امریکہ میں دئے گئے ایک انٹرویو کے حوالے سے اس بات پر وزیر دفاع خواجہ آصف کی بھد اڑائی جارہی ہے کہ وہ یہ نہیں بتا سکے کہ ملک پر سیاست دانوں کی حکومت ہے یا فوج کا سکہ چلتا ہے۔ خواجہ آصف اپنے طور پر اس نظام کو ہائیبرڈ نظام کہہ کر اس کے فیوض و برکات کا شمار کرتے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ اسے ایک ایسے محکمہ کی تابعداری سے تعبیر کرتے ہیں جو آئینی طور سے وزارت دفاع کے ماتحت ہے۔
تاہم دیکھا جاسکتا ہے کہ ملک کے نظام حکومت کے بارے میں اٹھایا جانے والا سوال نہ تو نیا ہے اور نہ ہی اس کا جوب کسی اسرار میں لپٹا ہے۔ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے اقتدار سے علیحدگی کے بعد امور مملکت چلانے کے لیے اگرچہ جمہوری آئینی نظام کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن درحقیقت اقتدار کی بندربانٹ کرتے ہوئے اس اصول پر اتفاق کرلیا گیا تھا کہ فوج چونکہ ملکی معاملات میں اہم اسٹیک ہولڈر ہے، اس لیے کوئی فیصلہ اس کی مرضی و منشا کے بغیر نہ کیا جائے۔ یہ انتظام اگرچہ بظاہر خوش اسلوبی سے چلتا رہا لیکن کہیں نہ کہیں اناؤں یا مفادات کے تصادم کی وجہ سے کچھ نہ کچھ خرابی بھی دیکھنے میں آتی رہی ہے۔
2008 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پیپلز پارٹی نے حکومت قائم کی تھی لیکن اس وقت کے آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کی تمام معاملات پر دسترس تھی۔ فوج ہمیشہ سے ملک کے دفاعی و خارجہ امور میں گہری دلچسپی لیتی رہی ہے۔ ان دونوں معاملات کا تعلق درحقیقت بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات سے جوڑا جاتا ہے اور کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دے کر ان دونوں معاملات میں فوجی قیادت کو درحقیقت ’ویٹو‘ کا اختیار دیا جاچکا ہے۔ سیاسی وابستگی سے قطع نظر ملکی سیاسی لیڈروں نے اصولی طور سے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ پرامن طریقے سے حکومت کرنے کے لیے کوئی ایسا فیصلہ نہ کیا جائے جس سے فوج کو شکایت پیدا ہو۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے دور میں آصف زرداری کے ساتھ اور نواز شریف کے دور حکومت میں نواز شریف کے ساتھ فوج کی براہ راست چپقلش کا مشاہدہ پوری قوم نے کیا تھا۔ ان میں سے ایک مناقشہ میمو گیٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے کو ڈان لیکس کا نام دیا گیا۔
اس پس منظر میں ہی فوجی قیادت کو ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بارے میں شبہات پیدا ہوئے اور کہیں نہ کہیں یہ محسوس کیا گیا کہ یہ دونوں پارٹیاں ’قومی مفادات‘ کے مطابق نظام حکومت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اسی سوچ کے تحت سیاست میں طویل مدت تک اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرنے والے عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کو محفوظ آغوش میسر آگئی اور ملک بھر سے الیکٹ ایبلز دھڑا دھڑ اس پارٹی میں شامل ہونے لگے۔ باریک بینی سے کی گئی یہ منصوبہ بندی 2018 کے انتخابی نتائج میں واضح ہوکر سامنے آگئی ۔ انتخابی نتائج اور پارلیمانی جوڑ توڑ کے نتیجے میں عمران خان ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ اسی سال اگست میں قائم ہونے والی حکومت کے پہلے تین سال تحریک انصاف اور پاک فوج کے ہنی مون کے مثالی سال تھے۔ جب دونوں طرف سے ایک دوسرے کی توصیف سننے میں آئی۔ اس طریق حکومت کو ایک پیج کا انتظام قرار دیا گیا اور عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کے لیڈر عوام کو یہ باور کراتے رہے کہ آرمی چیف کے خلاف بات کرنا گناہ عظیم ہوتا ہے کیوں اس کی صداقت و دیانت کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔
