انسان بچن سے بڑھاپے تک اپنی زندگی کے ہر موڑ پر، ہر مرحلے پر بہت سے دوست بناتا ہے اور بہت سے لوگوں کے بہت قریب بھی ہو جاتا ہے کہ اس کے بغیر زندگی بے معنی نظر آتی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کی سب سے قریبی اور پہلی دوستی والدین سے ہی ہوتی ہے جو اپنے بچوں کو بولنا سکھاتے ہیں اور ہر اچھی بری بات کا مطلب سمجھاتے ہیں۔ بچہ اپنے سکول کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات اپنے والدین کو سناتا ہے اور جب تک سنا نہیں لیتا اس کو قرار نہیں آتا۔ لیکن جیسے جیسے بچے عمر کے مراحل طے کرتے جاتے ہیں ان کا حلقہ احباب اور دوستوں میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ گھر اور سکول کے علاوہ دوسری سرگرمیوں میں مشغول ہو جاتے ہیں اس وقت اکثر والدین بھی اپنی دوسری مصروفیات اور اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے اور اس کے روشن کل کے لئے خود کو زیادہ مصروف کر لیتے ہیں زیادہ سے زیادہ محنت کرتے ہیں تاکہ ان کا بچہ اچھی تعلیم حاصل کر کے اچھے شہری کی حیثیت سے ملک و قوم کا مستقبل سنوار سکے۔ لیکن یہ سب کرتے ہوئے والدین ایک بات فراموش کر جاتے ہیں کہ وہ اپنے اولاد کی دوستی سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اکثر والدین یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ان کی اولاد کے حق میں بہتر ہے اور اس جگہ والدین درست بھی ہیں لیکن اس کے ساتھ ایک اور پہلو نکلتا ہے جس کا انہیں احساس نہیں ہوتا کہ ان کے اور ان کی اولاد کے درمیان ایک خلاء پیدا ہو رہا ہے اور وہ خلا ان کو اپنے بچوں سے دور لے جا رہا ہے۔ اور وہ اپنی ضروریات اور فرائض کی ادائیگی کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں اور والدین اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوا دیتے ہیں لیکن ان کی تربیت اور مثبت سوچ پروان نہیں چڑھتی اس لئے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو وقت دیں تاکہ ان کے بچے گھر سے باہر جائے پناہ تلاش کرنے پر مجبور نہ ہو جائیں اور ان حالات سے تنگ آ کر بچے اپنی دل کی بات اپنے دوستوں اور احباب سے شیئر کرنے پر مجبور نہ ہو جائیں اور جب اولاد اس قسم کا قدم اٹھاتی ہے تو والدین اولاد کو سمجھنے اور اس خلا کو پر کرنے کی بجائے اس مسئلہ کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور اپنے بچوں پر جبری روک ٹوک کرتے ہیں اور گھر میں محدود ہونے کا حکم صادر کر دیتے ہیں۔ اس لئے یہ دوہری ذمہ داری ہے کہ والدین اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کریں اور اس خلا کو پیدا ہونے ہی نہ دیا جائے ۔ اولاد پر اپنے فیصلے تھوپنے اور انہیں اپنی نا آسودہ خواہشات کی بھینٹ چڑھانے کی بجائے یہ جاننے کی انتھک کوشش کریں کہ ان کی اولاد کی خواہشات کیا ہیں کیا وہ خواہشات ان کی پہنچ میں ہیں اگر ہیں تو ان کو پورا کریں اور اگر نہیں تو اپنے بچوں کو اچھی طرح سے سمجھائیں۔ بات ٹھوس دلائل کے ساتھ سامنے رکھیں تاکہ بچے بات کو سمجھ کر مانیں نہ کہ جبراً قبول کریں۔ جب اولاد پر زور زبردستی چلائی جاتے تو اولاد پر کچھ کر گزرنے کا جنون سوار ہو جاتا ہے اور یہ جنون اگر مثبت نتائج لاتا ہے تو یہی جنون زیادہ تر منفی نتائج پیدا کرتا ہے۔ اور اپنی ہار کو ماننے بچے والدین کو اپنا مسئلہ بتانے کی بجائے گھر بار چھوڑ دیتے ہیں اور اکثر بچے خودکشی کر لیتے ہیں اور والدین کے پاس سوائے رونے پیٹنے کے اور کوئی راہ نہیں رہ جاتی ہے۔ اس لئے والدین کو چاہئیے کہ وہ اپنے بچوں کو اعتماد بخشیں اور ان کا بہترین دوست بنیں اور یہ ہی ذمہ داری اولاد پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا زیادہ وقت اپنے والدین کے ساتھ گزاریں اور والدین کا حکم ماننے اور ان کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں ان کو پرانے زمانے اور دقیانوسی کہہ کر نظر انداز نہ کریں کیونکہ والدین نے آپ سے زیادہ دنیا دیکھی ہوتی ہے اور وہ آپ سے زیادہ تجربہ کار ہیں اور وہ آپ کو جو بھی کہیں گے وہ آپ کی بھلائی کے لئے ہی ہو گا ۔ دوست احباب غلط مشورہ دے سکتے ہیں لیکن والدین ایسا نہیں کر سکتے۔
فیس بک کمینٹ