مشرقی پاکستا ن میں الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی حالات خراب ہونا شروع ہو گئے تھے۔طلبا کی تنطیم "چھاترو لیگ”(جسے عوامی لیگ کی مکمل سرپرستی حاصل تھی) کی طرف سے آئے دن ہڑتالیں ہوتیں اور جلوس نکالے جا رہے تھے۔ہڑتال کے دنوں میں تمام دُکانیں بند ہوتیں اور سڑکوں پر سناٹا چھا یا رہتا ، صرف دفاتر میں کام کرنے والے یا پھر جسے بہت ضروری کام ہوتا وہی گھر سے باہر نکلتے تھے۔ہرتال کا دورانیہ صبح سے شام چار بجے تک ہوتا تھا اور اس دوران کسی کو سائیکل تک چلانے کی اجاز ت نہ تھی ۔سکول اور کالج کے طلبا دن بھر سڑکوں پرکھڑے رہتے اور بازار میں گھومتے رہتے تھے ، ا نہیں جو بھی سائیکل سوار دِکھائی دیتا تو بنگالی ہونے کی صورت میں یہ سائیکل کی ہَوا نکال دیتے اور اگر وہ بہاری ہوتا تویہ اُس پر تشدد کرتے تھے۔ان طلبا کو کوئی بھی کچھ نہ کہتا کیوں کہ عوامی لیگ کو انتظامیہ کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔ان حالات میں بہت سے لوگ جن کے عزیز و اقارب مغربی پاکستان میں تھے کراچی منتقل ہونے لگے، اور کچھ لوگ دیناج پور چھوڑ کر ڈھاکہ چلے گئے۔ جیسے جیسے الیکشن کے دن نزدیک آرہے تھے کشیدگی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔شیخ مجیب الرحمٰن اور عوامی لیگ کے لیڈر اپنے انتخابی جلسوں میں مغربی پاکستان کے خلاف مسلسل زہر اُگل رہے تھے ،انہی جلسوں میں پہلی مرتبہ مشرقی پاکستان کے لئے "بانگلہ دیش ” اور”سونار بانگلہ” کا لفظ استعمال ہونا شروع ہوا۔اُن کی تقریروں سے ایسا لگتا تھا کہ وہ مغربی پاکستان سے علیحدگی کا تہیہ کر چکے ہیں۔ بعض جلسوں میں تو یہ بھی کہا جا رہاتھا کہ یہاں پنجابیوں اور بہاریوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہم اُنہیں یہاں سے نکال باہر کریں گے۔ یہ بتاتا چلوں کہ وہاں پر مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کو پنجابی کہا جاتا تھا ،چاہے اُن کا تعلق کسی بھی قوم سے ہوتا۔اُن دنوں میرے والد ٹھاکر گاؤں نامی قصبے میں سب پوسٹ ماسٹر تھے۔یہاں پاکستان کا آخری ریلوے سٹیشن تھا، اس کے بعد بھارت شروع ہو جاتا تھا۔یہ علاقہ شوگر مل کی وجہ سے مشہور تھا،دیناج پور ضلع میں کئی شوگر ملز تھیں ۔والد صاحب ہر ہفتہ کو شام کی ٹرین سے آتے اور اتوار کی شام کو واپس چلے جاتے تھے۔والد صاحب اکثر وہاں سے ہلسہ مچھلی اور گنے لایا کرتے تھے۔یہ مچھلی صرف دریائے برہمن پتر میں ہوتی ہے اس لئے صرف مشرقی پاکستان میں پائی جاتی تھی ۔جس طرح ہمارے ہاں پلہ مچھلی دریائے سندھ کے علاوہ اور کہیں نہیں پائی جاتی۔ہلسہ مچھلی کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا ذائقہ دوسری مچھلیوں سے مختلف ہوتا ہے اور جب اسے تلتے ہیں تو اس کی سوندھی سوندھی خوشبو کئی گھروں تک جاتی ہے اور پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں کے گھر ہلسہ مچھلی پک رہی ہے۔بھارت میں یہ مچھلی سمگل ہو کر جاتی ہے اور بہت مہنگی بِکتی ہے۔
