پاکستان کی سیاسی صورتحال ایک پیچیدہ اور خطرناک موڑ پر پہنچ چکی ہے، جہاں تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ نے ملک کو سیاسی، سماجی اور معاشی بحرانوں کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی ایک طرف عوامی حمایت کے ذریعے اقتدار کی واپسی کی کوشش کر رہی ہے، تو دوسری جانب اسٹبلشمنٹ اپنی طاقت کے استعمال سے اس چیلنج کا مقابلہ کر رہی ہے۔ اس کشمکش میں عوام اور جمہوری اقدار بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
تحریک انصاف کے کارکنان کی طرف سے ہونے والے حالیہ احتجاجی مظاہرے اور دھرنے نے نہ صرف عوامی حمایت کو متحرک کیا بلکہ حکومتی اداروں کو بھی چیلنج کیا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے یہ مظاہرے شدت اختیار کر چکے ہیں، جن میں عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ ڈی چوک پر ہونے والے احتجاج کو پی ٹی آئی کی قیادت نے عوامی تحریک کے ایک اہم قدم کے طور پر پیش کیا، لیکن دھرنے کا اچانک خاتمہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔پی ٹی آئی کے کارکنان کے مطابق، ریاستی جبر نے ان کے مظاہروں کو دبانے کی کوشش کی، لیکن یہ بھی واضح ہوا کہ پارٹی قیادت خود بھی اپنی حکمت عملی میں ناکام رہی۔ دھرنے کے دوران بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور کے مبینہ فرار نے کارکنان میں مایوسی پیدا کی، جس سے پارٹی کی داخلی کمزوریوں کا بھی انکشاف ہوا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اسٹبلشمنٹ ہمیشہ ایک کلیدی کردار ادا کرتی آئی ہے، جو کہ اکثر متنازع بھی رہا ہے۔ تحریک انصاف کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کا ماضی کا اتحاد اور حالیہ ٹکراؤ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح ریاستی ادارے اپنے مفادات کے لیے سیاسی جماعتوں کو استعمال کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے ان کی حکومت کو غیر جمہوری طریقے سے ختم کیا، جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت ملک میں افراتفری پیدا کر رہی ہے۔
ڈی چوک پر ہونے والے احتجاج کو پی ٹی آئی کی قیادت نے جس انداز میں منظم کیا، وہ کئی پہلوؤں سے تنقید کا نشانہ بنا۔ بشریٰ بی بی کی قیادت میں مظاہروں کی سمت متعین کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ان کی سیاسی ناپختگی اور فیصلوں میں غیر یقینی نے پارٹی کے کارکنان کو مشکل میں ڈال دیا۔ جب مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کا وقت آیا، تو بشریٰ بی بی اور دیگر قائدین کی طرف سے مؤثر حکمت عملی کی کمی واضح ہوئی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، پی ٹی آئی کو احتجاج کے ذریعے حکومت سے کچھ مراعات حاصل کرنے کا موقع تھا، لیکن قیادت کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے یہ موقع ضائع ہو گیا۔ کارکنان نے خود کو تنہا محسوس کیا، اور مظاہروں کا اختتام مایوسی کے ساتھ ہوا۔تحریک انصاف کی موجودہ سیاسی حکمت عملی پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پارٹی نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا، اور یہ کہ وہ اب بھی ایک ایسی جماعت کے طور پر دیکھی جا رہی ہے جسے اسٹبلشمنٹ نے ایک وقت میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا۔ عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی ساکھ کو بحال کریں اور عوام کے اعتماد کو دوبارہ حاصل کریں۔
تحریک انصاف کے مظاہروں میں عوام کی شرکت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ عوام میں موجودہ حکومت سے عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام کے مسائل کے حل کے لیے مظاہروں کے بجائے مضبوط پالیسیوں اور مؤثر قیادت کی ضرورت ہے۔ اگر پی ٹی آئی اپنی قیادت کی خامیوں پر قابو نہیں پاتی، تو عوامی حمایت بھی دھیرے دھیرے کم ہو سکتی ہے۔پی ٹی آئی اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان جاری تنازع نے نہ صرف سیاسی استحکام کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ اس کے اثرات ملک کی معیشت اور سماجی ڈھانچے پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی، بے روزگاری میں اضافہ، اور عوام میں بڑھتا ہوا اضطراب اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سیاسی افراتفری کا حل نکالنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ذرا تصور تو کریں کہ 26 نومبر کی رات اگر کارکنان سے پہلے علی امین گنڈاپور گرفتار ہوتے تو آج پارٹی مضبوط پوزیشن میں ہوتی یا کمزور؟ پارٹی کارکنان مزید پُرجوش ہوتے یا مایوس؟ عمران خان کی رہائی کی تحریک مزید زور پکڑتی یا نہیں؟کیا ہوجاتا اگر علی امین گنڈاپور گرفتاری دے دیتے؟ وہ صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں، انہوں نے ایسا کوئی جرم نہیں کیا تھا جس کی ضمانت نہ ہوسکتی تھی، مگر موقعے پر دلیری دکھانی تھی، جو نہ دکھائی جاسکی، شاید اسی لیے ساری ہمدردیاں کارکنان کے ہی ساتھ ہیں کہ جو قافلہ سب کچھ قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہے، بدقسمتی سے اسے دلیر قیادت نہ مل سکی۔ اس سیاسی بحران کا حل صرف اور صرف جمہوری اداروں کی مضبوطی اور آئینی بالادستی میں مضمر ہے۔ سیاسی جماعتوں اور اسٹبلشمنٹ دونوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک کا مستقبل صرف عوام کی مرضی اور جمہوری عمل کے ذریعے ہی محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔پاکستان کے عوام کو اس وقت اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان عناصر کے خلاف کھڑے ہو سکیں جو ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ ذاتی مفادات کو ترک کر کے قومی مفادات کو ترجیح دیں۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال ایک ایسا بحران ہے جو فوری توجہ اور حل کا متقاضی ہے۔ تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان جاری تنازع نے جمہوری اقدار کو نقصان پہنچایا ہے اور عوام کے مسائل کو مزید بڑھایا ہے۔ اگر دونوں فریق مل کر سیاسی استحکام کے لیے کام نہیں کرتے، تو اس کا خمیازہ ملک کو مزید بحرانوں کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ یہ وقت ہے کہ تحریک انصاف اپنی قیادت کی خامیوں کو دور کرے اور عوامی مسائل کے حل کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائے، جبکہ اسٹبلشمنٹ کو بھی اپنی غیر جمہوری مداخلتوں سے گریز کرنا چاہیے تاکہ پاکستان ایک مستحکم اور خوشحال مستقبل کی جانب گامزن ہو سکے۔
فیس بک کمینٹ