البتہ آئی ایس آئی کے سربراہ کے بارے میں عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمی یا اختلاف نے اس اتحاد میں دراڑ ڈال دی اور ایک پیج دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ انہیں دنوں ہائیبرڈ انتظام کی اصطلاح بھی ملکی سیاسی مواصلت میں پہلے پہل استعمال ہونا شروع ہوئی تھی۔ اگرچہ فوج کی طرف سے حکومت کی رہنمائی کا کام تو 2008 کے بعد سے ایک باقاعدہ اصول کے طور پر تسلیم کرلیا گیا تھا لیکن 2018 میں تحریک انصاف کو مضبوط کرنے اور اقتدار میں لانے کا سارا کام چونکہ ’خلائی مخلوق‘ کی نگرانی میں طے پایا تھا ، اس لیے حکومت پر ’ملکیت‘ کا حق بھی زیادہ پرزور طریقے سے دیکھنے میں آیا۔ عسکری قیادت سیاسی مشکل کے وقت پارلیمنٹ میں حکمران تحریک انصاف کی مدد کو پہنچتی اور وزیر اعظم ہر موقع پر آرمی چیف کو شامل رکھتے۔ البتہ جب ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہؤا تو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آنے میں دیر نہ لگی۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بنفس نفیس اس ’نازک قومی مرحلہ ‘ پر آئین کی حفاظت کے لیے عدم اعتماد پر ووٹنگ کو اہم قرار دیا ۔ اگرچہ اسی چیف جسٹس نے بعد میں عمران خان کو ’گڈ ٹو سی یو‘ کہنے پر شہرت پائی۔
عمران خان کو ’اقتدار بدر‘ کرنے کے بعد ملک میں شہباز شریف کی قیادت میں حکومت قائم ہوگئی اور پھر 2024 کے انتخابات میں کچھ ایسے انتظامات دیکھنے میں آئے کہ مسلم لیگ (ن) اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اور پیپلز پارٹی شدید اختلافات کے باوجود اس سیاسی انتظام کا حصہ بنی۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ موجودہ حکومت کی پھرتیوں اور تیزرفتاری کو ہائیبرڈ نظام کا عروج قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم 2008 سے 2018 کی دہائی میں کام کرنے والی حکومتوں کے برعکس اس کے بعد سامنے آنے والا انتظام یوں پیچیدہ ہوگیا کہ اب فوج کی مداخلت صرف سکیورٹی و خارجہ امور ہی تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا دائرہ معیشت اور سفارت کاری تک پھیل گیا۔ عمران خان کے دور حکومت میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ملک کے لیے قرضے مانگنے اور معاہدے کرنے کے لیے دوست ممالک کے دارالحکومتوں کے چکر لگاتے رہے ۔ اس طرح حکومتی فیصلوں پر فوج کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی۔
شہباز شریف کے دوسرے دور حکومت میں اب اس انتظام کو باقاعدہ شکل دے دی گئی ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ وہ ہر معاملہ میں آرمی چیف سے مشورہ کرتے ہیں جبکہ مخالفین سمجھتے ہیں کہ فیصلے درحقیقت فوج کرتی ہے اور سیاسی حکومت اسے آئینی چہرہ فراہم کرنے کے کام آرہی ہے۔ اس وقت ملک کے تقریباً تمام فیصلوں میں فوجی مرضی و مشاورت بہت واضح طور سے دیکھی جاسکتی ہے۔ تحریک انصاف چونکہ اب عمران خان کی مسلسل قید کی وجہ سے سخت ناراض ہے لہذا وہ اس انتظام کو عوامی حقوق پر ڈاکہ قرار دے کر عوام کو ’حقیقی آزادی ‘ دلانے کا اعلان کرتی رہتی ہے۔ اسی لیے اس پارٹی کی طرف سے براہ راست آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حتی کہ بھارت کے ساتھ مئی میں ہونے والی جنگ کے دوران بھی پی ٹی کی یہ فوج دشمنی چھپائی نہیں جاسکی۔
