اجرک اور ٹوپی سرزمین پاکستان میں امن اور محبت کے ثقافتی اظہار کا ذریعہ ہیں یہ سچ ہے قومیں اپنے تہذیب وتمدن ،رہن سہن ،لباس،عقیدے رسم ورواج روایات اور نظریات سے پہچانی جاتی ہیں۔سندھ کا دامن ثقافت کے دلکش رنگوں سے مزین ہے اور یہ رنت اجرک کے بنا ادھورے ہیں محبت اور امن کا پیغام دیتے اجرک کے تہذیبی ورثے کا پس منظر اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ سندھ کی دھرتی قدیم ہے صدیاں بیت گئیں نا سندھی اجرک کا رنگ تبدیل ہوا نہ ہی اس کی تعظیم میں کوئی کمی دیکھی گئی سندھ کا سردار ہو یا ہاری دونوں ہی اجرک کو اپنے شانوں پر رکھنا باعث تکریم سمجھتے ہیں ڈھائی سے تین میٹر کی سوتی شال کی تیاری میں سرخ ،سیاہ،سفید اور نیلے رنگ کا استعمال کیا جاتا ہے مختلف مراحل سے گزر کر تیار ہونے والی یہ چادر آرٹ کا دلکش نمونہ ہے جس کے دلفریب رنگ سندھ کی صحرائی زمین پر قوس قزح کی طرح بکھرے نظر آتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اجرک کے یہ ثقافتی رنگ پاکستان کی پوری دنیا میں نمائندگی کر ر ہے ہیں سندھ میں دریاؤں ،چٹانوں پربت اور جھرنوں کی کمی ہے لیکن یہاں کے باسیوں کے لہجے میں گھلی مٹھاس ،دریاۓ سندھ کی اٹھکیلیاں کرتی لہریں اور لق ودق صحرا میں اپنا رنگ موجود ہے جسے اجرک پر بکھیرا جاتا ہے۔سفید چادر کو ٹھپوں ،رنگائی اور مختلف مراحل سے گزار کر اجرک تیار ہوتی ہے جو مہمانوں کو بطور تحائف دی جاتی ہے ۔اجرک کی ثقافت کو زندہ اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کر نے کے لیئے حکومتی سطح پر چھوٹی صنعتوں کو پذیرائ دی جانی چاہیئے تاکہ صدیوں قدیم ثقافت دنیا بھر میں روشناس ہو سکے ثقافتی ورثے سے دلچسپی رکھنے والے جن لوگوں نے اپنا فرض پورا کیا اور ثقافتی ورثے کو بین الاقوامی سطح پر لانے کے لیئے کتابیں بھی لکھی گئ ہیں ان میں سر فہرست نام ملتان میں مقیم رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے معروف دانشور ظہور دھریجہ کا ہے انہوں نے سرائیکی اجرک کی بنیاد 2013 میں رکھی اور اس کے لیئے نیلے اور آسمانی رنگ کا انےخاب کر کے ایک مثال قائم کی ہے اور "سرائیکی اجرک ” کے نام سے ایک کتاب بھی منظر عام پر لاۓ ہیں انہوں نے جہاں جہاں بھی سرائیکی لوگ آباد ہیں ان کے لیئے "سرائیکی وسیب” کا نام منتخب کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ آج کے بعد اسے سرائیکی وسیب لکھا ،بولا اور پڑھا جاۓ ۔اس کا اعلان انہوں نے روزنامہ خبریں کے زیر اہتمام ہونے والے کل پاکستان سرائیکی مشاعرہ 2016 میں کیا دنیا میں وہی قومیں یاد رکھی گئیں جنہوں نے اپنے ثقافتی ورثے کو زندہ رکھا اور اس کی حفاظت کی ظہور دھریجہ کا نام” سرائیکی اجرک”کے انشا، پر یاد رکھا جاۓ گا ۔وہ سرائیکی سرائیکی اجرک کے نیلے اور آسمانی رنگ منتخب کرنے کے حوالے سے بتاتے ہوۓ کہتے ہیں کہ!
