مشرقی پاکستان میں اُردو بولنے والے بڑی تعداد میں موجود تھے جو بہاری کہلاتے تھے۔یہ بہار، یوپی اور بھارت کے دوسرے علاقوں سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے،ان کی الگ شناخت تھی ۔وہ مقامی لوگوں کے لباس، رہن سہن اور رسم ورواج کو اپنانے کی بجائے اپنی پرانی روایات سے چمٹے رہے، ان میں سے اکثر نے بنگلہ زبان سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور نہ ہی اپنے بچوں کو اس کی تعلیم دلوائی ۔وہاں کے تعلیمی اداروں میں بہاری طلبا کی تعداد بہت کم تھی۔یہ لڑکیوں کو سکول بھیجنے کی بجائے گھر پر ہی قرآن پاک اور اُردو پڑھنا لکھنا سکھاتے تھے البتہ جہاں اُردو میڈیم سکول تھے وہاںیہ اپنے بچوں اور بچیوں کو اُردو میڈیم سکول میں داخل کرواتے۔ بہت کم لوگ اپنی بچیوں کو بنگلہ لکھنا پڑھنا سکھاتے تھے ،سچ تو یہ ہے کہ یہاں کے اُردو بولنے والوں نے مقامی لوگوں کی ثقافت،زبان ،لباس اور رسم و رواج کو اپنانے کی کو شش ہی نہیں کی اور اُن سے میل جول بڑھانے کی بجائے اُنہیں خود سے کم تر اور غیر مہذب سمجھتے رہے،اس طرح وہ ایک قوم نہ بن پائے اور ان میں فاصلہ بڑھتا گیا۔
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ایسی بساط پلٹی کہ کل تک بنگالیوں کو غیر مہذب کہنے والے آج عبرت کا نشان بن گئے تھے ،اُنہیں ملازمتوں سے نکال کر ان کے گھروں اور دُکانوں پر قبضہ کر لیا گیا،اور بے چارے بہاری آج تک کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں پڑے اپنے پاکستانی ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں۔
یہ تھیں وہ چند وجوہات جن کی بنا پر پاکستان دو لخت ہوا۔سقوطِ ڈھاکہ کے موضوع پر اب تک بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں بیشتر کتابوں کے مصنفین نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن پر تنقید کی ہے اور فوج کو اس سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جو کہ غلط ہے ،اس سانحہ کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے ۔اگر ہمارے سیاستدان، حکمران اور دانشور اپنا صحیح کردار اداکرتے تو شاید فوجی آپریشن کی نوبت ہی نہ آتی۔در اصل 1971ءتک حالات اس قدر بگڑ چکے تھے کہ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔اب تک اس موضوع پر جو کچھ لکھ گیا اسے پڑھ کر یہی لگتا ہے کہ فوج آپریشن کے نام پر بنگالی عوام پر ظلم ڈھارہی تھی۔ حالاںکہ یہ آپریشن بھارتی دہشت گردوں کے خلاف تھا جو مشرقی پاکستان میں داخل ہو کر تخریب کاری کر رہے تھے ۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت نے کلیدی کردار ادا کیا ۔بھارتی جہاز رات کی تاریکی میں مشرقی پاکستان کے حدود میں داخل ہو کر مکتی باہنی کے ٹھکانوں کے نزدیک اسلحہ گراتے تھے جو پاکستانی فوج کے خلاف استعمال ہو رہا تھا۔ ہمیں فوج پر تنقید کرتے وقت بھارت کے کردارکو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔در اصل اس موضوع پر لکھنے والوں کا تعلق مغربی پاکستان سے ہے اور ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جو کبھی مشرقی پاکستان گئے ہی نہیں ،کچھ اعلیٰ سرکاری افسران نے بھی اس موضوع پر لکھا ہے جو سقوطِ ڈھاکہ کے وقت مشرقی پاکستان میں تعینات تھے ۔ان حضرات کا عوام سے براہِ راست کوئی رابطہ نہ تھااس لئے یہ اُن کے مسائل سے نا واقف تھے ۔ در اصل یہ وہاں حاکم بن کر گئے تھے اور حاکم کو محکوموں کے مسائل اور وہاں کے حالات سے کوئی غرض نہیں ہوتی ۔ یہ سب جانتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی حکمرانوں کے ہاتھوں مشرقی پاکستان میں بنگالی قوم کا استحصال ہوتا آرہا تھا،اُنہوں نے جب بھی اپنے حقوق کے لئے آواز اُٹھائی اُن کی آواز کوطاقت کے زور پر دبا دیا گیا۔اگر اُ س وقت کے حکمران ایسا نہ کرتے اور اور سیاستدان بنگالی قوم کو ساتھ لے کر چلتے تو فوجی آپریشن کی نوبت ہی نہ آتی۔ سقوطِ ڈھاکہ کے ذمہ دارصرف فوج، سیاست دان اور حکمران ہی نہیں بلکہ مغربی پاکستان کے ادیب اور دانشور بھی ہیں کیوں کہ قوموں میں حب الوطنی اور یکجہتی کا جذبہ پیدا کرنے میں ادیبوں اور دانشوروں کا طبقہ اہم کردار ادا کرتا ہے قیامِ پاکستان اور سقوطِ ڈھاکہ درمیانی عرصے میں تخلیق ہونے والی پاکستانی ادب کا مطالعہ کریں تو ہمیں ایسی کوئی تحریر نہیں ملے گی جس میں مشرقی پاکستان میں بسنے والے لوگوں کے مسائل اور اُن کے دکھوں کا ذکرہو۔ مشرقی پاکستان میں غریبوں کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا،غربت اور افلاس کا یہ عالم تھا کہ اکثر دیہات اور قصبوں میں ہوٹلوں کے باہر بھوکے بچے، لوگوں کا بچا کھچا کھانا حاصل کرنے کے لئے دن بھر بیٹھے رہتے تھے ۔میں نے خود اپنی آنکھوں سے کئی مرتبہ محنت مزدوری کرنے والوںکو صرف ایک وقت کے کھانے کے عوض دن بھر کام کرتے دیکھا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ وہاں محنت کش طبقے کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک روا رکھا جاتا تھااور بعض دفعہ اُنہیں دن بھر کی محنت مشقت کے بعد بھی پوری اُجرت نہیں ملتی تھی۔اُن دنوں سائیکل رکشہ کا کرایہ پچیس پیسے فی میل کے حساب سے مقرر تھا۔بیچارے دن بھر کی مشقت کے بعد مشکل سے دو تین روپے ہی کما پاتے تھے۔اپنے انتخابی جلسوں میں شیخ مجیب نے انہیںسبز باغ دکھائے تو یہ سب عوامی لیگ کی حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوئے ،سچ پوچھئے تو عوامی لیگ انہی کے ووٹ سے کامیاب ہوئی تھی۔ لیکن مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعدبھی ان کی حالت نہ بدلی۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعدبنگلہ دیش کی معیشت تباہ ہو چکی تھی اور اِفراطِ زر کے باعث مہنگائی کئی گنا بڑھ چکی تھی ایسے میں غریبوں،کسانوں، اور مزدوروں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہو گئی تھی اور لوگ شیخ مجیب کو ان سب باتوں کا ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے لیکن مکتی باہنی کے خوف سے اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ (جاری)
فیس بک کمینٹ