فوج کے معاملے میں عراق و لیبیا کی مثال بے جا و بے محل اور بالکل غلط بتلائی جاتی ہے. ان پر امریکی حملے اور پھر ان کی شکست و تباہی کیوجہ یہ ہرگز نہیں تھی کہ ان کی فوج یا تو تھی نہیں، یا پھر کمزور تھی، یا پھر وہ مالی طور پر کمزور تھے.
سچ یہ ہے کہ دونوں ممالک عرب قومیت پرستانہ ڈکٹیٹروں کے طویل ظالمانہ و متشددانہ راج کی گرفت میں تھے، دفاع اور اندرونی جاسوسی پر بیحد و بے حساب خرچ کر رہے تھے. بھائی جیسے اپنے بھائی پر بھی جاسوسی کیلئے مامور رہتا تھا. عوام کے اندر آمروں کیخلاف نفرت کا لاوا اُبل رہا تھا. دونوں کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد دنیا نے اس بے انتہا نفرت کا بھرپور مشاہدہ کیا تھا.
1990-91 میں بش سینئر کے حملے سے پہلے صدام کی عراقی فوج و فضائیہ دنیا کی چھٹی رینکنگ پر ہم سے آگے تھی. اور اسے دس سالہ طویل جنگ کا تجربہ بھی حاصل تھا.
جبکہ لیبیا کا معمر قذافی آئرش دہشتگردوں کو برطانیہ کیخلاف فائنانس کرتا تھا، اور مغربی طیارہ تباہ اور سینکڑوں مسافروں کے قتل میں ملوث بھی رہا تھا. ایک وقت میں تو وہ ایٹمی بم بنانے کیلئے ہر ضروری سامان اکٹھا کرنے پر بھی کامیاب ہو چکا تھا.
مگر پھر کیسے ڈھیر ہوئی ساری عراقی فوج..؟ کیسے کیسے امریکی بموں نے اسے ریت کے نیچے گاڑھ دیا..؟ بیشمار جرنیل تو حملے سے پہلے، راتوں رات امریکہ کے ہاتھوں بِک بھی چکے تھے. حالانکہ انہوں نے کبھی امریکہ میں تربیت بھی نہ پائی تھی. کیونکہ عراق تو ہمیشہ روس نواز رہا تھا.
یوں جنگ سے پہلے ہی امریکہ اگر عراقی جرنیل خرید کر جنگ کے اہداف اپنے لئے کہیں آسان بنا سکتا ہے، تو باقی ممالک کس کھیت کی مولی ہیں. مستزاد یہ بھی کہ وہ امریکہ میں تربیت بھی حاصل کرتے رہے ہوں، اور امریکی سی آئی اے کے پے رول پر بھی ہوں، اور انکی آل اولاد امریکہ میں سیٹل بھی ہو چکی ہوں.
ایک اینٹ اٹھاؤ، چار چار افسروں کی اولادیں امریکہ سیٹ نظر آتی ہیں. اور ریٹائرمنٹ کے بعد افسرانہ خاک بھی بالآخر وہیں جاتی ہے، جہاں کا خمیر تھا.
ایبٹ آباد کا امریکی ایکشن آنکھیں کھولنے اور جگانے کیلئے کافی ہے، مگر کیا کوئی سبق حاصل کیا گیا…؟ کیسے ہمارا ہارڈ وئیر یا تو اندر سے پہلے ہی بند کر دیا گیا ہوا تھا، یا آنے والوں کیجانب سے جام کر دیا گیا تھا.
یہ مال و اسباب اور جم غفیر کس کام کے، جب کسی ایکشن سے پہلے ہی یوں آسانی سے بے بس اور بے دست و پا کئے جا سکیں، یا جرنیل ڈالروں میں بِک سکیں یا جہاں کی قیادت اپنے برادر ملک کے مہمان سفیر کو اور بچوں و خواتین سمیت اپنے شہریوں کو ڈالروں کے بدلے بیچنے جیسی شرمناک حرکت کا ارتکاب کرے.
پھر اس قبیح حرکت پر شرم و پچھتاوے کی بجائے، اسے کوئی قابل فخر معرکہ سمجھے، اور اسکا کریڈٹ لینے کیلئے بڑے فخر سے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کرے.
سمجھنے والوں کیلئے لمحاتِ فکریہ اور بڑی بڑی نشانیاں ہیں. مگر جب سمجھنا بھی چاہئیں تو…!!
عراق جنگی میدان میں، ہتھیاروں میں، یا دولت میں کمزور بالکل نہیں تھا، بلکہ یہاں تو محض عوام ہی کمزور اور بے بس تھی. ایک متشدد آمر نے انہیں دبا کر رکھا ہوا تھا. آزادی رائے، جمہوری اقدار اور شعور سے ماوراء عوام پر انتہائی مضبوط فوج کی پشت پناہی کے ذ ریعے اس آمر نے تعلیم و ترقی کے تمام راستے مسدود کر رکھے تھے.
یہ جنگ صرف صدام، اس کے نظام، اور اس کی جانب سے ہمسایہ عرب بھائیوں کیلئے خطرات، اور کویت پر اسکی جارحیت کے پیش نظر تھی. اگر عراق ایک جمہوریہ ہوتی یا عوام اقتدار میں اور فیصلہ سازی میں کسی قدر شریک ہوتے تو ان پر یوں قیامت نہ ڈھائی جا سکتی.
فیس بک کمینٹ