نیلے رنگ صدیوں سے اس خطے کی پہچان ہیں نیلے اورآسمانی رنگ ملتانی کاشی کے حوالے سے ایران, عراق,فرانس,مصر,اور دنیا کے ممالک میں پہنچے سندھ اور ملتان میں جائیں تو بلیو ٹائلز مزارات پر آپ کو ملیں گے جن کے رنگ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود خراب نہیں ہوۓ اور اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں بلیو ٹائلز اور ملتانی کاشی کی شکل "ازرق”سے ماخوذ ہے جو عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی نیلے رنگ کے ہیں عرب افواج جب محمد بن قاسمؒ کی سربراہی میں یہاں پہنچیں تو انہوں نے نیلے رنگ کی چادریں اوڑھی ہوئیں تھیں پھر عجمی لوگوں نے ز کو ج میں کنورٹ کرکے اس کا نام "اجرک”رکھ دیا سندھ والوں نے بھی یہی تاریخ لکھی ہے اور ہم نے ہزار سال کی تاریخ کو زندہ کیا ہے ظہور دھریجہ صاحب کا کہنا ہے کہ کائنات کا رنگ نیلا ہے دنیا میں تھوڑا حصہ خشکی کا ہے باقی ساراپانی ہے اور پانی کا رنگ نیلا ہے صوفیا, کرام کا پسندیدہ رنگ بھی نیلا ہے سندھ دریا کو نیلاب بھی کہتے ہیں سرائیکی وسیب میں نیل کی کاشت کا بہت بڑا مرکز ہے اور بہت سی جگہوں کا نام بھی نیل پر ہے جیسے نیل کوٹ ,نیل گڑھ وغیرہ نیلا لباس صوفیا,کا لباس ہے
ع,
سارے رنگوں میں رنگ نیلا ہے
گر منقش ہو آسمانی پر
ظہور دھریجہ کے کہنے پر استاد امیر بخش نے سرائیکی اجرک تیار کی ملتان کے مشہور کاشی گر اور نقاش استاد اللہ بخش ملتانی نے اونٹ کی کھال سے بنے ہوۓ لیمپ شیڈ پر بھی نیلے رنگ کی کاشی گری کی ہے اور اب بازار میں نیلی اجرک کے طرز پر بنی بیڈ شیٹ ,شادی کارڈ,مگ,لیمپ,گلدان وغیرہ موجود ہیں ظہور دھریجہ صاحب نے 6مارچ کو سرائیکی اجرک ڈے کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے اس دن لوگوں کی بڑی تعداد نۓ روایتی کپڑے پہنتی ہے اور اپنے کاندھے پر اجرک اور سر پر سندھی ٹوپی رکھتی ہے سرائیکی وسیب کے لوگ پوری دنیا کو امن کا پیغام دے رہے ہیں سرائیکی اجرک کے نیلے رنگ ابدیت کی قدیم نشانی ہیں سرائیکی اجرک کے نۓ جنم نے وسیب کے تمام لوگوں کو متحد کر دیا ہے سرائیکی کلچر ڈے سرائیکی اجرک ڈے وسیب کی ثقافتی پہچان بن چکا ہے سرائیکی اجرک نے بہت کم وقت میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی ہےمعروف کالم نگار ابو نثر لکھتے ہیں کہ!
ابھی پچھلے دنوں سندھ میں یوم ثقافت بڑے دھوم دھام سے منایا گیا کہنے کو تو یہ سندھی ٹوپی ,اجرک اور ثقافت کی حرمت کے دن کے طور پر منایا گیا مگر بظاہر یہ دن منانے والوں کو مذکورہ بالا تینوں چیزوں کی اہمیت اور حرمت سے کوئ خاص دلچسپی نہ تھی ہوا یوں کہ اخباروں میں جو تصاویر شائع ہوئیں ان میں ہلا گلا کرنےوالوں کی اکثریت کے سروں پر نہ سندھی ٹوپی تھی نہ شانوں پر اجرک نہ طور طریقوں میں سرائیکی اور سندھی ثقافت کی جھلک صرف بہنوں اور بیٹیوں کی مردوں کے ساتھ ناچنے کی تصاویر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اجرک بڑے کام کی چیز ہے یہ نہ صرف خواتین کی اوڑھنی ان کا حجاب ہے ان کا پردہ ہے بلکہ مردوں کے لیئے بھی بڑے کام کی چیز ہے وظو کے بعد چہرہ پونچھنے کے کام آتی ہے جا, نماز کا تبادل ہے اگر گرمیوں میں کہیں آنا جانا ہو تو سندھ کے لوگ اسے گیلا کر کے سر پر رکھ لیتے ہیں رستے میں سستانا ہو تو درخت کے نیچے لیٹ کر اجرک اوڑھ کر سو جاتے ہیں کھیتوں میں کام کے دوران کھانا کھانا ہو اسے دستر خوان کے طورپربچھا کر کھا نا چن دیا جاتا ہے مہمان کے لیئےبیٹھنے جگہ کو جھاڑنے کے کام آتی ہے سردیوں میں یہ گرم چادر کاکام دیتی ہے یہی اجرک اب ناچنے کے لیئے استعمال ہو رہی ہے سندھیوں کا کہنا ہے کہ ہماری ثقافت شاہ عبدالطیف بھٹائی,سچل سرمست اور دیگر صوفیا, کرام کی ثقافت ہےاس دھرتی پر بسنے والے ہم سندھی اور سرائیکی مسلمانوں کی ثقافت تو اخوت,بھائی چارہ اور ہمدردی اور خوش اخلاقی ہے یہ کون ہے جس نے ہماری صدیوں سے رائج تہذیب ہماری روایات اور ہماری ثقافت کو ناچ رنگ اور بے حیائی کی ثقافت میں ڈھال دیا ہے یہ کس نے ہماری بیٹیوں کے سر سے اجرک اور ہمارے بزرگوں کے سر سے سندھی ٹوپی اتار لی ہے ?ان جب اس کے بر عکس سرائیکی وسیب کےلوگ سرائیکی اجرک ڈے منانے کا اہتمام کریں تو میرا خیال ہے کہ وہ اپنی ثقافت کی حرمت کا خاص خیال رکھیں اور نہائیت سلیقے اور مہذب طریقے سے اجرک ڈے منائیں تاکہ سرائیکی اجرک کا احترام مجروح نہ ہو ۔
فیس بک کمینٹ