کس کافر کو احتساب سے انکار ہے اور ایسا کہ کوئی قومی خائن اور راہزن بچ نہ پائے، خواہ وہ کیسی ہی کمیں گاہ میں جرم چھپائے بیٹھا ہو۔ لیکن! مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی نیک کام کبھی نیک نیتی سے ہوا ہے؟
آج کل سیاستدانوں اور اُن کے حواریوں کے احتساب کا جنون ہے کہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اور جیسا کہ مبینہ احتساب کا تقاضا ہے کہ گزشتہ دس برس سے بظاہر سیاہ و سپید کے مالک سیاسی حکمرانوں کے کرتوتوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ اس عظیم قومی فریضے کے لیے قائدینِ اقتدار و اختلاف نے خودچنا بھی تو ہماری عزت مآب عدلیہ کا روشن ستارہ جناب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو۔ اگر ہر دو بڑی جماعتوں کو اس عصائے مشرفی پر اعتراض تھا جیسا کہ متوفی میثاقِ جمہوریت میں کہا گیا تھا، تو پھر دو بڑی حکمران جماعتوں نے اس قانون کی اصلاح کیوں نہ کی؟اگر سینیٹ میں سینیٹر فرحت اللہ بابر اور سینیٹر رضا ربانی نے سب کے بلااستثنیٰ احتساب کی رٹ لگائی بھی تو اُن کی پکار سیاسی موقع پرستی کے نقارخانے میں فقط طوطی کی آواز ثابت ہوئی۔
پہلے قمر الزماں چوہدری احتساب کے لاٹ صاحب بن کے وارد ہوئے تو احتساب کی توپوں کا رُخ زیادہ تر سندھ کے بھاگ بڑھاتا نظر آیا۔ خیر سے جب کرپشن اور دہشت گردی کے ملاپ کا راز پا لیا گیا تو پھر پیپلز پارٹی والوں کی دوڑیں لگ گئیں اور وہ دامِ صیّاد میں پھڑک کے رہ گئے۔ مسلم لیگ والوں کو اطمینان تھا کہ چلو بلا کا رُخ حریفوں کی جانب ہے اور پنجاب سے کوسوں دُور۔ لیکن ظالم آسماں ہے کہ اسے رنگ بدلتے کہاں دیر لگتی ہے۔
پانامہ لیکس کا آسمانی گولا کیا گرا کہ اقامہ کی دُم میں پھنس کر میاں نواز شریف نہ صرف وزارتِ عظمیٰ سے گئے اور وہ بھی تاحیات۔ بلکہ ن کے لاحقے والی مسلم لیگ کی صدارت سے بھی۔ اور پانامہ کے مقدمات میں ابھی تاریخ رقم ہونا باقی ہے۔ بھلا ہو وزیراعظم عباسی اور قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ کا کہ وہ لائے بھی تو ایک ایسے شخص کو جس نے احتساب کی توپوں کا رُخ خادمِ پنجاب کی ’’اچھی حکمرانی‘‘ کی طرف موڑ دیا۔ اب میاں شہباز شریف ہیں کہ (جو زرداری کی کرپشن کا مال اُن کا پیٹ پھاڑ کر نکال لانے میں بہت مشہور ہوئے) آفتابِ احتساب کی آب و تاب سے بے حال ہوئے جاتے ہیں اور جن پتوں پہ اچھی حکمرانی کا انحصار تھا وہی گرم ہوا دینے لگے ہیں۔
لیکن داد دیجئے خورشید شاہ اور عباسی صاحب کے حُسنِ انتخاب کی کہ نیب کے چیئرمین نے ایسی نو بال پہ میاں نواز شریف کی وکٹ اُڑانے کی کوشش کی ہے کہ کوئی نہیں جو اُن کے حق میں اُنگلی اُٹھا سکے۔ احتساب بیورو کی پُرشکوہ عمارت خود اس کے بورڈ اور چیئرمین کے ہاتھوں زمیں پہ آ رہی اور خود ان کے احتساب کا تقاضا زور پکڑ رہا ہے۔
وہ ورلڈ بینک کی 2016ءکی ایک ایسی رپورٹ جو محض مفروضاتی تھی اور جس کی وضاحت بہت پہلے ورلڈ بینک اور اسٹیٹ بینک بھی کر چکے تھے کہ اس کا حقیقت سے واسطہ نہیں۔ رپورٹ کا مفروضہ یہ تھا کہ 1947ء کے بعد سے آنے والے معاشی مہاجرین کی اگر مالی ترسیلات کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ 4.9 ارب ڈالر ہو سکتا تھا۔ رپورٹ میں یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ اس کا اطلاق باہم دست و گریباں ہندوستان اور پاکستان پر نہیں ہوتا۔ نیب کے بورڈ کو جانے کیا سوجھی کہ ایک معاصر میں چھپنے والے کالم میں میاں نواز شریف اور اُن کی مبینہ منی لانڈرنگ کے ساتھ اس مفروضاتی رپورٹ کو جوڑ کر پاکستان سے 4.9 ارب ڈالر بھارت بھجوانے کی لایعنی شُرلی کو ایک عظیم اسکینڈل میں بدل دیا۔
