امریکہ اور طالبان کے درمیان گذشتہ ہفتے کے آخر میں ہونے والے معاہدے سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی راہ ہموار ہوسکتی ہے لیکن اس کے ذریعے افغانستان میں امن آنے کا امکان نہیں ہے۔ فروری کے آخری ہفتے میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والے تشدد میں کمی جس نے اس معاہدے کو ایک ” امن معاہدے “ کے طور پر پیش کرنے کے لئے بنیاد مہیا کی تھی وہ پہلے ہی ملک بھر میں طالبان کے نئے حملوں کے باعث ختم ہو چکا ہے۔
اس معاہدے کے نتیجے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ ” لامتناہی جنگوں “ کے خاتمے کے اپنے وعدے کی پاسداری کر رہے ہیں۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکہ افغانستان میں ان بین الاقوامی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے کے لئے گیا تھا جنہوں نے امریکہ پر حملہ کیا تھا۔ اب جب کہ القاعدہ کا خطرہ کم ہوچکا ہے اور امریکہ نے خود کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے دیگر ذرائع تیار کرلیے ہیں تو افغانستان میں مزید خون اور خزانے کو کیوں ضائع کیا جائے؟
تاہم یہ صرف وقت ہی بتائے گا کہ آیا طالبان افغان سرزمین کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں یا افراد کی جانب سے استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کے وعدے کی پاسداری کرتے ہیں یا نہیں۔ دوحہ معاہدے میں طالبان کی طرف سے دی جانے والی یہ واحد بڑی رعایت تھی۔
طالبان اپنے طور پر خود کو ایک سپر پاور کے خلاف فاتح فریق سمجھتے ہیں اور پوری دنیا میں اسلام پسند عسکریت پسند بھی افغانستان کے نتیجہ کو اسی طرح سمجھتے ہیں۔
امریکیوں کے آنے سے پہلے مطلق العنان نظریاتی گروہ کی حیثیت سے طالبان، افغان عوام کو اذیت دے رہے تھے۔ وہ امریکی فوج کے انخلا کو اپنی اسی امارت کی بحالی کے امکان کے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں جو انہوں نے پاکستان کی مدد سے قائم کی تھی۔
طالبان کے ذہنوں میں ان کی امارت اب بھی وجود رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ ان کے معاہدے کے دوران ، ’اسلامی امارت اسلامیہ افغانستان کے متعدد حوالہ جات موجود ہیں جنھیں امریکہ ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا لیکن طالبان اسے ریاست سمجھتے ہیں۔
معاہدے کے پارٹ ٹو کی شق 5 میں کہا گیا ہے کہ امارت / طالبان "ان لوگوں کو جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے خطرہ ہیں افغانستان میں داخلے کے لئے ویزا ، پاسپورٹ ، سفری اجازت نامہ ، یا دیگر قانونی دستاویزات فراہم نہیں کریں گے۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ یہ کام صرف حکومتیں انجام دیتی ہیں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ امارت کو کسی دن امریکہ جائز تسلیم کر سکتا ہے۔
یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ امن معاہدے کےلئے کچھ لو اور کچھ دو کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی فریق کو خوش کرنے والے الفاظ سفارتی مذاکرات کا لازمی حصہ ہوتے ہیں لیکن ‘افغانستان میں امن لانے کےلئے معاہدہ’ کے عنوان سے دستاویز پرٹیلیویژن سکرینوں کے سامنے دستخط کرنے کی تقریب کے انعقاد کے لئے لگتا ہے کہ یہ بات سرے سے ہی نظرانداز کر دی گئی کہ اس مبہم منصوبے کا مستقبل کیا ہو گا۔
