہڑ شہر کی گل کالونی میں دو تھانوں اور ڈی ایس پی کے دفتر سے چند سو قدموں پر تین قتل ہوئے ہیں اسطرح کے واقعات سے تو یہی لگتا ہے۔
سترہ جنوری کی صبح نو بجے ڈی ایس پی آفس اور تھانے کے قریب، چشم دید گواہوں کے مطابق، لینڈ کروز اور ایک کار آکر رکی ۔ کار سے اترنے والے افراد جو خود کار آٹو میٹک ہتھیاروں سے مسلح تھے، نے اپنے ہتھیاروں کے منہ چانڈیو تمندار کونسل کے صدر مختار چانڈیو، اسکے جواں سال بھائی قابل چانڈیو اور والد کرم اللہ چانڈیو پر کھول دئیے۔ باپ اور مختار موقع پر ہی جاں بحق جبکہ شدید زخمی جواں سال قابل چانڈیو لاڑکانہ اسپتال میں دم توڑ گیا۔ اس فائرنگ میں حملہ آوروں میں شامل انکے ہی کراس فائر سے یا مقتولین کی مدد کو آنے والوں کی فائرنگ سے نامی گرامی سابق ڈاکو غلام قادر چانڈیو بھی ہلاک ہوگیا۔ غلام قادر چانڈیو سندھ کا وہ خطرناک ڈاکو تھا، جو انیس سو چوراسی میں سکھر جیل پر حملے اور اسکے توڑے جانے میں بھی ملوث رہا تھا۔ غلام قادر چانڈیو کہا جاتا ہے کہ چند ماہ قبل جیل سے رہا ہو کر آیا تھا اور میہڑ میں چانڈیو تمندار کونسل کے چیئرمین مختار چانڈیو اسکے بھائی اور والد پر حملہ آور قاتل جتھے میں شامل تھا۔ اب مقتولین کے پوتے اور بھائی سمیت متاثرہ خاندان کے سات افراد پر ایک حملہ آور کے قتل کی ایف آئی آر درج ہے جبکہ تینوں مقتولین کے قاتل تا حال آزاد ہیں کیونکہ ان میں حملہ آوروں کو مبینہ ترغیب دینے والا چانڈیو قبائل کا سردار پی پی رکن صوبائی اسمبلی سردار خان چانڈیو اور اسکا بھائی برہان احمد چانڈیو بھی ایف آئی آر میں نامزدہیں۔ برہان چانڈیو کیلئے مقتولین کے ورثا کا دعویٰ ہے کہ وہ حملےکے وقت موجود تھا اور اپنی لینڈ کروزر کا شیشہ نیچے کر کے حملہ آوروں کو ہدایات دیتا دیکھا گیا ۔جبکہ برہان کا کہنا ہے کہ وہ واقعہ والے دن بدین کے قریب گولاڑچی میں فاضل راہو کی برسی پر بلاول بھٹو کے جلسے میں شریک تھا۔ مقتولین کا سیاسی تعلق بھی حکمران جماعت پی پی پی سے تھا جن میں کرم اللہ چانڈیو پی پی پی یونین کونسل کا چیئرمین اور اسکا جواں سال بیٹا قابل چانڈیو پی پی ٹکٹ کونسل کا منتخب رکن تھا۔
چانڈیو قبیلے کی ایک شاخ کے اراکین اور میہڑ شہر کے ان معززین کو کیوں قتل کیا گیا؟ بظاہر تیس پینتیس سالہ پرانی دشمنی (جس کا تصفیہ بھی ہو گیا تھا )کے پیچھےسندھ کا ہر بچہ اور بالغ جانتا ہے کہ ان تینوں کو محض اس لیے قتل کیا گیا کہ وہ چانڈیو قبائل و برادری پر صدیوں سے قائم سرداری اور قبائلی چانڈیو جاگیر کے سلطانوں کی سلطنت کو چیلنج کرنے لگے تھے۔ مقتولین کے ہمدرد بلکہ غیر جانبدار لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ انکو چانڈیو سردار کی ایما پر قتل کیا گیا کیونکہ انہوں نے چانڈیو قبائل کو اپنے مسئلے آپ حل کرنے کو ’’چانڈیو تمندار کونسل‘‘ تشکیل دی ہوئی تھی اور اسے چانڈیو برادری میں منظم کر رہے تھے، برادری کی چانڈیو قبائل کی دیگر شاخوں اور پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ مل کر۔ انہیں خدشہ ہے کہ اب اس طرح کی مزید وارداتیں ہو سکتی ہیں۔
