سچی بات یہ ہے کہ جب عدالت نے سید یوسف رضا گیلانی کو وزارتِ عظمیٰ کی کرسی سے اٹھا کر ملتان بھیج دیا تو اس کے بعد ملتانیوں کو یہ امید بالکل ختم ہوگئی تھی کہ اب آئندہ کبھی اس شہر قدیم و عظیم میں بڑے بڑے منصوبے آئیں گے اورچَورستوں پر ٹریفک کو گتھم گتھا ہونے سے بچانے کے لئے زیرِ زمیں یا بالائے زمیں راستے تعمیر کئے جائیں گے۔ سَن اٹھارہ سو اٹھارہ تک کہ جب ملتان اپنے ہی نام کا صوبہ تھا تو ممکن ہے والیانِ صوبہ، شہر پر کچھ کھلے دل سے خرچ کرتے ہوں مگر اس کے بعد تو یہی جناب گیلانی کا دور ہی آیا جب میگا پراجیکٹس اس شہرِ قدیم کا مقدر بنے۔ جیسے لاہور طعنوں کی زد میں رہا کرتا ہے اور سید علی ہجویریؒ کی نگری کے وسنیک ایک تفاخر اور تمسخر بھری مسکراہٹ کے ساتھ ان الزامات کا حظ اٹھاتے ہیں کہ سارے فنڈز لاہور پر خرچ ہورہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حظ ملتانیوں نے بھی گیلانی کے چار برسوں کے دوران اٹھایا۔ دوسری سچی بات یہ ہے کہ جب ٹی وی پر بیٹھے اینکروں اور تجزیہ سازوں کا بھی سانس پھول جاتا کہ ملتان کو اتنے ارب کے فنڈز دئیے جارہے ہیں تو نوازے گئے شہر کے باسی ہونے کا احساس جو لطف دیتا ہے، وہ بیان سے باہر۔
تیسری سچی بات یہ ہے کہ جب سن دو ہزار چودہ کے اواخر میں شہر کی فضائیں ان سرگوشیوں کی بھنک دینے لگیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب لاہور اور پنڈی کے بعد اب ملتان میں میٹرو بس پراجیکٹ دینے جارہے ہیں تو ایک نہایت ہی خوش گوار حیرت کا جھٹکا لگا۔ واضح ہو کہ گیلانی صاحب کے دور میں جب شہر میں لمبے لمبے پل اور انڈر پاس بن رہے تھے تو وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے برادرِ بزرگ محمد نواز شریف کے نام سے منسوب کر کے زرعی اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں بھی ملتان کو دی تھیں جو اَب خاصی فعال ہوچکی ہیں۔بہ ہر حال یہ میٹرو بس کا منصوبہ تو خیر بہت ہی بڑا اور شہر کے کلچر کو جدید رنگ ڈھنگ میں ڈھال دینے کا منصوبہ تھا۔ انہی سرگوشیوں میں ایک دن میاں شہباز شریف اچانک ملتان آگئے اور سرکٹ ہاؤس کے کمیٹی روم میں شہر کے عوامی نمائندوں اور انتظامیہ کے ساتھ وہ طویل اجلاس برپا کیا جس میں لنچ کے طور پر دال چاول پیش کئے گئے تھے۔ اس اجلاس میں یہ کالم نگار بھی موجود تھا۔
وزیرا علیٰ پنجاب شہباز شریف ہر وقت جلدی میں ہوتے ہیں مگر اس روز انہوں نے بڑے ہی تحمل کے ساتھ سب کو سنا۔ اس اجلاس سے قبل شہر سے میٹرو بس کی مخالفت میں کچھ آوازوں کی بازگشت اٹھی تھی ، سو میاں صاحب نے اجلاس میں موجود کیا عوامی نمائندے، کیا سرکاری افسر، ایک ایک کی رائے پوچھی اور سب کی باتیں تسلی سے سنیں۔ اگر کسی کو نہیں سنا گیا تو یہ فقیر اور اصغر خان تھے۔ ہمارا وہ عالم تھا کہ
کَس نمی پر سد کہ بھیا کون ہو
تین ہو کہ آدھ ہو کہ پَون ہو
بہ ہر حال اُس روز میاں صاحب مائل بہ کرم تھے۔ بریفنگ میں ان کو میٹرو کے دو مجوزہ کاری ڈور(روٹ) بتائے گئے۔ شجاع آباد کے رکن قومی اسمبلی جاوید علی شاہ بیٹھے تھے۔ انہوں نے فرمائش کی کہ چوک ڈبل پھاٹک سے ناگ شاہ چوک تک کا روٹ بھی میٹرو میں شامل کیا جائے تاکہ شجاع آباد اور جلال پور پیروالا سے آنے والے لوگ بھی مستفید ہوسکیں۔ بریفنگ کے بعد سی ایم کو کہا گیا کہ ’’سر! دونوں میں سے جو آپ منظور فرمائیں، اس کا ری ڈور پر کام شروع کردیا جائے گا‘‘۔