احتساب ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ وہم و گمان میں بھی نہ تھا! لگتا ہےکہ بغیر تصدیق کے وہ ایک کالم نویس کی ہرزہ سرائی میں بہہ نکلے۔ اسٹیٹ بنک اور ورلڈ بنک نے اس خبر کو سختی سے ردّ کر بھی دیا تو بھی احتساب کے بورڈ اور کمشنر صاحب پھر بھی مان نہیں رہے ۔ خدا کا خوف کریں کہ 550 ارب روپے کی پاکستان سے بھارت ترسیل (Remittance) کیوں کر ممکن ہے اور وہ بھی کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے۔ کالم نگار کا مقصد فقط ایک سنسنی خیز ملامت کے سوا کچھ نہ تھا، لیکن نیب نے اس پر یقین کر کے جس تفتیش کا ببانگِ دہل اعلان کر دیا ہے اور پھر اس پر قائم رہتے ہوئے تفتیش جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، ہمیں اس کے نتائج کا بڑی بے چینی سے انتظار رہے گا۔
اگر پہاڑ کھود کر چوہا بھی برآمد نہ ہوا تو پھر جو کالک ایک سابق وزیراعظم کے منہ پر قریباً 5 ارب ڈالر ازلی دشمن بھارت منتقل کرنے کے حوالے سے ملی گئی ہے تو یقیناًالزام لگانے والا اس کا حقدار ہونا چاہئے۔ البتہ یہاں یہ بتانے میں حرج نہیں کہ بھارت کی پاکستان کے ساتھ بذریعہ دبئی تجارت کا حجم بھی اتنا ہی بتایا جاتا ہے۔
ابھی 11 مئی کی رات گئے جب یہ کالم لکھ رہا ہوں، تو آج سے پانچ برس پہلے بھی انتخابات ہوئے تھے، جن کے بارے میں عمران خان پہلے دن سے ہی شاکی رہے اور اب تو اُنہوں نے بھی آصف علی زرداری کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریٹرننگ آفیسرز (ROs) کی دھاندلی قرار دیتے ہوئے ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کی کارستانی قرار دیا ہے (جس کی کہ اس نے تردید بھی کر دی ہے)۔
ایسے میں سپریم کورٹ نے اصغر خان کے 1990ء کے انتخابات کی دھاندلی اور اس میں پیسے کے ناجائز استعمال کے کیس میں سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے جنرل اسد درانی کی نظرثانی کی اپیل ردّ کر کے، عمران خان کو موقع فراہم کر دیا ہے کہ مقتدرہ کے سابق لاڈلے کو ’’آسمانی مخلوق‘‘ سے فیض پانے کی جوابی پھبتی کس سکیں۔ غلط عمران خان بھی نہیں کہتے اور نواز شریف بھی نئے لاڈلے بارے کچھ ایسی جھوٹی تہمت نہیں لگا رہے جو امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کے انتظار میں گھلا جا رہا تھا اور اب اسی آسمانی مخلوق سے اگلے انتخابات میں ’’خیر‘‘ کی اُمید لگائے ہوئے ہے۔
ہم کب سے انتخابات اور انتخابی نتائج کو اغوا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ 2002ء کے انتخابات کے بارے میں بھی ہم جنرل مشرف اور اُن کے کارندوں کی کارستانیاں بڑے ہی معتبر افسر کی زبانی سن چکے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ہم نے طالبان کے ہاتھوں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو انتخابی میدان سے باہر ہوتے دیکھا تھا جس کے نتیجے میں پختون خوا میں تحریکِ انصاف اور پنجاب میں مسلم لیگ نے میدان مار لیا تھا۔ اب کی بار پاپڑ کچھ زیادہ ہی بیلے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن بلوچستان سے اغوا ہو چکی اور سینیٹ کے انتخابات میں کس طرح ایک اجنبی کو چیئرمین سینیٹ بنوانے میں عمران خان آصف علی زرداری کی گود میں بیٹھے نظر آئے۔
پیغام ہر طرف پھیل چکا ہے کہ نواز شریف اب واپس نہیں آئیں گے۔ اس کا طلسماتی اثر یہ ہوا ہے کہ لیگ کے پرانے گڈریئے نئی چراگاہوں کی تلاش میں چل نکلے ہیں۔ اس کارِ خیر میں سرائیکی وسیب کے پرانے جاگیردار گھرانوں کا کوئی ثانی نہیں۔ انہیں ہانک کر بذریعہ صوبہ جنوبی پنجاب محاذ تحریکِ انصاف کی زینت بنا دیا گیا ہے۔ درجن سے زائد اراکینِ اسمبلی نئے لاڈلے پہ فریفتہ ہو چکے ہیں، جبکہ کھڑکی توڑ ہفتہ ابھی آنا باقی ہے۔ ہمارے حاکموں کو بھی کیا شوقِ خدائی ہے کہ کبھی ایک کو سر چڑھاتے ہیں اور پھر پٹختے ہیں اور پھر کسی دوسرے کو سر چڑھاتے ہیں اور اس بار بھی شاید ایک اور پٹخنی لگانی پڑ جائے۔ (عمران خان ہوشیار!) اور یہ کھیل بس اب اکتا دینے والا ہو گیا ہے۔
ابھی تو فلم شروع ہوئی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ احتساب کی طرح بیچاری بی جمہوریت کے ساتھ پھر وہ ہاتھ ہونا ہے کہ اسے پھر ایک بار چھٹی کا دودھ یاد دلایا جائے گا کہ تمہاری بس یہی اوقات ہے۔ ووٹ کو عزت ملنے لگی تو تمہارا کیا بنے گا کالیا (ہر قماش امرا)!
( بشکریہ: روزنامہ جنگ)