صیاد نہیں قید میں بلبل مسکرائے گی۔
میں سمجھا تھا کہ شاید سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستان کی دیواروں پر سے یہ دو نعرے ہمیشہ کیلئے مٹ جائیں۔ لیکن یہ دو نعرے پاکستان کی دیواروں پر سے کبھی نہیں مٹتے۔ یہ دو نعرے ہیں ’’جام ساقی کو رہا کرو، آصف علی زرداری کو رہا کرو‘‘۔
اپنی ساری جوانی اور آدھا بڑھاپا پاکستان کے پسے ہوئے طبقات کی نذر کرنے والے بوڑھے انقلابی جام ساقی کو بڑھاپے میں پھر یہ دن دیکھنے پڑے جب سندھ میں ارباب رحیم کے دور حکومت میں اس کے احکامات پر پولیس نے اس کے گھر چھاپہ مارا اور جام ساقی کے نہ ملنے پر ان کی بیگم کو گرفتار کر کے لے گئی۔ جام ساقی کی بیگم ایک انقلابی رکن الدین قاسمی کی بیٹی ہیں۔ رکن الدین قاسمی سندھ کے منجھے ہوئے سینئر وکیل اور ولی خان کی پارٹی نیشنل عوامی پارٹی یا نیپ سے وابستہ تھے۔ اور وہ بھٹو دور میں ولی خان اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف تاریخی نام نہاد بلوچستان سازش کیس جسے حیدرآباد سازش کیس بھی کہا جاتا ہے، میں ولی خان کے وکیل بھی تھے۔ رکن الدین قاسمی سندھ کے محمود علی قصوری تھے۔ وہ کئی غریب یا غیراستطاعت یافتہ سیاسی قیدیوں کے کیس مفت لڑتے تھے۔ یہ بھی بھٹو حکومت کا خاصا تھا کہ ان کے سیاسی مخالفین کے وکلا بھی گرفتار کئے جاتے تھے اسی طرح رکن الدین قاسمی، مشتاق راج، حسن حمیدی، رسول بخش پلیجو اور شاید کچھ وقت کیلئے عزیزاللہ شیخ جو کہ ولی خان کےوکیل تھے، انہیں بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ بیرسٹر عزیزاللہ شیخ سندھ نیپ یا نیشنل عوامی پارٹی کے صدر بھی تھے اور جام ساقی نیپ کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری اور اس کی مرکزی کمیٹی کے رکن بھی تھے۔
یہ بھی شاید نئی نسل کے لوگوں کو پتہ نہ ہو حاکم علی زرداری بھی نیپ کی قیادت سے قربت کی وجہ سے بھٹو کے زیر عتاب آئے تھے۔ پھر یہی عزیز اللہ شیخ تھے جو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف مشرف دور میں ہائی جیکنگ کیس میں انکے وکیل صفائی تھے۔ کہتے ہیں کراچی جیل میں نواز شریف جب قید ہو کر آئے تو آصف علی زرداری بھی قیدمیں تھے۔ نواز شریف سے دوستی کی پہل آصف زرداری نے کی اور ان کو عزیز اللہ شیخ کو وکیل کرنے کا مشورہ دیا ۔ آج پھر نواز شریف ایک پاؤں جیل میں اور ایک باہر رکھتے ہیں جبکہ آصف علی زرداری کے حالات بھی کچھ ایسے ہی لگتے ہیں۔ یعنی کہ:یہ زخم ہیں ان دنوں کی یادیں جب آپ سے دوستی بڑھی تھی۔
یہ سب کچھ اس لئے یاد آیا کہ گزشتہ کچھ دنوں سے آصف علی زرداری بار بار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ انکو جیل بھیجا جا سکتا ہے، نیز ان کے دوستوں کو ان کی وجہ سے تنگ کیا جا رہا ہے، ان کے لوگوں اور ملازمین کو اٹھا کر پوچھ گچھ کی جا رہی ہے ۔ آصف علی زرداری سندھ کے دورے پر ہیں اور اس دوران ایک موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ گرفتار ہونے سے زیادہ مشہور ہوجائیں گے۔