غیبی چانڈیو جاگیر نے متوسط طبقے یا چھوٹے سفید پوش لیکن پڑھے لکھے چانڈیو لوگوں کے ابھرنے کو اپنے ڈوبنے سے تعبیر کیا۔ ’’ تازہ تہرے قتلوں سمیت دو ہزار تیرہ سے اب تک (جب سے چانڈیو جاگیر کے سردار جو کہ اس سے قبل آمر مشرف کے نظام کا بھی حصہ تھے اب پی پی پی ٹکٹ پر انتخابات جیت کر آئے ) چانڈیو قبائل کے چھتیس افراد قتل ہو چکے ہیں۔‘‘ مجھے وارہ سے تمندار کونسل میں سرگرم ایک مقامی چانڈیو سیاسی رہنما بتا رہا تھا۔ یہ لوگ مختلف کھڑے کرائے گئے یا بڑھاوا دلائے ہوئے تنازعوں کی آڑ میں قتل کروائے گئے کہ انکی زمینوں پہ قبضے کئے جائیں۔ زمینوں پہ قبضے سندھ میں جاگیرداروں وڈیروں اور اسکے پنٹروں اور پروردہ عناصر کی سیاسی اکانومی ہے۔ یہاں تک کہ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی کی زمینوں پر بھی اسی جاگیر کی قبائلی سیاسی طاقت سے قبضے کیے گئے ہیں تو عام اور بے پہنچ شہری اور دیہاتی یا عام غریب اورمتوسط طبقے کا چانڈیو کیا حیثیت رکھتا ہے۔ زمینوں پر قبضے، لوگوں کو قتل کروانا، جھوٹے مقدمات یہ جاگیرداروں اور سرداروں کے روزمرہ کے معمولات ہیں۔ اسی طرح مجھے چانڈیو معززین نے ٹیلیفون پر بتایا کہ چانڈیو قبائل کے کافی غریب اور سر پھرے لوگوں یا مخالفین پر پولیس کے ذریعے جھوٹی ایف آئی آرز کٹوائی گئی ہیں جن میں فریادی زیادہ تر خود ریاست ہے۔ اس کیلئے اگر ایسے بھی لوگ ہیں جنکے وہ نام ولدیت نہیں بھی جانتے تو ووٹر فہرستوں سے نام دیکھ کر جھوٹی اور اندھی ایف آئی آرز کٹوائی گئی ہیں۔ مجھے مقامی صحافیوں نے بتایا کہ انکی تحقیق کے مطابق چانڈیو جاگیر میں کاغذات میں دو میلوں کی پٹی پر مشتمل تیس ہزار ایکڑ زمین کو ریکارڈ پر محض چار سو پینتالیس ایکڑ دکھایاگیا۔ کیونکہ ان زمینوں میں تیل اور گیس کے ذخائر ہیں۔ صرف سات سو ایکڑ کی مزید پٹی پر تیل اور گیس کی رائلٹی سے کوئی بھی ترقیاتی کام نہیں کرائے گئے۔ تیل گیس کی فیلڈز پر مقامی قبائل اور برادری کے لوگوں کو روزگار کی فراہمی اور زمینوں پر قبضوں کے خلاف خود کو منظم کرنے کو چانڈیو تمندار کونسل بنائی گئی جس نے چانڈیو جاگیر اور اسکے سرداروں کو برہم کردیا۔ جیسے مقتولین کی انکی زندگی میں میہڑ میں ڈیرے پر تمندار کونسل کے ایک اجلاس کی وڈیو میں سنا جا سکتا ہے۔
یہ پہلی بار ہوا ہے ڈیڑھ دو سو سالہ تاریخ میں چانڈیو قبائل کے کچھ سر پھرے لیکن پڑھے لکھے اور سیانے لوگوں نے چانڈیو جاگیر کے تسلط سے انحراف کیا۔ جسکی پاداش میں تین اہم معززین اپنی جان گنوا بیٹھے۔ جس پر سندھ سراپا سوگ ہے، سراپا احتجاج ہے۔
