آج قیام پاکستان کے 76 سال مکمل ہوگئے۔ قوم 77 واں یوم آزادی منا رہی ہے۔ اس موقع پر ملک کے تین بڑوں، صدر مملکت عارف علوی ، سابق وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پاکستان کے خوشگوار اور روشن مستقبل کی نوید دی ہے۔ تاہم ملک کے پچیس کروڑ عوام روشنی کی یہ کرن دیکھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ یوم آزادی والے دن ایک ایسے شخص نے ملک کے نئے نگران وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا ہے جسے شہباز شریف اور راجہ ریاض کے بقول تمام ’آئینی تقاضے‘ پورے کرتے ہوئے جمہوری طریقہ کار کے تحت اس ذمہ داری کے لئے نامزد کیا گیا ہے ۔ لیکن اس سرکاری ’پوزیشن‘ سے قطع نظر انوار الحق کاکڑ کو آئینی و پارلیمانی طریقہ کے مطابق چننے کی بجائے کہیں اور سے نامزد کیا گیا تھا اور ملک کے ’بااختیار وزیر اعظم‘ اور شاید اتنے ہی ’بااختیار و خود مختار‘ اپوزیشن لیڈر اس تجویز کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور تھے۔ یوم آزادی پاکستان کے موقع پر نگران سیٹ اپ کے نام پر ایک ایسی حکومت ٹھونسی جارہی ہے جس کے ارادوں و عزائم کے بارے میں کچھ خبر نہیں ہے۔
انوارالحق کاکڑ کے ماضی ، سیاسی سفر اور اس سفر کے دوران زینے چڑھنے کے طریقوں کو دیکھتے ہوئے البتہ یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ ان کی قیادت میں ملک میں کون سا نیا تجربہ کیا جائے گا۔ کیایہ تجربہ قوم کے حالات تبدیل کردے گا؟ اور جو کام منتخب اور جمہوری لیڈر و سیاسی جماعتیں سرانجام نہیں دے سکیں، کیا نگران وزیر اعظم کے طور پر مختصر مدت کے لئے برسر اقتدار آنے والے کاکڑ اس مقصد کو حاصل کرپائیں گے۔ اس حوالے سے یہ سوال بلکہ جواب نما سوال بھی فضا میں موجود ہے کہ کیا واقعی جو تجربے ماضی میں مسلسل ناکامی کا شکار ہوتے رہے ہیں، کیااب اسی تجربے کو ایک نئے انداز میں دہرانے سے خوشحالی و نیک نامی کا دور اہل پاکستان پر وارد ہو سکے گا؟
اس حوالے سے اہل وطن مستقبل قریب کے بارے میں بے یقینی و پریشانی کا شکار ہیں۔ یہ اندازے تو قائم کئے جارہے ہیں کہ گزشتہ اسمبلی کے دورانیے میں دو مختلف سیاسی اتحادوں نے امور مملکت کی باگ ڈور سنبھالی اور بظاہر یہ دونوں اتحادی حکومتیں استحکام، سیاسی افہام و تفہیم، بے چینی کے خاتمہ کے علاوہ معاشی طور سے ملک کو کسی اطمینان بخش سمت میں گامزن کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ان دو ناکام تجربات کی روشنی میں یہ احساس پختہ ہورہا ہے کہ اب نگران حکومت کے نام پر ملک میں کسی ایسے ’گروہ‘ کومسلط کیا جارہا ہے جو منتخب تو نہیں ہے لیکن اس کے پاس معاشی مسائل کا حل موجود ہے اور وہ متعدد ایسے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی صلاحیت سے مالامال ہے جس کے ذریعے پاکستانی عوام کے دلدر دور ہوجائیں گے اور وہ اپنے وطن کو ترقی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑتا دیکھ سکیں گے۔
البتہ اس نئے نظام کی سربراہی کے لئے جس شخص کو چنا گیا ہے، انہیں دیکھتے ہوئے یہ شبہ یقین میں تبدیل ہونے لگتا ہے کہ اصل حکمرانی کسی دوسری جگہ منتقل کی جارہی ہے ۔ خانہ پری کے لئے نام نہاد آئینی انتظام کے نام پر ایک وفادار و اطاعت شعار قسم کا نگران وزیر اعظم قوم کو فراہم کردیا گیا ہے جو سامنے آنے والے فرامین پر دستخط کرنے کے علاوہ قوم کو وہی دلاسہ دیتا رہے گا جو آج آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کاکول کی تقریب سے خطاب میں دینے کی کوشش کی ہے کہ ’ قوم اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے‘۔ مگر جب سوال اٹھایا جائے کہ کیسےتو اس کا جواب کم از کم عام فہم کے لوگوں کو دستیاب نہیں ہوتا۔