میرے چھوٹے چچا جو کہ ایسٹ پاکستان رائفل میں سپاہی تھے وہیں تعینات تھے وہ دو تین مہینے بعد تین چار دن کی رخصت پرگھر آیا کرتے تھے۔ آخری مرتبہ جب وہ آئے ہوئے تھے توایک شام اچانک شور بلند ہوا کہ بنگالی مارنے کے لئے آرہے ہیں ،یہ سنتے ہی تمام دکانیں بند ہو گئیں اور سب لوگ لاٹھیاں لے کر گھروں سے نکل آئے ،لیکن بعد میں یہ خبر جھوٹی نکلی ۔میرے چچا کہنے لگے یہاں حالات ٹھیک نہیں میں واپس اپنے یونٹ جا رہا ہوں۔ ہم سب نے اُنہیں روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہ رُکے۔اس واقعے کے کچھ ہی عرصہ بعد بنگالی فوجیوں نے بغاوت کر دی اور فوج میں جتنے بھی بہاری یا مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجی تھے سب کو قتل کر دیا،جو لوگ چھٹی پر تھے یا کہیں چھپ گئے تھے اُن کی تلاش میں ایسٹ پاکستان رائفل کے اہلکار اُن کے گھروں اور مختلف جگہوں پر چھاپے مارتی اگر کوئی فوجی پکڑا جاتا تو وہ اُسے ساتھ لے جاتے اور قتل کر دیتے۔ فوجی ہونے کے شبہ میں بہت سے سویلین بھی مارے گئے تھے۔ جوں جوں الیکشن کا دن نزدیک آرہا تھا انتخابی سرگرمیوں میں تیزی آ رہی تھی،عوامی لیگ کے مقابلے میں جماعتِ اسلامی اور مولانا بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی نے اپنے اپنے اُمیدوار کھڑے کئے تھے ،اس کے علاوہ ہمارے حلقے سے دو آزاد اُمیدوار بھی تھے۔شروع دن سے ہی عوامی لیگ کا پلّہ بھاری دِکھائی دے رہا تھا،اس کے جلسے اور جلوس میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد شریک ہوتی تھی۔ ان میں زیادہ تعداد طلبا،محنت کشوں اور کسانوں کی ہوتی تھی جو مختلف دیہات سے آتے تھے۔جب عوامی لیگ کا جلوس ہمارے علاقے سے گزرتا تو سب حیران رہ جاتے کہ اتنے لوگ کہاں سے آگئے۔دوسرے نمبر پرجماعتِ اسلامی تھی،اس کے جلسے اور جلوس میں زیادہ تعداد بہاریوں کی ہوتی تھی۔اس لئے اس کے پوسٹر بنگلہ کے ساتھ ساتھ اُردو میں بھی ہوتے تھے جو ہاتھ سے لکھے جاتے تھے کیوں کہ ہمارے شہر میں اُردو پرنٹنگ پر یس نہیں تھا۔ لوگوں کی سب سے کم تعداد نیشنل عوامی پا رٹی کے جلسوں اور جلوس میں ہوتی تھی۔عوامی لیگ والے اپنے جلسوں اور جلوس میں پاکستان زندہ باد کی جگہ جئے بانگلہ اور شیخ مجیب زندہ باد کے نعرے لگاتے تھے، جب کہ جماعتِ اسلامی کا نعرہ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الااللہ تھا۔
اس دفعہ الیکشن میں عوامی لیگ کی کامیابی صاف نظر آرہی تھی کیوں کہ پوری قوم شیخ مجیب کے ساتھ تھی اور وہ اُسے اپنا ہیرو سمجھتے تھے۔لیکن اب بھی کچھ لوگ خود کو جھوٹی تسلی دینے کے لئے کہتے تھے کہ عوامی لیگ نہیں جیتے گی ،اُن کا خیال تھا کہ فوج کسی بھی صورت شیخ مجیب کو اقتدار میں نہیں آنے دے گی۔نوے فی صد بنگالیوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ جب تک فوجی حکومت ہے اُنہیں اُن کے حقوق نہیں مل سکتے۔مجھے الیکشن کے دن کا بڑی شدت سے انتظار تھا کیوں کہ یہ میری زندگی کا پہلا الیکشن تھا اور میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ووٹ کیسے ڈالتے ہیں ۔