سی ایم نے پھیکی چائے کی ایک چسکی بھری اور کہا’’ کسی ایک پر کیوں؟ دونوں پر کیوں نہیں؟ ملتان جنوبی پنجاب کا مرکز ہے جس کا پھیلاؤ اور آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جاوید علی شاہ صاحب کا تجویز کردہ روٹ شامل کر کے دونوں پر کام شروع کریں‘‘۔ یوں میاں صاحب نے ساڑھے37کلومیٹر طویل میٹرو ملتان پراجیکٹ کی منظوری دے دی ۔ میاں صاحب چلے گئے تو پیچھے عوامی نمائندوں نے مخالفت شروع کردی۔ چند حق میں تھے اور کچھ مخالف۔ کمشنر ملتان کے پاس کئی اجلاس ہوئے اور یہی حمایت و مخالفت کا بازار گرم رہا۔ بالآخر تجرباتی طور پر کاری ڈور وَن جو کہ ساڑھے اٹھارہ کلومیٹر طویل ہے اس کی منظوری لے کر اس پر کام شروع کر دیا گیا۔ ساڑھے بارہ کلومیٹر کا فلائی اوور اور باقی سڑک کی سطح پر، اس روٹ میں اکیس میٹرو سٹیشن ہیں۔ اگر چائے کی پیالی میں یہ طوفان نہ اٹھایا جاتا تو آج ساڑھے 37کلومیٹر طویل ملتان میٹرو بس پراجیکٹ تکمیل کے آخری مراحل میں ہوتا۔ خیر! اب کاری ڈور وَن مکمل ہوگیا ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ اس کا افتتاح کردیا جائے گا۔
چند روز ہوتے ہیں، وہاڑی سے واپس آرہا تھا۔ راہ میں شام اتر آئی اور رفتہ رفتہ پالے میں مل کر خوب گاڑھی ہوگئی۔ جب میں شہر میں داخل ہو کر وہاڑی چوک پہنچا ہوں تو دھند کی ہلکی ہلکی سفیدی آسمان سے اتر رہی تھی جس نے رات میں بدلتی شام کے اندھیارے میں گویا سپیدی چھڑک دی تھی۔ شہر پھیلتے ہیں تو ان کے اکثر گوشے خود اپنے ہی مکینوں کے لئے اجنبی ہوجایا کرتے ہیں۔ جس طرف کام نہ ہو، مدتوں اس طرف کا چکر نہیں لگا کرتا۔ میں نے بھی کئی مہینے بعد وہاڑی چوک دیکھا۔ آخری مرتبہ گیا تو اس چوک کی وہی برسوں پرانی پہچان برقرار تھی۔ مٹی، گرد، شور اور اندھیرا۔ مگر اب کے بار تو منظر ہی کچھ اور تھا۔ وہ گول چکر جس میں لنڈے کے کپڑوں کے سٹال لگے ہوتے تھے، اب وہاں خوش رنگ فوارے چل رہے تھے اور روشنیاں، رنگوں کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر رقص کرتی تھیں۔ میٹرو فلائی اوور کے اوپر پتلے پتلے لمبے لمبے کھمبے اپنی پیشانیوں پر لگی لائٹوں کی روشنی فضا میں بکھیرتے تھے اور فلائی اوور کے نیچے بھی جا بہ جا روشنیاں۔ نیچے پلرز کی چوڑائی کے برابر گرین بیلٹ چلی گئی تھی اور اس کے دونوں طرف فراخ و کشادہ سڑکیں۔ آگے انڈر پاس پر عجیب نظارہ تھا۔ انڈر پاس میں سڑک، اس کے اوپر ریل اور ریل کے اوپر میٹرو کافلائی اوور۔
چوک قذافی تک یہ سڑک ملتان کا حصہ لگتی ہی نہ تھی۔ بوسن روڈ، ہمایوں روڈ، حافظ جمال روڈ اور وہاڑی روڈ کا بھی کچھ ایسا ہی منظر نامہ ہے۔ ایسی سڑکیں، ایسی روشن و فراخ سڑکیں تو ہم نے اب تک صرف دارالحکومتوں میں دیکھی تھیں، اسلام آبادیا پھر صوبوں کے دارالحکومت۔اپنے شہر کو اس روپ میں دیکھ کر ایک عجیب سا انبساط اور فخر میرے رَگ و پے میں دوڑ گیا۔ گردوگورستان کا شہراور بے شجر ہونے کی بنا پر گرما کا شہر۔ صدیوں سے جیتا ، سانس لیتا شہر۔ حملہ آوروں کا شکار ہو کر اجڑتا، برباد ہوتا مگر پھر سے جی اٹھتا، میرا جی دار شہر۔ میری محبت، میرا عشق، میرا ملتان۔ میاں صاحب، میاں محمد شہبازشریف صاحب! آپ کا بے حد شکریہ۔ اس کالم کے پڑھنے والو! اب جاتے جاتے آخری سچی بات ۔ میرا شہرجدید دور میں قدم رکھ چکا۔ یونیورسٹیاں، ہسپتال، میٹرو، فلائی اوور، انڈر پاس، انٹرنیشنل ائیرپورٹ اور پتہ نہیں
کیا کیا۔ نشتر سے بھی بڑا ایک اور ہسپتال عن قریب میاں نواز شریف دینے والے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے اس غیر علانیہ صدر مقام، ملتان کے اس سارے منظر نامے میں آخری سچی بات یہ ہے کہ اس شہر میں اب اگر کوئی کمی ہے تو فقط دو چیزوں کی۔ ایک صوبائی اسمبلی اور ایک صوبائی سیکرٹریٹ ۔
(بشکریہ روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