اب نہ تو کسی کو یہ ماننے پر شرمندگی ہے اور نہ ہی کوئی پریشان ہے کہ ملکی معاملات کو حکومت اور فوج مل کر چلا رہے ہیں۔ اسے ہی ہائیبرڈ انتظام کہا جاتا ہے لیکن اس سوال کا جواب کہیں سے نہیں ملتا کہ اگر اس طریقے سے قوم و ملک کو محض فائدہ ہی حاصل ہورہا ہے تو اسے باقاعدہ آئینی شکل دینے میں کون سی رکاوٹ حائل ہے۔ پاک فوج نے اگرچہ بھارت کے خلاف شاندار کارگردگی کا مظاہرہ کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ فیلڈ مارشل کی سربراہی میں فوجی قیادت محض میدان جنگ ہی میں نہیں بلکہ سیاسی، معاشی و سفارتی شعبوں میں بھی ملک کو کامیاب کرانے کے لیے برسرعمل ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومت کو اس انتظام پر کوئی پریشانی نہیں ہے لیکن ملک میں جمہوریت کے لیے پریشان ہونے والے لوگ ضرور حیران ہیں کہ یہ انتظام کون سی آئینی شق کے تحت درست اور قابل قبول ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف چونکہ ابھی تک فوجی قیادت کو مواصلت پر آمادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ، اس لیے وہ بھی اس انتظام کو ملکی انتخابی طریقہ کار پر حملہ قرار دیتی ہے۔
تاہم حقیقی مسئلہ ملک میں انسانی حقوق کی ابتری، میڈیا پر کنٹرول اور سیاسی مکالمہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے۔ یوں لگنے لگا ہے کہ ہائیبرڈ نظام کے نام پر جو حکومتی انتظام مسلط کیا گیا ہے، اسے عوام کی آواز دبانے اور انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ سیاسی بے چینی اور ایک بڑی پارٹی کی طرف سے مسلسل وسیع تر سیاسی عمل سے گریز کی وجہ سے اس اضطراب میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس ماحول میں حکومت کی بعض کامیابیوں اور درست اقدامات کی بھی مناسب پزیرائی نہیں ہوپاتی۔ مثال کے طور پر ملک کا کامیابی سے دفاع کرنے پر پاک فوج کو کریڈٹ دینے سے گریز کیا گیا۔ یا سفارتی سطح پر چین کے علاوہ امریکہ کے ساتھ اعتماد کا رشتہ استوار کرنے اور مشرق وسطیٰ کی سیاست میں پاکستان کو اہم فریق بنانے کے قابل قدر اقدامات کو بھی شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ صورت حال موجودہ انتظام کے بارے میں ایک ایسا سوالیہ نشان بن چکی ہے جس کا نہ تو جواب میسر ہے اور نہ ہی حکومت اس کی وضاحت کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
2007 میں ’ملٹری انک‘ کے نام سے ملکی معیشت و سیاست میں پاک فوج کے اثر ورسوخ کو موضوع بحث بنانے والی محقق و تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ نے ایک بھارتی ویب سائٹ ’دی پرنٹ‘ پر دو روز پہلے شائع ہونے والے ایک مضمون میں متنبہ کیا ہے کہ ’ مسرور پاکستانیوں کو اب جنرل ضیا کے آمرانہ دور سے بھی زیادہ تاریک دور کا انتظار کرنا چاہئے‘۔ ملک کی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور آئینی انتظام کے دعوے کرنے والے حکمرانوں کو ایسے شبہات کا مناسب جواب دینے کا قصد بھی کرنا چاہئے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )