رحمن صاحب سے ملاقات کا سلسلہ تب سے ہی جاری تھا جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہر عید اور تہوار پر رحمن صاحب معہ خاندان ملتان تشریف لاتے تھے اور زیادہ تر اپنے بھائی اطہر رحمن صاحب کے گھر قیام پذیر ہوتے تھے۔ ان کے اعزاز میں تقریبات کا انعقاد بطور خاص کیا جاتا تھا اور ملتان کے اہلِ دانش بشمول ادیب و صحافی انکی بصیرت سے بہرہ مند ہوا کرتے ۔ مجھے باقاعدہ طور پر ان سے مستفید ہونے کا موقع اس وقت ملا جب میں اپنے ایم اے کے تھیسس کے سلسلے میں بڑے بھائی ڈاکٹر اختر علی سید کے ہمراہ انکے دفتر حاضر ہوا تھا۔ اسی شفقت اور متانت نے جس کا میں بچپن سے شاَہد تھا ہمارا استقبال کیا اور انہوں نے توجہ سے بات سنی، ضروری ہدایات اور HRCP کی مطبوعات میرے حوالے کیں، یہ تھا وہ نقطہ آغاز جس نے میرے لیے زندگی کے مقصد کی راہ متعین کر دی اور تقریباً ایک سال کے اندر اندر میں ایک بار پھر اختر علی سید صاحب کے ساتھ اسی دفتر میں رحمن صاحب کی خدمت میں موجود تھا استقبال اسی گرم جوشی سے ہوا جس کے ہم عادی تھے، رحمن صاحب کے ساتھ کام کرنے کی درخواست کی جس پر ارشاد فرمایا کہ کل سے تشریف لے آئیں کچھ کرتے ہیں یہ وہ جملہ تھا کہ جس نے میری تمام تر توانائیوں کو یکجا کر دیا اور کام کرنے کا وہ حوصلہ ملا جو آج پچیس سال گزر جانے کے باوجود کم نہ ہوا اسی سال 1997 میں پاکستان میں قومی انتخابات کا انعقاد ہوا اور HRCP نے پورے پاکستان میں الیکشن مانیٹرنگ کا کام شروع کیا جس میں مجھے بھی شامل کیا گیا جو میرے لیے ایک منفرد تجربہ تھا۔
دفتر میں ایک دن میں نے دورانِ کام اپنے کندھے پر تھپکی محسوس کی مڑ کر دیکھا تو رحمن صاحب اپنی مشفقانہ مسکراہٹ کے ساتھ کھڑے فرما رہے تھے کہ ”نقوی صاحب آپ بہت محنت سے کام کر رہے ہیں“
احمر رحمن جو کہ آئی اے رحمن کے چھوٹے صاحبزادے ہیں سے دوستی بھی HRCP کی دین ہے ایک مرتبہ ازراہ تجسس میں نے احمر سے پوچھا کہ کیا رحمن صاحب اور عزیز صدیقی صاحب بھی ایک دوسرے کی تحریروں کو ایڈٹ کرتے ہیں احمر نے HRCP کے انگریزی زبان کے سہ ماہی رسالے کا اداریہ دکھایا جس کو ہاتھ سے ایڈٹ کیا گیا تھااحمر نے بتایا کہ یہ اداریہ رحمن صاحب نے لکھا تھا جسے صدیقی صاحب نے ایڈٹ کیا اور یہ بھی اسی دن معلوم ہوا کہ یہ تو ایک عمومی سلسلہ تھا جو ظاہر کرتا ہے کہ دونوں صاحبان کی بصیرت اور اندازِ تحریر کتنا منفرد تھا رحمن صاحب نے ایم اے کی ڈگری فزکس میں حاصل کی اور فلمی صفحے سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا لیکن انکی تحریریں سیاست،سماجی و انسانی حقوق اور خاص طور پر طرزِ حکمرانی پر لاجواب اہمیت کی حامل ہیں انکی تحریریں ان معاملات کے ان گوشوں کو اشکار کرتی ہیں جو ایک عمومی بصیرت اور بصارت رکھنے والے فرد کے لیے شاید ممکن نہ ہو۔ میں نے اپنے تجربے اور ذاتی مشاہدے میں ایسے ادوار بھی دیکھے ہیں جس میں سماجی اور شخصی آزادیوں اور انسانی حقوق کے لیے آ واز بلند کرنا آسان نہیں تھا باوجود ان تمام حالات کے رحمن صاحب کی دباؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت لاجواب تھی رحمن صاحب نے تواتر سے اپنے قریبی رفقاء کو کھویا چند ایک طبعی اور کچھ غیر طبعی طور پر اس دارِ فانی سے کوچ کرتے رہے، جن میں ہمارے عزیز ترین ساتھی، بھائی راشد رحمن جو کہ ملتان ٹاسک فورس کے کوار ڈینیٹر تھے کی المناک شہادت کا سانحہ بھی شامل ہے رحمن صاحب نے اس وقت بھی اسُی حوصلے سے اس سانحے کو براداشت کیا جو ان کا خاصہ تھا ۔کچھ عرصہ HRCP میں کام کرنے کے بعد میں نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے مبصر کے طور مختلف ممالک میں کام کیا اور ہر دفعہ پاکستان آنے پر رحمن صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل کیا کرتا تھا وہ بڑی دلچسپی سے انُ ممالک کے حالات معلوم کرتے تھے اور رہنمائی فرماتے تھے۔
HRCP میں کام کے دوران میری ایک ذمہ داری دفتری خط و کتابت بھی تھی غالبا 1998 میں HRCP نے میر پور خاص میں ایک تربیت کا اہتمام کیا اس تربیت کے آ غاز سے پہلے اندرونِ سندھ کے ایک انسانی حقوق کے کارکن نے رحمن صاحب کو خط لکھا کہ اس کا دعوت نامہ کسی نے چرُا لیا ہے اس لیے اسے نیا دعوت نامہ جاری کیا جائے رحمن صاحب یہ خط پڑھ کر بہت محظوظ ہوئے غالبا وہ اس وقت یہ فخر کر رہے ہوں گے کہ جہاں اس ملک میں مال و متاع کی چوری عام ہے وہیں انسانی حقوق کی تحریک کے لیے جستجو کا بھی فقدان نہیں ہے… مجھے یقین ہے کہ رحمن صاحب اسی طمانیت کے ساتھ اس دینا سے رخصت ہوئے ہوں گے
فیس بک کمینٹ