یعنی کہ آپ ایک عالمی شہرت کی حامل ایک خاتون اور دنیا بھر میں مانی ہوئی لیڈر کے شوہر ہیں، ایک دفعہ ملک کے صدر، دوسری بار سندھ پر حکومت کر رہے ہیں، ایک بڑی ملکی سطح کی پارٹی کے لیڈر ہیں، دو دفعہ جیل جا چکے ہیں جس کی کل میعاد ایک عمر قید کے قیدی کے برابر ہے ، اسی پر ہی آپ کے مداحوں نے آپ کو نیلسن منڈیلا کا خطاب دیاتھا۔ میں آپ کو آپ پر لگنے والے الزامات کے حوالے سے ونی منڈیلا کہوں گا۔ ان تمام کمالات کے باوجود آپ مشہور نہیں ہوئے پر ستر سال کی عمر میں پھر جیل جانے سے مشہور ہوجائیں گے۔ یعنی کہ وہ شہرتوں کے شوق میں بدنام ہو گئی۔ یا کہ بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری کا یہ بیان ایک طرح سے اسٹیبلشمنٹ اور سندھ جو کہ انکی پارٹی کا اصل حلقہ ہے، کو پیغام تھا کہ اس بار بھی یہ بازی تم ہی ہارو گے۔ ایسی رائے رکھنے والے لوگوں کا خیال ہےکہ چونکہ آصف علی زرداری نہ صرف سندھ کے لوگوں اور سندھ میں اپنے ووٹروں کی نفسیات بخوبی جانتے ہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی بھی نفسیات کا قریب سے مطالعہ اور تجربہ رکھتے ہیں اور ان سے نفسیاتی کھیل کھیل رہے ہیں۔ ان کی ایسی چالوں پر تو بڑے بڑے نفسیاتی ماہر حیران اور تشویش میں مبتلاہونگے! شاید لوگوں کو یہ پتہ نہیں کہ زرداری تو اپنی جگہ لیکن ان کے اکثر قبیلے کے لوگوںکے لئے جیل کوئی نئی بات نہیں۔ نئی بات شہباز شریف کے لئےہے۔ شاید وہاں بھی حبیب جالب ہی ان کو تسلی دیتا ہو جس کی نظمیں وہ کبھی جلسوں میں گایا کرتے تھے کہ:
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
مجھے یاد ہے کہ جب زرداری پہلی بار جیل گئے تھے تو انکی پیشیوں پر جو میلہ لگتا تھا ان میں ہمارا ایک نوجوان دوست بھی ملاقاتیوں میں شامل ہوتا تھا جو ان کے ایک قریبی دوست کا عزیز تھا، اس نوجوان نے ان سے پوچھا تھا ’’سائیں بہت کمزور ہو گئے ہو‘‘ تو مسٹر زرداری نے اس نوجوان سے کہا تھا ’’جیل میں رہ کر دیکھو تو پتہ چلے‘‘۔ زرداری کےخیال میں پارٹی سے وفاداری سے زیادہ اہمیت ان دوستوں اور لوگوں کی تھی جو جیل میں یا پیشیوں پر ان سے ملنے آتے تھے۔ ایسے بھی تھے جنہوں نے ایک پیشی بھی مس نہ کی۔ ہر شہر اور ہر عدالت، ہر پیشی پر موجود ہوتے تھے صبح سکھر شام کراچی، راولپنڈی ہو، لاہور کہ کراچی، سینٹرل کہ ملیر، ڈاکٹر قیوم سومرو جو ان کے اتنے قریب ہیں یہ کراچی میں جیل کے ڈاکٹر تھےجس میں آ صف علی زرداری قیدی تھے۔ کئی قیدیوں کو جیل کی زبان میں ’’ڈانڈرس‘‘ (ڈینجرس) قیدی کہا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ زرداری کے گناہوں سے زیادہ وجہ ان کا ایک بڑا جرم بینظیر بھٹو سے شادی بھی تھا اور ان کے شوہر ہونے کے ناتے ان کو طویل عرصے تک جیل میں رکھا گیا۔ جب بینظیر بھٹو نہیں رہیں تو اب وہ قیدمیں رکھنے والوں کے کس کام آئے گا۔ زرداری سے زیادہ ٹرائل شاید اداروں کا ہو۔ اس بار شاید صیاد نہیں قید میں بلبل مسکرائے۔ ایک وہ شخص جس کو آپ دو دفعہ قیدی رکھ کر آزاد کر کے ایک دفعہ سیدھا جیل سے وزیر اور دوسری مرتبہ صدر بنا چکے ہیں۔ یہ تو وہ بھی جانتے ہیں کہ زرداری کی زندگی ٹرک پر لکھے اب اس شعر جیسی نہیں رہی کہ جیل یا پرائم منسٹر ہاؤس۔ ستر سال کی عمر میں زرداری نے بہت کچھ سیکھا لیکن ریاست نے کچھ بھی نہیں سیکھا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