خدا خدا کر کے الیکشن کا دن بھی آپہنچا۔زنانہ اور مردانہ دونوں پولنگ سٹیشن ہمارے سکول میں ہی بنے تھے۔ اُس روز میں صبح آنکھ کھلتے ہی اپنے سکول کی طرف بھاگا، وہاں پہنچ کر دیکھا کہا سکول سے کچھ فاصلے پرعوامی لیگ، جماعتِ اسلامی، نیشنل عوامی پارٹی اور آزاد اُمیدواروں کے ارکان اپنے اپنے کیمپ میں بیٹھے ہیں،ابھی لوگ آنا شروع نہیں ہوئے تھے کیونکہ ابھی پولنگ میں کافی وقت باقی تھا میں سکول کی طرف نہیں گیا ،کیوں کہ وہاں پولیس والے کھڑے تھے۔
نو دس بجے کے قریب میں دوبارہ اُس طرف گیا تو دیکھا کہ بڑی تعداد میں لوگ ووٹ ڈالنے کے لئے قطار میں کھڑے تھے، مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی بھی خاصی تعداد یہاں موجود تھیں۔میں حیران تھا کہ اتنے لوگ کہاں سے آگئے۔ابھی بڑی تعداد میں لوگ پیدل اور سائیکل رکشہ پر ووٹ ڈالنے کے لئے آرہے تھے،ان میں اکثریت آس پاس کے گاؤں سے آنے والوں کی تھی ۔ بہت سی خواتین بیل گاڑیوں پر آرہی تھیں ۔میں اُس روز دو تین مرتبہ پولنگ سٹیشن کی طرف گیا ،ہر مرتبہ لوگوں کا رش اُسی طرح تھا۔ پولنگ ختم ہونے کے بعد بہت سے لوگ نتیجہ سننے کے لئے بے قرار بیٹھے تھے۔
مغرب کے بعد اچانک جئے بانگلہ اور شیخ مجیب زندہ باد کے نعرے لگنے لگے۔ہم سمجھ گئے کہ عوامی لیگ جیت گئی ہے۔تھوڑی دیر بعد پولنگ سٹیشن سے آنے والوں سے اس کی تصدیق ہو گئی کہ عوامی لیگ بھاری اکثریت سے جیت گئی ہے۔ دوسرے نمبر پر جماعتِ اسلامی اور سب سے کم ووٹ نیشنل عوامی پارٹی کو ملے تھے۔اس خبر نے ہم سب کو پریشان کر دیا ،ہمیں خطرہ تھا کہ کہیں عوامی لیگ والے لوٹ مار نہ شروع کر دیں، اس لئے دُکانداروں نے اپنی دُکانیں بند کر دیں ۔ تمام بہاری اپنے گھروں میں سہمے بیٹھے تھے اور بنگالی اپنی فتح کا جشن منا رہے تھے۔رات دس گیارہ بجے کے قریب عوامی لیگ کا جلوس ہمارے علاقے سے گزرا اس میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد شامل تھی جو جئے بانگلہ کا نعرہ لگا رہے تھے۔وہ رات ہم نے جاگ کر گزاری ،لیکن اُس رات کوئی ناخوشگوار نہیں ہوا۔ اگلے روز تمام بنگالی بےحد خوش تھے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ الیکشن کے بعد حالات ٹھیک ہو جائیں گے،لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ دن بہ دن حالات بگڑتے چلے گئے۔ ڈھاکہ اور کئی دوسرے شہروں سے فسادات کی خبریں آرہی تھیں لیکن ابھی تک دیناج پور میں ایسا کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا تھالیکن بھر بھی ہر طرف خوف و ہراس کا عالم تھا۔ دُکانوں پر لگے اُردو میں لکھے بورڈ اُتار ے جا چکے تھے،سنیما گھروں میں صرف بنگلہ فلمیں ہی دکھائی جارہی تھیں جب کہ ڈھاکہ ،راجشاہی اور رنگ پور ریڈیو سے نوے فی صد بنگلہ پروگرام نشر ہو رہے تھے۔انہی دنوں دیناج پور کے ایک سنیماگھر جس کا مالک بہاری تھا میں اُردو فلم روڈ ٹو سوات لگی تو چھاترو لیگ نے سنیما گھر کو آگ لگا دی۔
(عکس: روزنامہ مشرق بشکریہ امجد سلیم علوی)
فیس بک کمینٹ