سبک دوش ہونے والے وزیر اعظم شہبازشریف نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ملکی اسٹبلشمنٹ کے لئے تین اہم خدمات سرانجام دی ہیں۔ ایک: فوج کو معاشی ترقی کے تمام منصوبوں کی ذمہ داری سونپ دی۔ دوئم: نگران وزیر اعظم کے اختیارات میں اضافہ کا قانون منظور کرواکے انہیں مکمل باختیار بنایا دیا۔ سوئم: انتہائی سرعت سے متعدد ایسے قوانین منظور کروالئے گئے جن کے ذریعے ریاست کو عوامی حقوق پر مزید بالادستی حاصل ہوگئی۔ یوں تو ماضی کے تجربات شاہد ہیں کہ اسٹبلشمنٹ اور ریاستی اداروں نے کسی آئینی اختیار اور قانونی جواز کے بغیر بھی شہریوں کے حقوق سلب کرنے اور مرضی کے فیصلے تھونپنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی لیکن شہباز حکومت نے نئی قانون سازی کے ذریعے اب ریاستی اداروں کو شہریوں کے ساتھ زور ذبردستی روا رکھنے کا باقاعدہ جواز بھی فراہم کیا ہے۔ اسی لئے سردار اختر مینگل نے نواز شریف کے نام ایک خط میں متنبہ کیا ہے کہ یہ قوانین خود انہی لوگوں کے خلاف استعمال ہوں گے جو انہیں منظور کرنے میں پیش پیش تھے۔
گزشتہ قومی اسمبلی کے دوران میں دومختلف حکومتوں کے تجربے کئے گئے۔ دونوں تجربے فوج کے سپانسر شدہ تھے۔ پہلے مرحلے میں عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کو ساڑھے تین سال تک حکومت کرنے کا موقع دیا گیا۔ ان سے ’مایوس‘ ہوکر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر حکمرانی کا موقع ملا۔ اس حوالے سے دو پہلوؤں پر غور کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ ایک: عمران خان کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سیاست ختم کرنے کے لئے اقتدار میں لایا گیا تھا۔ انہوں نے یہ کام بخوبی سرانجام بھی دیا اور ان دونوں پارٹیوں کی اہم ترین قیادت تحریک انصاف کے دور میں جیلوں میں بند رہی۔ دوئم: اپریل 2022 میں پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی سرپرستی کے ذریعے ’عمران پراجیکٹ‘ سمیٹنے کا اہتمام ہؤا۔ شہباز حکومت نے نہایت سعادت مندی سے تحریک انصاف کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا کام کیا۔ رہی سہی کسر سانحہ 9 مئی نے پوری کردی جب عسکری تنصیبات پر حملوں کا بہانہ بنا کر فوج خود براہ راست تحریک انصاف کو سز ا دینے میں متحرک ہوئی۔ اس وقت عمران خان سمیت تحریک انصاف کے اہم لیڈر یا تو قید ہیں یا پارٹی چھوڑ کر نیاعہد وفاداری باندھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ان دونوں حکومتوں کے ’ناکام ‘ تجربوں کے بعد اب شاید یہ فیصلہ کیا گیا ہے نگران حکومت کے تحت کوئی ایسا حکومتی انتظام فراہم کیا جائے جس میں فوج کسی اڑچن کے بغیر ملک و قوم کو تمام مشکلات سے نکال کر ’صراط مستقیم‘ پر گامزن کرسکے۔ شہباز شریف نے اپنی حکومت کے خاتمہ سے پہلے نئی مردم شماری منظور کرکے یہ اہتمام بھی کردیا تھا کہ اس عذر کو انتخابات کے التوا اور نگران حکومت کے دورانیے میں غیر آئینی توسیع کے لئے استعمال کیا جاسکے۔ ابھی تک الیکشن کمیشن نے انتخابات کے کسی شیڈول اور مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیوں کے کسی ٹائم فریم کا اعلان نہیں کیا تاہم بیشتر تجزیہ نگار متفق ہیں کہ انتخابات 90 دن کی آئینی مدت میں منعقد نہیں ہوسکیں گے۔ اس دوران ملک کی راہ متعین کرنے کا عسکری منصوبہ مکمل کیا جاسکے گا۔