مثال کے طور پر دوحہ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے "پانچ ہزار (5000) قیدیوں” کو انٹرا افغان مذاکرات سے پہلے”10 مارچ ، 2020 تک رہا کیا جائے گا ۔ لیکن یہ وعدہ افغان حکومت کے پیشگی ا تفاق رائے کے بغیر کیا گیا ہے جس کے پاس حقیقت میں قیدی موجود ہیں۔
اسلامی جمہوریہ افغانستان کے طور پر تسلیم شدہ کابل حکومت کے متوازی مشترکہ اعلامیے میں قیدیوں کے موضوع کو مختلف انداز میں شامل کیا گیا ہے۔ اس دستاویز میں صرف "امریکی سہولت کاری کے تحت طالبان کے نمائندوں کے ساتھ اعتماد سازی کے اقدامات پر گفتگو کے بارے میں بات کی گئی ہے تاکہ دونوں طرف سے معقول تعداد میں قیدیوں کو رہا کرنے کے امکان کا تعین کیا جاسکے۔
معاہدے کے اندر ایسی خامیوں کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ کس طرح اس سے منحرف ہوا جا سکتا ہے جس طرح یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اس پر دستخط ہی کیوں کیے گئے تھے۔
امریکہ میں عمومی طور پر یہ جذبات پائے جاتے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں جنگ جیت نہیں سکتا تھا یا اس سے بھی آگے یہ کہا جاتا ہے کہ جنگ ہاری جا چکی ہے اور یہ کہ”افغانستان اب امریکہ کو درپیش سب سے زیادہ ضروری یا اہم قومی سلامتی کا چیلنج نہیں ہے”۔ امریکی عوام یا ان کے کچھ رہنماؤ ں میں انتظار اور تاریخ کے شعور کی خوبیاں زیادہ تر امریکیوں میں نہیں پائی جاتیں۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ نیا معاہدہ ویتنام میں امن کی بحالی کےلئے 27 جنوری 1973 کو پیرس میں ہونے والے 67 صفحات پر مشتمل جنگ کے خاتمے کے معاہدے کی طرز پر کیا گیا ہے جس میں ’انڈوچائنا‘ میں امریکی فوجی مداخلت کے خاتمہ کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے دو سال بعد ، 1975 میں ، اس معاہدے کے دستخط کرنے والوں میں سے ایک ، جنوبی ویت نام کی عبوری انقلابی حکومت (ویت کانگ) نے اس معاہدے کے ایک اور دستخط کنندہ ، کمیونسٹ ڈیموکریٹک جمہوریہ ویتنام کی مدد سے ، امریکہ کے حمایت یافتہ جنوبی ویتنام کو زیر کر لیا تھا۔
اس میں کئی نمایاں چیزیں مختلف ہیں تازہ ترین دستاویز ضخامت کے اعتبار سے ہی نہیں ، جو صرف چار ٹائپ شدہ صفحات پر مشتمل ہے۔ شمالی ویتنام کے پیرس امن معاہدے پر دستخط کرنے کے برعکس ، طالبان کے اصل حمایتی پاکستان کے اس معاہدے پر دستخط نہیں ہیں۔
مزید برآں پیرس معاہدے پر اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ولیم پیئرس روجرز نے ہنری کسنجر کے ذریعہ مذاکرات کے بعد دستخط کیے تھے جبکہ موجودہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے دوحہ معاہدے پر اس کے مذاکرات کار زلمے خلیل زاد سے دستخط کرائے۔ اگر یہ معاہدہ برقرار رہتا ہے تو ٹرمپ انتظامیہ اس کا سہرا اپنے سر باندھے گی اور اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو خلیل زادکو اس کا مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
افغانستان جنوبی ویتنام نہیں ہے۔ افغان قوم دوبارہ اٹھ کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے جو امریکی تعاون سے یا اس کے بغیر بھی طالبان کا مقابلہ کرسکتی ہیں اور اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ مقابلہ کرے گی۔ بہت سارے امریکی رہنما خاص طور پر فوج اور انٹیلیجنس کمیونٹی میں یہ بھی سمجھتے ہیں کہ افغانستان سے مکمل طور پر لاتعلق ہونا اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا آسان ویتنام سے بھاگنا تھا۔
( بشکریہ : ایم این این نیوز )
فیس بک کمینٹ