سنہ اٹھار سو اٹھارہ سے سے لیکر آج تک اس پھیلی ہوئی جاگیر پر (جو سندھ کے تالپور حکمرانوں نے چانڈیو قبیلے کے اس وقت کے سردار ولی محمدخان کو دی تھی جس کی سندھ گزیٹر کے مطابق اٹھارہ سو انسٹھ میں انگریزوں نے اسکے بیٹے غیبی خان کو بذریعہ سند توثیق کی۔ سندھ کے قابض چارلس نیپئر کی طرف سے سندھ کی فتح میں ساتھ دینے پر جاگیر پھر ولی محمد کے بیٹے غیبی خان کو بحال کر دی گئی۔
’’سردار شبیر احمد چانڈیو کی ہر برسی پر انکی یاد میں کوئی اسکول اسپتال میٹرنٹی ہوم کھولنے یا طبی کیمپ کے بجائے نشانے بازی کے مقابلے ہوتے ہیں جن میں سندھ سمیت پورے ملک کے با اثر سول چاہے غیر سول حکام اور غیر حکام شریک ہوتے ہیں‘‘ علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک صحافی مجھے بتا رہا تھا۔ چانڈیو سردار بائیس لاکھ روپے کی فیس دیکر افریقہ کے جنگلوں میں اس سال بھی شیر کا شکار کھیل کر آیا ہے لیکن کاچھو کے علاقے میں عوام اور ووٹروں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ وہ صحافی مجھے بتا رہا تھا ’’ایف آئی آر میں نامزد انتہائی طاقتور سرداروں کے خلاف کارروائی کرنا بلی کو نہیں شیر کے گلے میں گھنٹی باندھنے کے برابر ہے۔ شیر کو کون پکڑے شیر رے شیر تیرے منہ میں تین سر پھرے چانڈیوں کے خون کی بو‘‘ کون کہے!
’’دادو مورو میہڑ میں ڈھول جوان قتل ہوئے؟‘‘ اگر قتل کے مقدمے میں ذوالفقار علی بھٹو گرفتار ہو سکتا ہے تو اگر ملوث نکلے تو پھر غیبی جاگیر کے نوابزادے کیوں نہیں؟ مگر انکی پکڑ کرے گا کون اسکاٹ لینڈ یارڈ تو آنے سے رہی۔ اپنی فطرت میں سارےخاکی غیر خاکی ان کی نشانہ بازی اور شکار کی دعوتوں کے مزے اڑاتے ہیں۔ اب جانوروں سے یہ شکار انسانوں تک کب کا پہنچ چکا ہے۔
کیا آپ جانتے ہو یہی غیبی جاگیر تھی جہاں سندھ کے عظیم ہاری رہنما حیدر بخش جتوئی، جنہیں سندھ کے لوگ بابائے سندھ کہتے ہیں، کو اور ان کے ساتھیوں کو ان کی سردار احمد سلطان چانڈیو کے خلاف انتخابی مہم کے دوران ایک گاؤں بٹھی لشکر خان میں درختوں سے باندھ کر بھنبھنایا گیا تھا۔ نواب چانڈیو کے وانٹھوں (حواریوں) کو حکم دیا گیا کہ وہ حیدر بخش جتوئی اور ان کے ساتھیوں پر کتوں کی طرح بھنبھنائیں اور انہیں بھنبھوڑیں۔ یہ انتخاب احمد سلطان چانڈیو جیت گیا لیکن بعد میں انتخابی ٹریبونل نے اسکی عمر چھوٹی ثابت ہونے پر کچھ وقت کیلئے اسے نا اہل قرار دے دیا تھا۔ لیکن چانڈیو نواب احمد سلطان کو عمر کا جعلی سرٹیفکیٹ جاری کرنے والا پرائمری ٹیچر لاہوری محلے لاڑکانہ کا صوفی دھنی بخش سہاگ اپنی نوکری گنوا بیٹھا تھا۔ اب حالیہ دنوں میں اس کا پوتا کہتا ہے کہ ’’میں دو ٹکڑے کے ووٹوں کی پروا نہیں کیا کرتا۔‘‘
فیس بک کمینٹ