جنرل عاصم منیر پہلے آرمی چیف نہیں ہیں جنہیں یہ گمان لاحق ہؤا ہے کہ ان کی سربراہی میں افواج پاکستان سرحدوں کی حفاظت بھی کرسکتی ہیں ، دشمن کو نیچا دکھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی صرف وہی ملکی معاشی ترقی اور سماجی اصلاح کا کام بھی سرانجام دے سکتی ہیں۔ اسی لئے آج بھی انہوں نے یقین دلایا ہے کہ ’قوم اور فوج میں دراڑ ڈالنے کی کوششیں ناکام ہوں گی۔ افواج پاکستان اور عوام ایک تھے، ایک ہیں اور ایک رہیں گے‘۔ ان سے پہلے براہ راست حکومتیں سنبھالنے والے یا پس پردہ احکامات کے ذریعے امور مملکت طے کرنے والے تمام جرنیلوں کو بھی یہی یقین تھا۔ لیکن تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ یہ مقصد حاصل نہیں کیا جاسکا۔ اسی کشمکش کی وجہ سے ملک اس وقت ابتری و بدحالی کا شکار ہے۔ حیرت ہے کہ جس طریقہ علاج نے ملک کو اس حال تک پہنچایا ہے، اسے جاری رکھنے بلکہ اس کی خوراک میں اضافہ کرنے کا عزم ظاہر کیا جارہا ہے۔
افواج اور عوام کے درمیان پائی جانے والی دراڑ پیدا کرنے والی قوتیں نہ جانے کون سی ہیں لیکن پاک فوج کی قیادت کو خود بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی معاملات میں مداخلت سے فوج کے بارے میں رائے عامہ تقسیم ہوئی ہے۔ اس تقسیم کو کم کرنے اور عوام کے ساتھ اعتماد سازی کے لئے فوج کو ملکی سیاسی امور سے خود کو دور کرنے اور ہر مرحلے پر ایک نئے تجرباتی منصوبے کے نام پر نئے ’حوصلہ و عزم‘ کے ساتھ ملک کی ترقی کا بوجھ اٹھانے کا طریقہ ترک کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ممکن ہے کہ سیاست دان نااہل اور نکمے ہوں اور وہ عوام کے اعتماد اور ضرورتوں پر پورے نہ اترتے ہوں۔ لیکن ملکی آئین ایسے عناصر سے نجات پانے کا جو راستہ تجویز کرتا ہے، وہ انتخابات اور بار بار عوام کی رائے حاصل کرنے کا نظام ہے۔ جمہوریت میں لوگ بالآخر اچھے برے کی پہچان کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ البتہ اگر اس دوران میں غیر آئینی تجربوں کو جائز سمجھ لیا جائے تو ویسی ہی مشکلات اور بداعتمادی پیدا ہوتی ہے جس کا اس وقت پاکستانی عوام اور افواج کو سامنا ہے۔
فوج کے پاس عوام کے بھروسہ کو ماپنے کا نہ جانے کون سا پیمانہ ہے لیکن روائیتی دانش تو یہی کہتی ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے اور ایک سی غلطیاں کرنے سے ایک سے نتائج ہی سامنے آتے ہیں۔ گزشتہ سولہ ماہ کے دوران شہباز حکومت نے زرعی، ترقیاتی اور معاشی فیصلہ سازی اور منصوبوں میں فوج کے حصہ و اختیار میں اضافہ کیا ہے۔ حالانکہ ملکی معاشی مسائل سے نمٹنے کے لئے معیشت میں فوج کے حجم کو کم کرنے، اسے خالصتاً دفاعی مقاصد تک محدود کرنے اور روزمرہ امور مملکت میں فوجی قیادت کی مشاورت ترک کرنے جیسے اہم اور مشکل فیصلے کرنے کی ضرورت تھی۔
اس دھرتی پر آباد 25 کروڑ انسان اپنے وطن کو ترقی و کامرانی کے راستے پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس راستے کا تعین ملکی آئین میں کردیا گیا ہے۔ اس سے گریز کا کوئی بھی اقدام عوام میں اتفاق رائے پیدا نہیں کرسکتا۔ گریز کے انہی طریقوں سے کبھی ’ووٹ کو عزت دو ‘ اور کبھی ’حقیقی آزادی‘ کے نعرے جنم لیتے ہیں۔ یہ نعرے فوج اور عوام کے درمیان فاصلہ کم کرنے کی بجائے ، اس میں اضافہ کرتے ہیں۔ ملک کی نئی نگران حکومت اور اس کی سرپرست فوجی قیادت کو ضرور سوچنا چاہئے کہ عوام کا اعتماد محض تقریروں سے حاصل کیا جاسکتا ہے یا اس مقصد کے لئے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی بھی ضروری ہوگی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