میں کالم نویس تو نہیں ہوں کیونکہ اس مشکل کام کیلئے بہت زیادہ مطالعہ، دنیا میں تیزی سے رونما ہونے والے واقعات پر گہری نظر، آپ کو متعارف کرانے والی مخصوص لابی، سیاست، اسٹیبلشمنٹ سے جڑے افراد سے تعلق داری، الفاظ کی جادوگری لازم و ملزوم ہیں ۔بدقسمتی سے معاشی مسائل میں گھرے مجھ ایسے شخص کے پاس ایسی فرصت کہاں؟ لیکن 1970ءسے جب پرائمری سکول کا طالب علم تھا تو سیاست سے دلچسپی چلی آ رہی ہے۔ ان آنکھوں نے جمہوریت اورایٹمی طاقت کی بنیاد رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی انتخابی مہم بھی دیکھی ۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی، 90 ہزار سے زائد پاکستانی فوج کو قیدی بنائے جانے کا سانحہ بھی برداشت کیا اور عوام نے جب ایک زیرک، نڈر، غریب پرور لیڈر کا انتخاب کیا اسے حق قیادت بخوبی انجام دیتے ہوئے بھی دیکھا۔ یہ ساری باتیں تاریخ کا حصہ ہیں اور جو کچھ ان کیساتھ ہوا اس سے بھی چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان کے موجودہ حالات کا اس وقت سے تقابلی جائزہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں جو مظاہرہ تسلسل سے کیا جا رہا ہے ۔جس طرح بلے بازی میں ٹائمنگ کو خاص اہمیت ہوتی ہے اسی طرح سیاست میں بھی وقت کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ یہاں دیر آید درست آید والی ضرب المثل صادق نہیں آتی۔
میری چودھری نثار علی خاں سے کوئی شناسائی نہیں۔نہ ان کے طرز سیاست کا معترف ہوں لیکن جب کوئی دشمن بھی سچی اور کھری بات کہہ جائے تو اسے داد دینی پڑتی ہے۔ حالیہ ہوئے عام انتخابات میں بلاول بھٹو نے نامساعد حالات کے باوجود اچھی انتخابی مہم چلائی۔ ان کی اس کمپین کی چودھری نثار نے کھل کر تعریف کی جو اچھا لگا۔ سابق وزیر داخلہ نے 30 جون کو ایک تقریب میں کہا کہ عمران خان کو اقتدار عوام نے نہیں کسی اور نے دیا ہے ۔ان کے بقول کار ڈرائیور کو جہاز اڑانے کیلئے پائلٹ کی جگہ بٹھانے والے ہی موجودہ صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کہا حالات بند گلی کی طرف جا رہے ہیں۔ سچ پوچھیے سابق وزیر داخلہ کی بات دل کو لگی۔ چودھری نثار علی خان ایک جہاندیدہ اورمنجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے ان کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔کتناہی اچھا ہوتا کہ اس بحران سے نکلنے کیلئے کوئی قابل عمل حل ہی تجویز کر دیتے۔ پی ٹی آئی نے جو الیکشن میں وعدے کئے تھے اس کے برعکس مسند اقتدار پر بیٹھتے ہی ہزاروں افراد بیروزگار ہو گئے میڈیا کو بدترین بحران کا سامنا ہے۔ وفاقی حکومت نے مطبوعات کو واجب ادا 91 کروڑ میں سے 14کروڑ ابھی تک روکے ہوئے ہیں۔ جس سے صحافی کارکن بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اور ان کی اجر تیں التوا کا شکار ہیں۔ خارجہ محاذ پر بھی پاکستان کو پسپائی کا سامنا ہے۔ پاکستان کے قابل اعتماد دوست نہ صرف تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں بلکہ وہ ہمارے بدترین دشمن سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ وسائل سے مالا مال پاک سرزمین کو دہشت گردوں نے اجاڑ کر رکھ دیا اور دکھ تو یہ ہے کہ یہ دہشت گرد بدقسمتی سے ہمارے ہی پیدا کردہ ہیں اور ہم خود ہی سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ ہر حکومت یہی کہتی آئی ہے کہ ہمیں مسائل ورثے میں ملے ہیں ،خزانہ خالی ہے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہیں۔ ابتدائی ایام میں اچھی شروعات کے بجائے تبدیلی سرکارکی مایوس کن پرفارمنس کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جو مشکل حالات میں بروقت اور درست فیصلے کرے۔ آئیڈیل کنڈیشنزمیں تو سبھی کھل کر کھیلتے ہیں۔ چور چور ڈاکو ڈاکو کی رٹ لگائے رکھنے سے ہماری ہی بدنامی ہو گی۔ یہ وقت کچھ کر گزرنے کا ہے۔